شاعر مشرق کے خانوادے کا سیاسی سفر

اقبال کے بیٹے اور نواسے کے بعداب پوتا بھی میدان سیاست میں

فوٹو : فائل

علامہ اقبال نے 1926ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے مسلم حلقہ سے انتخابات میں حصہ لیا اورکامیاب ٹھہرے۔

44برس بعدان کے بیٹے ڈاکٹر جاویداقبال انتخابی میدان میں اترے اور ہار گئے۔اقبال کا حوالہ ان کی انتخابی مہم کا محور رہا لیکن اقبال سے تعلق ان کی جیت کا راستہ ہموار نہ کرسکا۔ 1970ء کے الیکشن میں مغربی پاکستان ، بالخصوص پنجاب میں پیپلز پارٹی اس قدر مقبول تھی کہ اس کے امیدواروں کو ہرانا بہت دشوار تھا 'اور جاوید اقبال کے لیے تو صورت حال اور بھی کٹھن تھی کہ انھیں کسی عام امیدوار سے نہیں بلکہ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے لڑنا تھا۔ بھٹو نے الیکشن میں 78132 ووٹ حاصل کئے جبکہ ڈاکٹر جاوید اقبال کے حصے میں 33921 ووٹ آئے۔

اور یوں لاہوریوں نے فرزند اقبال کے بجائے ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی جماعت کے لاہور سے دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں کہیں بہتر کارکردگی دکھائی ،کہ ان کے سوا باقی تمام کی تو ضمانت ضبط ہوئی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس ناکامی سے ایسے بددل ہوئے کہ سیاست کو خیرباد کہہ کر عدالت سے اپنا تعلق قائم کرلیا۔ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے جج کے طورپران کے تقرر کی سفارش صدریحییٰ خان کو پہنچی تو انھوں نے ڈاکٹر جاوید اقبال سے کہا: ''چیف جسٹس نے ججی کے لیے آپ کا نام بھیجا ہے، لیکن آپ نے اتنی جلد ہمت کیوں ہار دی؟میں تو گزشتہ الیکشنوں کوکالعدم قرار دینے کے بارے میں سوچ رہا ہوں اور ازسرنو الیکشن کرانے کا ارادہ ہے جس کے رولزکے تحت اس سیاسی جماعت کو کامیاب قراردیا جائے گا، جو اپنے ''ونگ''کے علاوہ پاکستان کے دوسرے ''ونگ''سے ایک تہائی ووٹ حاصل کرے۔''میں نے عرض کی''سر!میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھ میں ملکی سیاست میں حصہ لینے کی صلاحیت نہیں ہے۔

اس لیے اگرآپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ جج بنادیا جاؤں تو بہتر ہے۔ورنہ میں اب صرف وکالت کے پیشے تک ہی اپنے آپ کو محدود رکھوں گا۔''اس کے بعد جنرل یحییٰ خان نے مزیدمجھے کچھ نہ کہا۔جولائی1971ء میں مجھے لاہور ہائی کورٹ کا جج بنادیا گیا۔'' جاوید اقبال کے اس بیان سے' 70ء کے الیکشن سے متعلق شفافیت کا جو ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، اس کی نفی ہوتی ہے ۔کیا اس زمانے میں کوئی ایسی جماعت تھی جو ملک کے دوحصوں سے ایک تہائی اکثریت حاصل کر کے مسٹر یحییٰ خان کی فرمائش پوری کرپاتی؟ویسے ایک بھونڈے ضمنی الیکشن کے ذریعے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی،اوریاد رہے، اس کوشش میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں شامل تھیں۔

ستر کے الیکشن سے قبل1964ء کے صدارتی الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو اور جاوید اقبال مختلف سیاسی کیمپوں میں تھے۔بھٹو ،ایوب کے معتمد خاص اور کنونشن لیگ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے بھرپور انداز میں ان کی انتخابی مہم چلارہے تھے، جبکہ جاوید اقبال کونسل مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھے،انھوں نے پنجاب کے مختلف شہروں کا ان کے ہمراہ دورہ کیا، خطاب کئے اور جھنگ میں مادر ملت کے پولنگ ایجنٹ کے فرائض انجام دیے۔لیکن جمہوریت کے لیے ان کی یہ جدوجہد اور بھٹو کی طرف سے آمر کی کھلی حمایت بھی جاوید اقبال کے کام نہ آسکی اور وہ الیکشن ہار گئے۔

علامہ اقبال کے نواسے یوسف صلاح الدین' میدان سیاست میں اترے تو انھوں نے اس پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی،جس سے ستر کے الیکشن میں ان کے ماموں ڈاکٹر جاوید اقبال ہارے تھے۔یوسف صلاح الدین1988 ء میںلاہور سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔انھوں نے1993ء میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے الیکشن میں حصہ لیا لیکن وہ شہباز شریف سے ہار گئے اور رفتہ رفتہ سیاست سے دور ہوکر خود کو ثقافتی سرگرمیوں کے لیے وقف کردیا۔



یوسف صلاح الدین تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے قریبی دوست ہیں۔عمران خان نے اپنی کتاب''میں اور میرا پاکستان''میں بھی اپنے اس دوست کا ذکر کیا ہے، جس نے روحانیت کی طرف ان کے بڑھتے شغف اور مذہب پرمضبوط اعتقاد کے وجہ سے انھیں بنیاد پرست قرار دے دیا تھا۔ عمران خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ1995 ء میں بینظیر بھٹواور آصف علی زرداری نے انھیں پیغام بجھوایا تھا کہ وہ شوکت خانم ہسپتال کا افتتاح کرنے کے خواہش مندہیں ، لیکن عمران اس پر راضی نہ ہوئے کیوں کہ یہ پہلے سے طے شدہ تھا کہ ہسپتال کا افتتاح کینسر کی دس سالہ مریض بچی سمیرہ یوسف کرے گی۔

جس پرپیپلز پارٹی شوکت خانم ہسپتال کے خلاف انتقامی کارروائی پر اترآئی تو یوسف صلاح الدین نے عمران کو پیپلز پارٹی سے تعلقات بہتر بنانے اور اس سلسلے میں مصالحتی کرداراداکرنے کی پیشکش کی، کیوں کہ ان کے بقول ''بصورت دیگرزرداری ہسپتال کا بیڑہ غرق کردے گا۔''عمران خان پر یوسف صلاح الدین کے مشورے نے الٹا اثر کیا اور انھوں نے اور بھی زور وشور سے پیپلز پارٹی کو تنقید کانشانہ بنانا شروع کردیا۔یوسف صلاح الدین کے والدمیاں صلاح الدین جو میاں صلی کے نام سے معروف تھے، انھوں نے1977ء کے عام انتخابات میں لاہور سے پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پرالیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی۔1985ء کے غیرجماعتی الیکشن میں وہ قومی اسمبلی کی نشست پر حافظ سلمان بٹ سے شکست کھا گئے تھے۔

علامہ اقبال نے بار ایٹ لا کیا۔بیٹا جاوید بھی باپ کے نقش قدم پر چلا اورپوتوں نے بھی باپ دادا کی طرح قانون کی تعلیم حاصل کرکے وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔علامہ اقبال کے بڑے پوتے منیب اقبال کو بھی سیاست کا شوق چرایاتھا۔انھوں نے 2002ء کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے لیکن مسلم لیگ ن نے انھیں پارٹی ٹکٹ نہ دیا اور وہ الیکشن لڑنے سے محروم رہے ۔ان دنوں اقبال کے دوسرے پوتے ولید اقبال سیاست میں خاصے سرگرم ہیں۔30 اکتوبر2011 ء کو لاہور میں تحریک انصاف کے کامیاب جلسے کے بعد جن افرادکی تحریک انصاف میں شمولیت کا میڈیامیں چرچا ہوا ،ان میں ولید اقبال بھی شامل تھے۔عمران خان سے جس ملاقات میں انھوں نے تحریک انصاف کا حصہ بننے کا اعلان کیا، اس میں ڈاکٹرجاوید اقبال اور ناصرہ جاوید اقبال کی موجودگی اس بات کی غمازتھی کہ بیٹے کے فیصلے کو دونوں کی تائید حاصل ہے۔ولید اقبال لاہور سے حلقہ این اے124سے تحریک انصاف کے امیدوارہیں۔

وہ اپنی انتخابی مہم میں اقبال کا نام بھی استعمال کررہے ہیں۔ اسٹیکروں، پوسٹروں اور بینروں پر ولید اقبال کے نام کے اوپر ''پوتا علامہ اقبال''اور''علامہ اقبال کے پوتے''کے لفظ نمایاں طور پرنظر آتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ شاعر مشرق کا پوتا ہونا انھیں سیاسی اعتبار سے کس قدر فائدہ پہنچاتا ہے۔کیوں کہ ان کے والد کا نسبی تعلق اقبال سے زیادہ قریبی تھا لیکن یہ تعلق انھیں انتخابی کامیابی نہیں دلا سکا تھا ۔علامہ اقبال کا بلند تر مقام ومرتبہ اپنی جگہ مگر الیکشن کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں۔ مختلف عوامل امیدوار کی جیت میں کارفرما ہوتے ہیں ،جو یقیناً ولید اقبال کے پیش نظر ہوں گے۔

دیکھنا یہ ہے کہ جیت ولید اقبال کا مقدر بنتی ہے یا نہیں۔ولید اقبال جس حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں ، ادھر پیپلز پارٹی کی طرف سے معروف قانون دان اعتزاز احسن کی اہلیہ بشریٰ اعتزاز امیدوار ہیں۔ماضی میں عتزازاحسن اس حلقے سے تین بارقومی اسمبلی کے رکن بن چکے ہیں ، اس بار وہ اس حلقے سے اپنی بیوی کے لیے بھرپور انداز میں انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ان کی توپوں کا رخ نواز شریف کی طرف ہے ،جن کے مشرف دور میں وہ وکیل بھی رہے، اور عدلیہ کی بحالی کے لیے اعتزاز احسن کے کردار کی وجہ سے ن لیگ نے گذشتہ انتخابات میں اس حلقے سے ان کے مقابلے میں اپنا امیدوار سامنے نہ لانے کا عندیہ بھی دیا تھا لیکن اعتزاز احسن نے اس الیکشن میں حصہ نہ لیا لہٰذا یہ فراخدلانہ پیشکش توڑ نہ چڑھ سکی۔ولید اقبال کا اصل مقابلہ مسلم لیگ ن کے شیخ روحیل اصغر سے ہوگا،جو سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور گذشتہ انتخابات میں اس حلقہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔


دلچسپ بات ہے کہ بھٹو کے خلاف جب ولید اقبال کے والد نے الیکشن لڑا تو نوازشریف کے والدمیاں محمد شریف نے ان کی بھرپور مدد کی تھی۔1993ء میں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سے استعفادیا تو انھوں نے نگران وزیراعظم کے لیے ڈاکٹر جاوید اقبال کا نام تجویز کیا لیکن غلام اسحاق خان اس پر راضی نہ ہوئے اور یوں اس ہندو جوتشی کی وہ پیش گوئی پوری ہوتے ہوتے رہ گئی، جس سے اقبال نے بیٹے کا زائچہ بنوایا تو اس نے نوید سنائی تھی کہ ''مجھے قطعاً تعجب نہ ہوگاکہ اٹھائیس سال گزرنے کے بعد یہ لڑکا انڈیایا انڈیا سے باہرکسی نہایت اہم محمڈن ریاست کا چیف منسٹر بن جائے۔'' ڈاکٹر جاوید اقبال مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سینیٹربھی رہے۔اور آخر میں چلتے چلتے یہ بھی بتاتے چلیں کہ علامہ اقبال کے پوتے ہی نہیں، فیض احمدفیض کے نواسے عدیل ہاشمی جو بحیثیت اداکاراور ماڈل بھی منفرد شناخت رکھتے ہیں ،وہ بھی تحریک انصاف کے رکن ہیں، اور پارٹی کے مختلف النوع سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو بمقابلہ فرزند اقبال : ایک انتہائی دلچسپ انتخابی معرکے کی روداد

میں کونسل لیگ کے ٹکٹ پر لاہور کے ایک حلقے سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے کھڑا ہوا۔

اس پارٹی میں دیگر اہم شخصیات سردار شوکت حیات' یحییٰ بختیار اور میاں ممتاز دولتانہ تھے جو ہماری پارٹی کے قائد تھے۔ میرے مقابلے میں پیپلزپارٹی کی طرف سے پہلے تو میاں محمود علی قصوری نے کھڑے ہونے کا اعلان کیا لیکن بعدازاں بھٹو مقابلے میں آگئے۔

ہم دونوں کے علاوہ احمد سعید کرمانی کنونشن لیگ کے ٹکٹ پر' جنرل سرفراز' نوابزادہ نصر اللہ خان کی پارٹی کی طرف سے اور شاید ایک مسیحی امیدوار بھی اس حلقہ سے کھڑے تھے۔ الیکشن سے پیشتر میں نے علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی اور عرض کی ''میں اس لیے کھڑا ہوا ہوں کہ اگر مرنے کے بعد آپ اور قائداعظم کے روبرو پیش ہونا پڑے تو کہہ سکوں مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے نیک نیتی سے کردیا۔'' پھر داتا کے دربار پہنچا اور پاکستان کے استحکام کے لیے دعا مانگی۔ الیکشن کے دوران میری تقاریر ہمیشہ حقیقت پسندانہ ہوتی تھیں۔ جلسوں کا اہتمام عموماً آغا شورش کاشمیری کیا کرتے تھے۔

میں کوئی بلند بانگ دعوے نہ کرتا تھا بلکہ عوام کو بتانے کی کوشش کرتا تھا کہ ''روٹی' کپڑا اور مکان'' کے فریب میں نہ آئیں۔ ملک کے جو وسائل ہیں ان کو مدنظر رکھ کر ہی عوام کی زندگیوں کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں اگر ضرورت ہے تو صرف قابل اعتماد قیادت کی' جس کے اقتدار کی عمارت جھوٹ کی بنیاد پر بلند ہونے کے بجائے سچ کی بنیاد پر قائم ہو۔ مگر پاکستان کے بھوکے' ننگے اور اَن پڑھ عوام طفل تسلیوں کے ذریعہ بڑی آسانی سے اپنے پیچھے لگائے جاسکتے تھے۔ جہاں تک جنرل یحییٰ خان کا تعلق تھا' میرے خیال میں ان کی یہی کوشش تھی کہ مسلم لیگ منقسم نہ رہے۔



وہ خان عبدالقیوم خان اور میاں ممتاز دولتانہ کی لیگوں کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مجھے بھی دو تین مرتبہ طلب کیا۔ وہ میاں ممتاز دولتانہ کو پسند نہ کرتے تھے مگر خان عبدالقیوم خان ان کے منظور نظر تھے۔ ایک مرحلے پر تو بڑی دردمندی سے انہوں نے ارشاد فرمایا کہ وہ مجھے متحد مسلم لیگ کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔ مسلم لیگ کا صدر تو وہی ہوسکتا ہے جسے نیچے سے کارکنان منتخب کریں۔ اگرصدر اوپر سے مقرر کیا گیا تو اس کی کوئی وقعت نہ ہوگی۔ نیز میں نہ ایسا منصب قبول کرنے کو تیار ہوں نہ میرے وسائل ایسی اجازت دیتے ہیں۔

خیر مقابلہ خاصا سخت تھا۔ میں نے کوشش کی کہ اس حلقے میں میرا اوربھٹو کا ون ٹو ون مقابلہ ہو اور دیگر امیدواروں کو بیٹھ جانے کی گزارش کی جائے۔ اس بارے میں میں' مجید نظامی اور آغا شورش کاشمیری' مولانا مودودی سے ملے۔ جماعت اسلامی نے میری حمایت کا اعلان کررکھا تھا۔ مولانا مودودی نے نوابزادہ نصر اللہ خان کو بھی فون کیا کہ مقابلہ ون ٹو ون ہونا چاہیے لیکن انہوں نے فرمایا کہ وہ جنرل سرفراز کو بیٹھنے کے لیے نہیں کہہ سکتے۔ سو جنرل سرفراز اور احمد سعید کرمانی میدان میں ڈٹے رہے۔

پیپلزپارٹی کے اربابِ بست و کشاد کا زیادہ زور میری مخالفت کرنا تھا کیونکہ باقی امیدواروں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کے با رے میں وہ فکر مند ہوں لہٰذا میاں محمود علی قصوری اور حنیف رامے بھٹو کے حق میں اپنی تقریروں میں باربار یہی دہراتے کہ میں سرمایہ داروں اور ا سلام پسندوں کا ایجنٹ ہوں اور وہ مجھے امریکا بھاگنے پرمجبور کردیں گے۔ (لیکن جیسا کہ بعد میں ظاہر ہوا یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے صرف حنیف رامے کے نصیب میں لکھ رکھی تھی) دوسری طرف مولانا نعیمی مرحوم نے' جو جنرل سرفراز کے حق میں تقاریر کرتے تھے' فرمایا کہ میں حضرت نوح علیہ السلام کے نافرمان بیٹے کی طرح ہوں کیونکہ میں نے جاوید منزل سے منسلک مسجد جامع اقبال کی تعمیر نو کراکے اسے نیچے سے اوپر کی منزل پر منتقل کردیا تھا اور نیچے دکانیں بنوا کر ایک ٹرسٹ قائم کردیا تھا تاکہ مسجد خود کفیل ہوجائے۔

مگر ان کے خیال میں میں مسجد کی دکانوں کا کرایہ خود کھاجاتا تھا۔ ان سے پیشتر مولانا روپڑی مرحوم نے مجھے مرتد قرار دے رکھا تھا کیونکہ میں نے شریعت کے بعض امور کی تعبیر نو کے لیے اجتہاد کی ضرورت کا ذکر کیا تھا۔ الغرض مجھے بھٹو کے سوشلسٹ کامریڈوں اورجنرل سرفراز کے اسلام پسند غازیوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ میرے حلقے میں جتنے بھی پولنگ اسٹیشن تھے وہاں انتظام بہت اچھا تھا۔ دوپہرکے کھانے کے لیے قیمے والے نان موجود تھے اور میاں محمد شریف نے ووٹروں کو لانے کے لیے بسوں کا انتظام بھی کررکھا تھا۔ میرے ورکروں کو امید تھی کہ میں اس حلقے سے کامیاب ہوجائوںگے۔

لیکن ایسا نہ ہوا۔ بہت بڑی تعداد میںووٹر میری ہی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ پر آئے' میرے ہی کیمپ سے قیمے والے نان کھائے اور چٹیں وصول کیں' لیکن اندر جاکر ووٹ بھٹو کو ڈال گئے۔ لاہورمیں میرے علاوہ پیپلزپارٹی کے ہر مخالف امیدوار کی ضمانت ضبط ہوئی۔(ڈاکٹر جاوید اقبال کی آپ بیتی''اپنا گریباں چاک'' سے اقتباس)
Load Next Story