ایون فیلڈ ریفرنس پر احتساب عدالت کا فیصلہ

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ کو ملکی عدالتی اور سیاسی تاریخ میں ایک پیراڈائم شفٹ کی حیثیت حاصل رہے گی۔


Editorial July 07, 2018
ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ کو ملکی عدالتی اور سیاسی تاریخ میں ایک پیراڈائم شفٹ کی حیثیت حاصل رہے گی۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس پر فیصلہ سنادیا۔ احتساب عدالت نے نواز شریف کو 10 سال کی قید سنائی جب کہ مریم نواز کو 7 سال اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی، تاہم فیصلے میں نواز شریف کو 8ملین پاؤنڈ کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ بند کمرے میں سنانے سے قبل فریقین کے وکلاء کو کمرہ عدالت میں طلب کیا۔ اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی اور فریقین کے وکلاء کو روسٹرم پر بلایا گیا۔

احتساب عدالت کا فیصلہ بلاشبہ ملک کے سیاسی سیاق وسباق میں موضوع بحث رہے گا، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے فیصلے کو مسترد کردیا ہے، جب کہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدلیہ نے قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے، اپوزیشن نے اس فیصلے کو ن لیگ کے لیے ایک سیاسی دھچکا قرار دیا ہے۔ چنانچہ اب ملکی عدالتی نظام کے تحت نوازشریف اور مریم نواز کے لیے اپنے دفاع اور صفائی کے لیے قانونی آپشنز موجود ہیں، وہ فیصلے کے خلاف فوری اپیل کرنے اور دیگر قانونی فورمز سے رجوع کرنے کا آئینی استحقاق رکھتے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ یہ قانونی معاملات ہیں جب کہ قانونی حلقوں کی صائب رائے کے مطابق ن لیگ کے قائدین، قانونی ماہرین اور وکلا کی ٹیم پر دارومدار ہے کہ وہ کون سے قانونی آپشنز کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملکی سیاست پر ایون فیلڈ فیصلہ کے مرتب ہونے والے اثرات پر قانونی حلقوں کی آرا قابل غور ہوں گی۔

ملکی سیاسی رہنماؤں اور جمہوری قوتوں کا ردعمل بھی نہایت دوررس نتائج و مضمرات کا حامل ہوگا، نواز شریف کو اپنے سیاسی کیریئر میں اس فیصلے سے قبل بھی حالیہ تین اہم اعلیٰ عدالتی فیصلوں کے اثرات دامن گیر رہے ہیں، ن لیگ کو داخلی سیاسی و انتخابی چیلنجز درپیش ہیں، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کی سیاسی استقامت، دوراندیشی، تدبر وحکمت کا امتحان بھی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کے لیے بھی یہ آزمائش کی گھڑی ہے، دیکھنا اب یہ ہے کہ وہ کون سا متوازن راستہ اختیار کرتی ہے۔ ن لیگ کو ساتھ ساتھ متلاطم انتخابی دریا بھی عبور کرنا ہے جب کہ ن لیگ کے ردعمل، سیاسی بقا کے بنیادی سوال پر سیاست دان، سیاسی مبصرین اور قانونی ماہرین بہتر روشنی ڈال سکیں گے، تاہم اس فیصلے کے ہمہ گیر سیاسی، قانونی اور انتخابی ارتعاش پر بحث میڈیا اور قانونی حلقوں میں جاری رہے گی، جب کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس عدالتی فیصلے کو ملکی سیاسی اور طرز حکمرانی پر احتسابی اور عدالتی گرفت کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔

قبل ازیں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے ان کی واپسی تک فیصلہ موخر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی، ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے میں مزید تاخیر ہوگئی تھی، ایون فیلڈ ریفرنس کا اہم ترین فیصلہ دوپہر ڈھائی بجے تک اور پھر مزید موخر کردیا گیا، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کا محفوظ فیصلہ ساڑھے 12 بجے سنانا تھا، احتساب عدالت میں کلثوم نواز کی تازہ میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے وکیل امجد پرویز نے عدالت کے روبرو استدعا کی تھی کہ میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی حالت تشویشناک ہے اور نواز شریف اور مریم نواز کی لندن میں موجودگی ضروری ہے۔

امجد پرویزنے مزید کہا کہ ڈاکٹرز کے مطابق آیندہ 48گھنٹے تک فیملی کا کلثوم نواز کے ساتھ ہونا ضروری ہے، لہٰذا 7 روز کے لیے فیصلہ موخر کیا جائے۔ اس موقع پر نیب نے فیصلہ موخر کرنے کی درخواست کی مخالفت کردی، نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس مرحلے پر جب کیس فیصلے کے لیے مقرر ہے درخواست دائر نہیں کی جاسکتی، نیب پراسیکیوٹر نے استدلال پیش کیا کہ فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل درخواست دی جاسکتی تھی۔

سیکیورٹی محاذ پر نگران حکومت پنجاب نے جمعہ کو صوبہ میں ایون فیلڈ ریفرنس کے متوقع فیصلے کے پیش نظر متوقع ردعمل سے بچاؤ اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے حکمت عملی ترتیب دے دی تھی، احتساب عدالت کے اطراف سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے، دفعہ 144 نافذ تھی۔ ذرایع کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ کے تناظر میں پاکستان مسلم لیگ نے پارٹی قائد نوازشریف کے حوالے سے متوقع عدالتی فیصلے میں ممکنہ طور پر سزا ہونے کی صورت میں مستقبل کے سیاسی وانتخابی معاملات کے لیے مختلف آپشنز پر مشتمل اپنی حکمت عملی مرتب کرلی ہے۔

دریں اثنا مسلم لیگ(ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز میاں شہباز شریف کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے احتساب عدالت کے فیصلے کے سیاسی و قانونی محرکات اور حکمت عملی پر تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

ادھر مسلم لیگ(ن) نے اپنا انتخابی منشور 2018ء پیش کردیا اور شہباز شریف کی تقریر سے قبل مسلم لیگ ن کے قائد وسابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا پیغام جاری کیا گیا جس میں انھوں نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے 22 اپریل 1943 کو فرمایا تھا کہ جمہوریت ہمارے لہو میں شامل ہے، ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ بانی پاکستان کی بہن مادرملت فاطمہ جناح ہی تھیں جو سب سے پہلے فوجی آمر کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور اگر 1965ء کے انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی تو وہ ملک کی پہلی منتخب صدر ہوتیں اور پاکستان کبھی تقسیم نہ ہوتا، مجھے کامل یقین ہے کہ ہم تاریخ کی مثبت جانب کھڑے ہیں، سچ کی جیت ہوگی۔

معروف تجزیہ کاروں کے مطابق ملک انتخابی مہم کے مرحلہ سے گزر رہا ہے جب کہ سیاسی جماعتوں اور الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں نے شفاف انتخابات کی راہ میں دشواریوں کا نوٹس لینے اور جمہوریت میں مقتدر اداروں کی مداخلت کی وجہ سے انتخابی شفافیت پر اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے، بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی سزا سے سیاسی طور پر مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم پر اس کا برا اثر پڑے گا، فواد حسن فواد کی گرفتاری بھی ن لیگ کو ایک پیغام ہے، یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف کے لیے آپشن بہت کم رہ گئے ہیں، مسئلہ مستحکم صف بندی اور سیاسی منحرفین کی سیاسی ہجرتوں کا ہے، جنوبی پنجاب کی بدلتی صورتحال اور جیت کے محدود ہوتے امکانات کا ہے۔

واضح رہے ایون فیلڈ ریفرنس شریف خاندان کے لندن میں موجود فلیٹس سے متعلق ہے۔ 8 ستمبر 2017 کو نیب نے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف، ان کے تینوں بچوں اور داماد کے خلاف عبوری ریفرنس دائر کیا تھا۔

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ کو ملکی عدالتی اور سیاسی تاریخ میں ایک پیراڈائم شفٹ کی حیثیت حاصل رہے گی۔ ملک کو قانون کی حکمرانی کی آج جتنی ضرورت ہے اس پر تمام اہل وطن متفق ہیں، تاہم قوم آج ایک شفاف اور آزادانہ الیکشن کے انعقاد کو تمام قومی ایشوز پر فوقیت دینے کے حق میں ہے، زندہ قوموں کی تاریخ میں ایسی آزمائشیں آتی رہتی ہیں اور اس میں سے کندن بن کر نکلتی ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔