کچے مکان محبت خلوص تہذیب اورثقافت کے پَکّے امین
اپنے گھر گاؤں اور مٹی سے محبت کا جذبہ اور احساس انسان تو کیا پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
''میں نے فرنگیوں کے خوب صورت جہاز بھی دیکھے ہیں جن کے نیچے بڑے بڑے دریا موجیں مارتا ہے میں نے لندن کے محلات بھی دیکھے ہیں اور ان کی خوب رو ونازک اندام دوشیزائیں بھی، میں نے پیرس کی حسین پریاں بھی دیکھی ہیں جو کرداروگفتار میں بلبل کی طرح میٹھی ہیں، جن کے مکانات بادلوں تک پہنچتے ہیں میں نے تاج محل کے پھول نقش ونگار بھی دیکھے ہیں اور دہلی میں مغلیہ دور کے دیگر شہر بھی مگر جوں ہی میں کچے اور مٹی سے بنے ہوئے اپنے گھر کو دیکھتا ہوں تو دنیا کے تمام خوب صورت محلات بھول جاتا ہوں۔ میرے گاؤں کی یہ چھوٹی چھوٹی اور تنگ وتاریک گلیاں اور دنیا کے تمام خوب صورت شہر اس کے سامنے ہیچ ہیں۔''
یہ احساسات وجذبات پشتو زبان کے معروف ومقبول شاعر، دانش وراور فلسفی غنی خان کے ہیں، جو انہوں نے اپنی ایک نظم ''سیل'' (سیر) میں بیان کیے ہیں، اور اپنے گاؤں اور مٹی سے بنے ہوئے کچے مکان کے ساتھ اتنی محبوبیت، عقیدت اور محبت کا اظہار کیا ہے۔
اپنے گھر گاؤں اور مٹی سے محبت کا جذبہ اور احساس انسان تو کیا پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن مذکورہ نظم کے ان چند اشعار میں غنی خان نے دیہات اور کچے مکان کے بارے میں جن احساسات وجذبات کی ترجمانی کی ہے، دراصل انہوں نے اپنے تئیں گاؤں اور کچے مکانات کے ساتھ وابستہ اس ثقافت، روایات واقدار کی جانب اشارہ کیا ہے، جو گاؤں اور کچے مکانات میں رہنے والے لوگوں کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کو سنوارتی بھی ہیں اور اسے ایک خاندانی اور نسلی رشتے میں باندھنی بھی ہیں۔ کچے مکانات میں رہنے والوں کی زندگی خوراک وپوشاک جس طرح سادہ بناوٹ اور تصنع سے پاک ہوتی ہے، اسی طرح ان کی محبت اور خلوص میں بھی کسی قسم کی ملاوٹ اور دکھاوا نہیں ہوتا۔ رہتے ہیں یہ لوگ کچے مکانات میں لیکن ان کے ارادے حوصلے اور وعدے بہت پکے ہوتے ہیں۔
لیوٹالسٹائی کہتے ہیں کہ اگر آ پ فن میں سچی محبت اور اوریجنلٹی دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتے ہو، تو جائیں اوردیہات کے کچے مکانات میں رہنے والوں کے آرٹ کو دیکھیں۔ اس میں آپ کو نظر بھی آئے گا اور محسوس بھی کرسکیں گے۔ ٹالسٹائی کی بات کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ فطرت کی گود میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہاں پرورش پاتے ہیں۔ نہ صرف ان کی معاشرتی زندگی سادہ اور خلوص پر مبنی ہوتی ہے، بل کہ ان کے فن، ادب، شاعری اور دیگر روحانی سرگرمیوں میں بھی یہی چیزیں کارفرما ہوتی ہیں۔ مٹی کے یہ کچے گھر ہمارے دیہاتی حسن اور ثقافت کے امین ہیں۔ فطرت سے قریب تر ان کچے مکانوں نے آج تک ہماری تاریخ، روایات، ثقافت رومان اور اقدار کو محفوظ کررکھا ہے۔ لیکن آ ج کل پوری دنیا اربنائزیشن کی طرف روا ں دواں ہے۔ اس کے باعث یہ کچے مکان یا تو خالی ہورہے ہیں یا پھر ڈھائے جارہے ہیں۔
اس موضوع پر کبھی کچے مکان میں رہنے والے ایک صاحب سے ہماری بات چیت ہوئی۔ ان صاحب کا نام ہے ذوالفقار اور یہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ ذوالفقارچارسدہ سے ملحقہ مومند قبیلے کی پٹی میں کھبی ایک کچے مکان میں رہا کرتے تھے۔ آج کل شہر میں پکا مکان خرید کراس میں زند گی بسر کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنا گاؤں اور کچا مکان اب بھی یاد آتا ہے۔ لیکن شہر کے بکھیڑے اتنے زیادہ کہ جلد ہی وہ تصویر ذہن سے نہاں ہوجاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میرا ماضی ایک خواب ہے، شہر میں آکر تنگ وتاریک گھر میں رہنا کون پسند کرتا ہے، جہاں حبس ہے، آلودگی ہے، شور ہے، تکلفات ہیں، اپنوں سے دورغربت کا احساس ہجوم میں رہتے ہوئے بھی تنہائی اور ذہنی جلاوطنی کا احساس کوئی چیز اپنی اصل حالت میں نہ رہی ہر چیز میں ملاوٹ، بناوٹ در آئی ہے پکے مکان کے اپنے کچھ لوازمات اور مطالبات ہوتے ہیں۔ آج ہمارے گھروں پر چین، جاپان اور یورپ کی الیکٹرانک مشینوں، کمپیوٹر، فریج اور واشنگ مشین قابض ہوگئی ہے اب ظاہر ہے کہ ان چیزوں نے ہماری اقدارو روایات کو بھی متاثر کیا ہے۔ فطرت سے دوری نے ہمیں ایک ایسے ویرانے میں لاکھڑا کیا ہے جہاں اب کوئی چیز اپنی اصل شکل اور رنگ میں نظر نہیں آتی۔
ہم ایک ایسے کنکریٹ کے جنگل میں رہتے ہیں جہاں سے اب فطرت کا نظارہ اور ان نظاروں سے لطف اندوز ہونا بھی نصیب نہیں ہوتا، حالاںکہ فطرت تو اب بھی موجود ہے وہی سورج ہے، وہی چاند ہے اور ویسے ہی تارے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ موسم بدل گئے حالاںکہ موسم نہیں بلکہ ہمارے مزاج بدل گئے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ہمارے اندازے اور پیمانے بدل گئے ہیں۔ آج بھی جو لوگ کچے مکان اور دیہات میں رہتے ہیں انہیں ان اونچے اونچے مکانات شہر کے محلات اور بنگلوں میں رہنے والے لوگ پس ماندہ اور غیرمہذب سمجھتے ہیں۔ انہیں اُجڈ اور جاہل جیسے ناموں سے پکارتے ہیں لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ انہی کچے مکانات اور دیہات نے ہمیں خاندانی رشتوں کی مٹھاس دی ہے۔ ہمیں سچی محبت کرنے کا سلیقہ سکھایا خلوص، صداقت اپنی مٹی اپنے وطن سے ناتا جوڑنے کا درس دیا ہے۔ اتحاد و اتفاق ، تنظیم ، مہمان نوازی، جرگہ سسٹم اور حجرہ کلچر غم اور خوشی دونوں کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم دردی خدمت تعاون کرنا ہمیں انہی کچے مکانات میں رہنے والوں نے سکھایا۔ ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہماری ثقافت کے اصل اور تاریخ کے محافظ یہی کچے مکانات ہیں۔
مٹی کے ان گھروں نے محبت کی عظیم داستانوں اور کرداروں کو جنم دیا ہے۔ آرٹ کے نادر نمو نے تخلیق کیے ہیں۔ صنعت وہنر کی بے شمارایجادات پیش کی ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیںکہ آ ج کا انسان پکا مکان بنانا اور اس میں رہنا بسنا چھوڑکر مٹی کا مکان بنائے اور واپس دیہاتی زندگی اپنالے۔ اصل بات ہے انسانی رویوں کی، ہماری ثقافت اور اقدار کی، ہماری اپنی تہذیبی شناخت اور پہچان کی۔ ہم چاہے جہاں بھی اور جس جگہ بھی رہیں اپنی تہذیب وثقافت کی ان اقدار و روایات کا دامن ضرور تھام کر رکھیں، جو اقدار وروایات آج بھی ہماری راہ نمائی کرسکتی ہیں۔ یہ بات یہاں تک تو صحیح ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ دنیا گھٹتی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے اور وسیع رقبے پر پھیلے ہو ئے مکانات کی بجائے اب لوگ اپارٹمنٹس میں رہنے پر مجبور ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی وہ سوچ ترک کردیں جو ہماری مٹی خمیر میں شامل ہے۔ جدید سے جدید گھر بناکر سُکھ کی زندگی ضرور گزاریں اور ایسے گھروں میں رہنا بھی کوئی بری بات نہیں، مگر کہنا مقصود یہ ہے کہ مٹی کے بنے یہ گھروندے ہمارا ورثہ ہے۔ آج بھی دوردراز کے دیہات میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پکے مکانات تعمیر کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں محض اس لیے کسی کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کچے مکان میں رہتا ہے۔
دراصل یہی ہماری تہذیب ہے، یہی ہماری ثقافت ہے اور یہی ہماری روایات ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور نے ہمیں قدرتی مناظر سے دور کردیا ہے۔ آج ہمیں نہ تو پرندوں کی چہچہاہٹ سے محظوظ ہونا نصب ہوتا ہے اور نہ ہی دریاؤں کی گونجتی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ ہم صرف اسکرین پر درختوں کے پتوں کی سراسرہٹ سننے تک محدود رہ گئے ہیں۔ پتھریلی زمینوں پر چلنے کی بجائے پکے فٹ پاتھوں پر واک کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ذرا سوچیے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم خود مشین بنتے جارہے ہیں؟ جو بندہ مٹی میں نہیں کھیلا بھلا اسے وطن کی مٹی کی خوشبو کیسے محسوس ہوگی اور جو خوشبو محسوس نہیں کرتا تو اسے وطن کی مٹی سے کیسے پیار ہو سکتا ہے۔ ہم اپنے بلند وبالا مکانات کے خوب صورت ڈرائنگ رومز میں کچے مکانات کی دیدہ زیب پینٹنگز آویزاں کردیتے ہیں مگر ہم اس مٹی کی دل فریب خوشبو محسوس نہیں کر سکتے۔ کیا ہم واقعی تخیلاتی دنیا میں تو نہیں رہتے؟n
اپنی ہی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلوگے تو پھسل جاؤگے
یہ احساسات وجذبات پشتو زبان کے معروف ومقبول شاعر، دانش وراور فلسفی غنی خان کے ہیں، جو انہوں نے اپنی ایک نظم ''سیل'' (سیر) میں بیان کیے ہیں، اور اپنے گاؤں اور مٹی سے بنے ہوئے کچے مکان کے ساتھ اتنی محبوبیت، عقیدت اور محبت کا اظہار کیا ہے۔
اپنے گھر گاؤں اور مٹی سے محبت کا جذبہ اور احساس انسان تو کیا پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن مذکورہ نظم کے ان چند اشعار میں غنی خان نے دیہات اور کچے مکان کے بارے میں جن احساسات وجذبات کی ترجمانی کی ہے، دراصل انہوں نے اپنے تئیں گاؤں اور کچے مکانات کے ساتھ وابستہ اس ثقافت، روایات واقدار کی جانب اشارہ کیا ہے، جو گاؤں اور کچے مکانات میں رہنے والے لوگوں کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کو سنوارتی بھی ہیں اور اسے ایک خاندانی اور نسلی رشتے میں باندھنی بھی ہیں۔ کچے مکانات میں رہنے والوں کی زندگی خوراک وپوشاک جس طرح سادہ بناوٹ اور تصنع سے پاک ہوتی ہے، اسی طرح ان کی محبت اور خلوص میں بھی کسی قسم کی ملاوٹ اور دکھاوا نہیں ہوتا۔ رہتے ہیں یہ لوگ کچے مکانات میں لیکن ان کے ارادے حوصلے اور وعدے بہت پکے ہوتے ہیں۔
لیوٹالسٹائی کہتے ہیں کہ اگر آ پ فن میں سچی محبت اور اوریجنلٹی دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتے ہو، تو جائیں اوردیہات کے کچے مکانات میں رہنے والوں کے آرٹ کو دیکھیں۔ اس میں آپ کو نظر بھی آئے گا اور محسوس بھی کرسکیں گے۔ ٹالسٹائی کی بات کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ فطرت کی گود میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہاں پرورش پاتے ہیں۔ نہ صرف ان کی معاشرتی زندگی سادہ اور خلوص پر مبنی ہوتی ہے، بل کہ ان کے فن، ادب، شاعری اور دیگر روحانی سرگرمیوں میں بھی یہی چیزیں کارفرما ہوتی ہیں۔ مٹی کے یہ کچے گھر ہمارے دیہاتی حسن اور ثقافت کے امین ہیں۔ فطرت سے قریب تر ان کچے مکانوں نے آج تک ہماری تاریخ، روایات، ثقافت رومان اور اقدار کو محفوظ کررکھا ہے۔ لیکن آ ج کل پوری دنیا اربنائزیشن کی طرف روا ں دواں ہے۔ اس کے باعث یہ کچے مکان یا تو خالی ہورہے ہیں یا پھر ڈھائے جارہے ہیں۔
اس موضوع پر کبھی کچے مکان میں رہنے والے ایک صاحب سے ہماری بات چیت ہوئی۔ ان صاحب کا نام ہے ذوالفقار اور یہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ ذوالفقارچارسدہ سے ملحقہ مومند قبیلے کی پٹی میں کھبی ایک کچے مکان میں رہا کرتے تھے۔ آج کل شہر میں پکا مکان خرید کراس میں زند گی بسر کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنا گاؤں اور کچا مکان اب بھی یاد آتا ہے۔ لیکن شہر کے بکھیڑے اتنے زیادہ کہ جلد ہی وہ تصویر ذہن سے نہاں ہوجاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میرا ماضی ایک خواب ہے، شہر میں آکر تنگ وتاریک گھر میں رہنا کون پسند کرتا ہے، جہاں حبس ہے، آلودگی ہے، شور ہے، تکلفات ہیں، اپنوں سے دورغربت کا احساس ہجوم میں رہتے ہوئے بھی تنہائی اور ذہنی جلاوطنی کا احساس کوئی چیز اپنی اصل حالت میں نہ رہی ہر چیز میں ملاوٹ، بناوٹ در آئی ہے پکے مکان کے اپنے کچھ لوازمات اور مطالبات ہوتے ہیں۔ آج ہمارے گھروں پر چین، جاپان اور یورپ کی الیکٹرانک مشینوں، کمپیوٹر، فریج اور واشنگ مشین قابض ہوگئی ہے اب ظاہر ہے کہ ان چیزوں نے ہماری اقدارو روایات کو بھی متاثر کیا ہے۔ فطرت سے دوری نے ہمیں ایک ایسے ویرانے میں لاکھڑا کیا ہے جہاں اب کوئی چیز اپنی اصل شکل اور رنگ میں نظر نہیں آتی۔
ہم ایک ایسے کنکریٹ کے جنگل میں رہتے ہیں جہاں سے اب فطرت کا نظارہ اور ان نظاروں سے لطف اندوز ہونا بھی نصیب نہیں ہوتا، حالاںکہ فطرت تو اب بھی موجود ہے وہی سورج ہے، وہی چاند ہے اور ویسے ہی تارے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ موسم بدل گئے حالاںکہ موسم نہیں بلکہ ہمارے مزاج بدل گئے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ہمارے اندازے اور پیمانے بدل گئے ہیں۔ آج بھی جو لوگ کچے مکان اور دیہات میں رہتے ہیں انہیں ان اونچے اونچے مکانات شہر کے محلات اور بنگلوں میں رہنے والے لوگ پس ماندہ اور غیرمہذب سمجھتے ہیں۔ انہیں اُجڈ اور جاہل جیسے ناموں سے پکارتے ہیں لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ انہی کچے مکانات اور دیہات نے ہمیں خاندانی رشتوں کی مٹھاس دی ہے۔ ہمیں سچی محبت کرنے کا سلیقہ سکھایا خلوص، صداقت اپنی مٹی اپنے وطن سے ناتا جوڑنے کا درس دیا ہے۔ اتحاد و اتفاق ، تنظیم ، مہمان نوازی، جرگہ سسٹم اور حجرہ کلچر غم اور خوشی دونوں کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ ہم دردی خدمت تعاون کرنا ہمیں انہی کچے مکانات میں رہنے والوں نے سکھایا۔ ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہماری ثقافت کے اصل اور تاریخ کے محافظ یہی کچے مکانات ہیں۔
مٹی کے ان گھروں نے محبت کی عظیم داستانوں اور کرداروں کو جنم دیا ہے۔ آرٹ کے نادر نمو نے تخلیق کیے ہیں۔ صنعت وہنر کی بے شمارایجادات پیش کی ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیںکہ آ ج کا انسان پکا مکان بنانا اور اس میں رہنا بسنا چھوڑکر مٹی کا مکان بنائے اور واپس دیہاتی زندگی اپنالے۔ اصل بات ہے انسانی رویوں کی، ہماری ثقافت اور اقدار کی، ہماری اپنی تہذیبی شناخت اور پہچان کی۔ ہم چاہے جہاں بھی اور جس جگہ بھی رہیں اپنی تہذیب وثقافت کی ان اقدار و روایات کا دامن ضرور تھام کر رکھیں، جو اقدار وروایات آج بھی ہماری راہ نمائی کرسکتی ہیں۔ یہ بات یہاں تک تو صحیح ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ دنیا گھٹتی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے اور وسیع رقبے پر پھیلے ہو ئے مکانات کی بجائے اب لوگ اپارٹمنٹس میں رہنے پر مجبور ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی وہ سوچ ترک کردیں جو ہماری مٹی خمیر میں شامل ہے۔ جدید سے جدید گھر بناکر سُکھ کی زندگی ضرور گزاریں اور ایسے گھروں میں رہنا بھی کوئی بری بات نہیں، مگر کہنا مقصود یہ ہے کہ مٹی کے بنے یہ گھروندے ہمارا ورثہ ہے۔ آج بھی دوردراز کے دیہات میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پکے مکانات تعمیر کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں محض اس لیے کسی کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کچے مکان میں رہتا ہے۔
دراصل یہی ہماری تہذیب ہے، یہی ہماری ثقافت ہے اور یہی ہماری روایات ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور نے ہمیں قدرتی مناظر سے دور کردیا ہے۔ آج ہمیں نہ تو پرندوں کی چہچہاہٹ سے محظوظ ہونا نصب ہوتا ہے اور نہ ہی دریاؤں کی گونجتی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ ہم صرف اسکرین پر درختوں کے پتوں کی سراسرہٹ سننے تک محدود رہ گئے ہیں۔ پتھریلی زمینوں پر چلنے کی بجائے پکے فٹ پاتھوں پر واک کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ذرا سوچیے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم خود مشین بنتے جارہے ہیں؟ جو بندہ مٹی میں نہیں کھیلا بھلا اسے وطن کی مٹی کی خوشبو کیسے محسوس ہوگی اور جو خوشبو محسوس نہیں کرتا تو اسے وطن کی مٹی سے کیسے پیار ہو سکتا ہے۔ ہم اپنے بلند وبالا مکانات کے خوب صورت ڈرائنگ رومز میں کچے مکانات کی دیدہ زیب پینٹنگز آویزاں کردیتے ہیں مگر ہم اس مٹی کی دل فریب خوشبو محسوس نہیں کر سکتے۔ کیا ہم واقعی تخیلاتی دنیا میں تو نہیں رہتے؟n
اپنی ہی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلوگے تو پھسل جاؤگے