قلعہ عبداللہ NA262 محمود اچکزئی اور مولوی صلاح الدین میں مقابلہ
قلعہ عبداللہ کی کل بالغ آبادی 184000 کے لگ بھگ ہےاورتین صوبائی اورایک قومی نشست کیلئےکل 214 پولنگ سٹیشن قائم کئےگئےہیں
ضلع کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہے اور اس میں 85%آبادی اچکزئی قوم کی ہے۔ فوٹو : فائل
کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرستوں کے مطابق ضلع قلعہ عبداللہ کی کل بالغ آبادی 184000کے لگ بھگ ہے اور تین صوبائی اور ایک قومی نشست کیلئے کل 214 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں اور اس سے 57 بلاکوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ضلع کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہے اور اس میں 85%آبادی اچکزئی قوم کی ہے جبکہ 15%آبادی دیگراقوام کاکڑ،ترین سید وغیرہ کی ہے،قلعہ عبداللہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 262پرکئی پارٹیاں مدمقابل ہیں۔ ضلع قلعہ عبداللہ کے ایک قومی اور تین صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر قوم پرست جماعت پشتونخوامیپ اور مذہبی جماعتوں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے ۔
جے یوآئی (ف) کے قومی اسمبلی کے امیدوار حاجی روزالدین کے کاغذات جعلی ڈگری کی وجہ سے مسترد کئے جانے کے بعد ان کاایک کمزور امیدوارقاری شیرعلی میدان میں رہ گئے ہیں،سیاسی ماہرین انہیں مقابلے کی دوڑ سے باہر کررہے ہیں جبکہ ان کی جگہ اصل مقابلہ جے یوآئی (نظریاتی)اور پشتونخوامیپ کے امیدواروں کے درمیان ہے۔ پشتونخوامیپ کے سربراہ محمودخان اچکزئی اپنی پارٹی کی جانب سے اس نشست پر امیدوار ہیں جو اس سے قبل بھی دو بار اس حلقے سے کامیابی حاصل کرچکے ہیں جبکہ گزشتہ انتخابات میں بائیکاٹ کے فیصلے بعد ایک غیر معروف امیدوار جے یوآئی (ف) کے حاجی روز الدین نے سخت مقابلے کے بعد پشتونخوامیپ کی مددسے اے این پی کے امیدوارملک عثمان اچکزئی کو شکست دی تھی۔
اس حلقے سے جے یوآئی (ن) نے نوجوان عالم دین مولوی صلاح الدین کو ٹکٹ دیا ہے جو کہ ایک اچھے مقرربھی ہیں جبکہ اے این پی نے ملک عبدالجبار کاکڑ کو میدان میں اتارا ہے ، سیاسی ماہرین اب اس نشست پر اصل مقابلہ پشتونخوامیپ کے رہنماء محمودخان اچکزئی اور جے یوآئی (نظریاتی )کے مولوی صلاح الدین کے درمیان قرار دے رہے ہیں کیونکہ جے یوآئی اس بار دودھڑوں میں بٹ چکی ہے اور ان کا ووٹ تقسیم ہوچکاہے جس کا فائدہ دوسری جماعتوں کو ہوگا ۔
جے یوآئی کے دونوں دھڑے ایک دوسرے کے اتنے مخالف ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے اتحاد کے بجائے کسی قوم پرست جماعت کی ساتھ اتحاد کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے اکثر اہم ارکان کئی بار اس کا برملا اظہار بھی کرچکے ہیں ،ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس مرتبہ لوگ اپنے ووٹ کا استعمال امن وامان ،قومی شاہراہ کی تکمیل سمیت دیگراہم مسائل سے بھی مشروط کریں گے کیونکہ یہ ایسے مسائل ہے جو تمام ضلع کے لوگوں کیلئے درد سر رہے ہیں اور ضلع کے ایک قومی اورتین صوبائی وزراء اور ایک صوبائی مشیر کے ہوتے ہوئے بھی یہ مسائل ختم نہیں ہوئے ،اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 11میں مقابلہ پشتونخوامیپ،اے این پی اور جے یوآئی نظریاتی کے درمیان متوقع ہے ،مولوی حنیف پچھلے الیکشن میں دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
پی بی 11قلعہ عبداللہ 1کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے اس حلقے پر پشتونخوامیپ کی جانب سے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی، اے این پی کے اصغرخان اچکزئی،جے یوآئی (ف ) کے مولوی عبدالرحیم مظہری ،جے یوآئی نظریاتی کے مولوی حنیف کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعداب مولوی حافظ گل ،سابق صوبائی وزیرکیپٹن عبدالخالق آزادحیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ کئی دوسرے امیدوار بھی میدان میں ہیں تاہم ماہرین انہیں مقابلے کے میدان سے باہر قرار دے رہے ہیں ،اس حلقے پر اس سے قبل اصل مقابلہ پشتونخوامیپ اور جے یوآئی کا رہاہے تاہم جے یوآئی کی تقسیم کے بعد اب اس پر مقابلہ پشتونخوامیپ،اے این پی اور جے یوآئی نظریاتی کے درمیان متوقع ہے کیونکہ مولوی حنیف پچھلے الیکشن میں دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 12قلعہ عبداللہ 2کی صورتحال بڑی دلچسپ ہے ویسے تو اس حلقے سے کل 19امیدوار حصہ لے رہے ہیں تاہم یہاں سے چار مضبوط امیدوار مقابلہ کررہے ہیں جن میں اے این پی کے سابق صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان ،جے یوآئی (ٖف) کے مولوی جمعہ خان ،جے یوآئی (نظریاتی ) کے حاجی حبیب اللہ کاکوزئی اورپشتونخوامیپ کے عبدالقہار ودان شامل ہیں ،ماہرین کا کہنا ہے اس بار اس حلقے پر جوڑ توڑ کے ماہر جے یوآئی نظریاتی کے حاجی حبیب اللہ اپنے مدمقابل امیدواروں کومشکلات سے دوچار کرسکتے ہیں۔
اس سے قبل بھی 1997ء کے الیکشن میں انہوں نے اپنے مخالف امیدواروں کو پریشان کئے رکھا تھااور دوسرے نمبر پر رہے تھے، ماہرین کے مطابق اب بھی وہ تمام تر تیاریوں کے بعد میدان میں آگئے ہیں اور اگر جے یوآئی نظریاتی کا پی پی پی سے اتحاد ہوگیا تو اس سے صورتحال میں مزید دلچسپی پیداہوسکتی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کے رہنماء بسم اللہ خان کاکڑ کو بھی سیاست میں ماہر سمجھا جارہا ہے ،اے این پی کے امیدوار زمرک خان بھی زور وشور سے انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور آئندہ الیکشن جیتنے کیلئے پرامید ہے۔
کیونکہ پچھلے الیکشن میں ان کی جیت کا تما م تر کریڈٹ پشتونخومیپ کے بائیکاٹ کوجاتا ہے ویسے زمرک خان نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں بے شمار ترقیاتی کا م کئے مگر اب یہاں بھی ووٹر پنجاب اور سندھ کی طرح برادریوں میں تقسیم ہورہے ہیں اور وہ مفادات کے حصول کے بعد منحرف ہوجاتے ہیں۔ پشتونخوامیپ کی طرف سے الیکشن میں حصہ لینے کے بعد ان کے کارکنوں میں بہت جوش وخروش پایا جا تا ہے اور وہ ہرجگہ بہت زیادہ مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر کاکوزئی قوم کی جانب سے دونوں امیدوار میدان میں رہے تو اس کا فائدہ اے این پی اور جے یو آئی(ف) کے امیدوار وں کوہوگا اورجیت انہی میں سے کسی امیدوار کی ہوگی البتہ اس حلقے میں جے یوآئی (ف) میں ٹکٹوں کی تقسیم پر اب تک سخت اختلافات برقرار ہیں اور ان کے کئی اہم رہنماء الیکشن سے لاتعلق ہیں،اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 13قلعہ عبداللہ 3پر مقابلہ پشتونخوامیپ اور جے یوآئی (ف ) کے درمیان ہو گا۔ پشتونخوامیپ کی جانب سے سابق صوبائی وزیرعبدالمجید خان اچکزئی اور جے یوآئی کے سابق صوبائی وزیر محمدنواز کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
اس حلقے سے جے یوآئی (نظریاتی)کے ملک محمدعیسیٰ کاکڑ بھی میدان میں ہیں اور وہ جے یوآئی (ف)کے امیدوار کے ووٹ کوکاٹ سکتے ہیں۔ اس حلقے کو پشتونخوامیپ کا ماضی میں گڑھ تصور قرار دیا جارہا ہے اس بار کمپیوٹرائزڈفہرستوں سے کئی پولنگ سٹیشن ختم ہوگئے اور جعلی ووٹ بھی تقریباًختم کئے گئے اس سے کئی بڑے سیاسی رہنماوؤں کو سخت دھچکا لگاکیونکہ ان کے ہزاروں کے حساب سے ووٹ ختم ہوگئے، تمام جماعتوں نے الیکشن مہم کو تیز کردیا ہے اور گھر گھر جا رہے ہیں، وہ لوگوں کومختلف قسم کی مراعات اور مفادات کا لالچ بھی دے رہے ہیں۔
سابق وزراء کی جانب سے واٹر ٹینک اور ڈیزل انجن بھی تقسیم کئے گئے ہیں مگر انتظامیہ کی جانب سے حرکت میں آنے اور واٹر ٹینک برامد کئے جانے کے بعد اب یہ کا م چوری چھپے کیا جارہا ہے ، بہت سے لوگ آخری چانس کے حصول کے بعد دوسری جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیں گے تا ہم حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کامیابی کا تاج کس کے سر سجے گا اس کیلئے ہمیں 11مئی کی شام تک کا انتطار کرنا ہوگا۔