نگراں وزیر اعظم کا عزم صمیم

نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے جمعہ کو قوم سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔

نگراں حکومت کا مینڈیٹ پرامن، آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ہے، نگران وزیراعظم میرہزارخان کھوسو۔ فوٹو: پی پی آئی

KARACHI:
نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے جمعہ کو قوم سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ نگراں حکومت کا مینڈیٹ پرامن، آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ہے جس میں ہم انشاء اللہ سرخرو ہوں گے۔ انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر 11 مئی کو منعقد ہونگے۔

نگراں حکومت کی مدت میں ایک دن کی توسیع قبول نہیں کریں گے۔ انتخابات کے بعد عوام کے منتخب نمائندوں کو بلا تردد اقتدار منتقل کر دیں گے۔ نگراں وزیر اعظم نے کہا میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ انتخابات، شفاف، آزادانہ غیر جانبدارانہ ماحول میں ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ووٹ کا تقدس برقرار رکھا جائے۔

ایک طرف نگراں وزیر اعظم انتخابات کے پر امن ہونے کی توقع کا اظہار کر رہے تھے دوسری طرف ملک کے مختلف مقامات پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے واقعات تسلسل سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں، بالخصوص کراچی میں اے این پی کے انتخابی امیدوار کا اپنے کمسن بیٹے سمیت قتل شقاوت قلبی کی ایک انتہائی افسوسناک مثال ہے جس کے نتیجے میں اس حلقے کا الیکشن ہی ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اس قسم کے انسانیت سوز واقعات کا اگر کامیابی سے سد باب نہ کیا جا سکا تو پھر 11 مئی سے پہلے مزید خون ریزی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

نگراں وزیر اعظم نے بھی اپنے خطاب میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کراچی میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے ہیں اور بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں مگر انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ نگراں حکومت دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات اٹھا رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا اگرچہ امن و امان کا قیام آئینی طور پر صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے، تاہم نگراں وزرائے اعلیٰ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل رابطے میں ہیں تا کہ انتخابی عمل پر امن رہے۔ نگراں وزیر اعظم کا عزم اپنی جگہ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت انتظامی مشینری غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے۔ نگراں حکومت کا مینڈیٹ محدود ہے اور اس کا اقتدار عارضی ہے۔


بیورو کریسی ان کے احکامات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ نگراں وزیر اعظم نے مزید کہا کہ نگراں حکومت عوام کے مسائل سے غافل نہیں، عوام کو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے جن مشکلات کا سامنا ہے، مجھے اس کا پورا احساس ہے، لوڈ شیڈنگ کی وجہ بجلی کی طلب اور رسد کا فرق ہے، وزارت خزانہ کو ہنگامی بنیادوں پر 45 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیا ہے، یہ بھی ہدایت کی ہے کہ 10 مئی سے 3 دنوں کے لیے بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے۔ لیکن کیا عوام الناس کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا کرنے والے محکمے کے اہلکار سالخوردہ نگراں چیف ایگزیکٹو کا یہ حکم دل سے تسلیم کرتے ہوئے اپنا روایتی وطیرہ تبدیل کر دیں گے یا نہیں اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

نگراں وزیر اعظم نے بتایا کہ وزارت خزانہ کو یہ بھی کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں غیر ضروری اخراجات کو کم سے کم رکھا جائے اور سادگی اختیار کی جائے، شاہانہ اور غیر ضروری اخراجات کی گنجائش نہیں ہے، بجٹ میں عوام پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے، ہمیں امید ہے کہ بہتر مالیاتی ڈسپلن سے آنیوالی حکومت کو بہتر معیشت دے کر جائیں گے۔ نگراں وزیر اعظم نے ملک کے مختلف حصوں میں خسرے کی وبا سے بچوں کی ہلاکت پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ چاروں صوبوں سے ہنگامی مشاورت کا کہا ہے تا کہ اس وبائی مرض پر قابو پایا جا سکے۔ ادھر نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے آئندہ مالی سال 2013-14 کے وفاقی بجٹ کے خدوخال کے ابتدائی مسودے کی اصولی منظوری بھی دیدی ہے۔

بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو یا غیر ضروری اخراجات میں کمی کا معاملہ، یہ معاملات نگراں حکومت کی ترجیحات میں کہیں نیچے ہیں۔ ویسے بھی لوڈ شیڈنگ کا معاملہ تو پانچ برس تک حکومت کرنے والوں سے بھی حل نہیں ہو سکا تو نگراں حکومت اسے کیسے حل کر سکتی ہے۔ نگراں حکومت بجلی کے معاملات کو روٹین کے مطابق ہی چلاتی رہے تو ہی اس کی کامیابی ہو گی۔ نگراں حکومت کی اولین ترجیح عام انتخابات کا پرامن انعقاد ہے۔ عام انتخابات میں صرف ایک ہفتہ باقی ہے۔ ان ایام میں انتخابی مہم اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ امیدوار گلی محلوں میں کارنر میٹنگز کر رہے ہیں جب کہ سیاسی جماعتوں کے رہنما بڑے جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ یہ ماحول دہشت گردوں کے لیے خاصا سازگار ہے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے یہ ایام انتہائی سخت ہیں۔

ادھر پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی چیخ رہی ہیں کہ ان کے امیدواروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسا کہنے میں وہ حق بجانب بھی ہیں۔ اگلے روز کراچی میں اے این پی کے امیدواروں پر جو حملہ ہوا اس کی ذمے داری طالبان نے قبول کی ہے۔ صادق زمان خٹک کے معصوم بیٹے کو بھی گولیاں مار کر چھلنی کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد کس قدر ظالم ہیں۔ اس صورت حال کا خوشگوار پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی' اے این پی اور ایم کیو ایم جمہوریت سے کمیٹڈ ہیں اور ان کی لیڈر شپ کا اعلان ہے کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ ہرگز نہیں کریں گے۔ دہشت گردوں کو شکست دینے کا سب سے بہترین طریقہ عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ ملک میں انتشار پیدا کرنے والوں کی تو خواہش ہی یہ ہے کہ وہ بڑی سیاسی جماعتوں کو الیکشن کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور کردیں۔

پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی نے الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کر کے دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنا دیا ہے۔ دہشت گردی کوئی نیا عنصر نہیں ہے۔ 2008ء کے الیکشن میں بھی دہشت گردوں نے کارروائیاں کی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنیں' ان کی شہادت کے باعث الیکشن ملتوی ہوئے لیکن ایسا نہیں ہوا کہ آمریت مسلط ہو گئی ہو۔ اب بھی تمام سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لینے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ مشکل اور کٹھن ایام بھی گزر جائیں گے لیکن جمہوریت کا سفر جاری رہے گا اور دہشت گرد اپنے منصوبے میں ناکامی سے دوچار ہوں گے۔
Load Next Story