گل شاہ اور جمعہ چوہدری
کچھ عرصہ پہلے تک پچاس پیسے کا جو بڑا سکہ رائج تھا، وہ بھی وزن میں اس کے آدھے جتنا اور سائز میں چھوٹا تھا۔
گل شاہ کی وجہ شہرت ایک روپے کا وہ سکہ تھا جو ایک تو خالص چاندی کا ہوا کرتا تھا دوسرے اس کا وزن پورے ایک تولہ ہوتا تھا، جو سنار زیورات کی خرید و فروخت میں باٹ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ ہم نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں ایسا روپے کا جو سکہ دیکھا تھا اس پر انگریزوں کے کسی گنجے بادشاہ (شاید ایڈورڈ ہفتم) کی شبیہ بنی ہوتی تھی۔ وہ آج کل کے تمام مروجہ سکوں سے سائز میں بڑا اور بھاری ہوتا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے تک پچاس پیسے کا جو بڑا سکہ رائج تھا، وہ بھی وزن میں اس کے آدھے جتنا اور سائز میں چھوٹا تھا۔ جب ہم نے گل شاہ کو دیکھا تھا تو ان کی عمر یہی کوئی پچاس پچپن برس رہی ہوگی اور ہم آٹھ دس سال کے لڑکے تھے اور اسکول میں پڑھا کرتے تھے۔ وہ جگہ جہاں ان کا گھر اور اوتارا (خانقاہ) تھا، انھی کے نام سے منسوب تھی اور گل شاہ کا پڑ (عَلم) کہلاتی تھی، جو ان کے گھر کے سامنے میدان کے بیچوں بیچ نصب تھا، جہاں محرم میں مجالس کے علاوہ ماتم بھی ہوتا تھا۔
کھٹیوں کے پاڑے (محلے) والے نسبتاً چوڑے راستے کے علاوہ حمید خان پٹھان کے ہوٹل کی عقبی گلی سے بھی وہاں جایا جاسکتا تھا، جس کے شروع میں لاریوں کے دو طبیلے (گیراج) بنے ہوتے تھے، جو استعمال میں نہ ہونے کی وجہ سے یوں ہی بند پڑے رہتے تھے۔ چھپ کر بیڑیاں پینے والے لڑکے ان کے ادھ کھلے دروازوں کا فائدہ اٹھا کر وہاں شغل کیا کرتے تھے۔ خود ہم بھی ایک بار وہاں سے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔
ہمارے ٹیچر سائیں خان محمد سانگی ذرا فاصلے سے ہمارے پیچھے آرہے تھے، ہم نے انھیں آتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ورنہ کبھی ایسی غلطی نہ کرتے۔ انھوں نے ہمیں طبیلے میں گھستے ہوئے دیکھ لیا اور ٹھیک اس وقت جب ہم نے ابھی بیڑی سلگائی ہی تھی وہاں آ دھمکے۔ بھاگنے کا راستہ تھا نہیں کہ دروازے میں وہ خود کھڑے تھے، پوچھا یہ کیا کر رہے ہو، ہم بھلا کیا جواب دیتے کہ جو کر رہے تھے وہ انھیں نظر بھی آرہا تھا۔ پھر جو ہوا وہ آپ بنا بتائے بھی سمجھ سکتے ہیں۔
سو ہم بات کر رہے تھے گل شاہ کی وجہ شہرت کی، صبح ناشتہ وغیرہ کرکے وہ گھر سے اوتارے میں پہنچتے جہاں تعویذ دھاگہ کرانے اور پانی پڑھوانے نیز بچوں کو دم کرانے کے لیے آنے والے دیہاتی کافی تعداد میں پہلے سے موجود ہوتے تھے۔ ایک دو گھنٹے انھیں فارغ کرنے میں لگتے، جس کے بعد وہ ہوادار اوتارے کے برآمدے میں بچھی ہوئی چٹائی پر اس طرح سیدھے لیٹ کر آرام کرتے کہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی ہوتی اور شلوار گھٹنوں تک اوپر چڑھا کر پنڈلیاں ننگی کی ہوئی ہوتیں۔
ہم نے وہاں سے گزرتے ہوئے کئی بار انھیں اس حالت میں دیکھا تھا۔ وہ دوپہر کا کھانا لگنے کی اطلاع دینے کے لیے آنے والی باندی کو دیکھنے تک اوتارے میں ہی موجود رہتے، اس دوران اگر کوئی اور ضرورتمند آجاتا تو اس کا مسئلہ بھی حل کرتے۔ کھانا کھانے گھر جاتے تو بھی ان کے آرام کرنے کی چٹائی بدستور برآمدے میں بچھی رہتی، واپس آکر اسی پر قیلولہ کرتے اور عصر تک اوتارے میں ہی رہتے، یہ ان کا روز کا معمول تھا۔
ہم نے دیکھا تو کبھی نہیں لیکن سنا تھا کہ مغرب سے پہلے گھر جانے کے لیے اٹھتے وقت وہ تکیے کے نیچے ہاتھ ڈال کر نکالتے تو ایک روپے کا سکہ ان کی مٹھی میں ہوتا، جس سے وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات (بیڑی ماچس وغیرہ) پوری کرتے، گھریلو اخراجات کی فکر سے یوں آزاد تھے کہ وہ شہر کے دوسرے سارے سیدوں کی حویلیوں کی طرح وہ بھی میروں کے ذمے تھے، یہاں تک کہ ان کے ہاں کام کرنے والی باندیوں کو تنخواہ بھی وہ ادا کرتے تھے۔
سائیں گل شاہ کے دو بیٹے تھے، بڑا بیٹا حسین شاہ اگرچہ شکل صورت سے چرسی موالی لگتا تھا لیکن اس نے ورنی کیولر فائنل کا امتحان پاس کر رکھا تھا، جو سندھی کے سات درجے پڑھ کر دیا جاتا تھا اور جس کی بنیاد پر پرائمری اسکول ٹیچر، آبدار، پٹواری اور ڈھک منشی جیسی سرکاری نوکریاں باآسانی مل جایا کرتی تھیں، سو ہمارے زمانہ طالبعلمی میں اس کو بھی بطور زیر تربیت ٹیچر پروانہ ملازمت ملا تھا، ضرور اس میں بھی میروں کی سفارش کا عمل دخل رہا ہوگا۔
ہم اسے آئے دن ہیڈ ماسٹر سائیں لطف علی سے ڈانٹ سنتے دیکھا کرتے کہ چار دن اسکول آنے کے بعد اس نے دو دن لازماً چھٹی کرنی ہوتی تھی، آخر کو سیدوں کا بگڑا ہوا بچہ ہونے کی وجہ سے اپنی فطرت سے مجبور تھا۔ جناح کیپ طرز کی قراقلی ٹوپی اس کی پہچان تھی جو وہ ہر وقت لگائے رکھتا تھا۔ اس کا دوسرا بھائی، جس کا نام اب یاد نہیں، ہمارا ہم عمر اور باپ کا لاڈلا تھا۔ پڑھتا تو تھا نہیں، محرم کے جلوس میں بطور ذوالجناح شامل کرنے کے لیے میروں کی طرف سے ملے ہوئے اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر ادھر ادھر چکر لگایا کرتا یا پھر جلوس میں شامل تعزیوں میں گھس کر لوگوں خصوصاً عورتوں کے نذر کیے ہوئے پیسے بٹورتا ہوا پایا جاتا تھا۔
60ء کے عشرے میں اپنی جنم بھومی ٹنڈو غلام علی کو خیرباد کہنے تک ہم نے گل شاہ کو تکیے کے نیچے سے روپے کا سکہ نکالتے اور اس کے بیٹوں کو اسی حال میں دیکھا تھا، بعد کا حال اللہ جانے۔ ایک تپتی دوپہر میں، جب گل شاہ غالباً کھانا کھانے گھر گئے ہوئے تھے، ہم نے بھی ان کے کراماتی تکیے کے نیچے ہاتھ ڈال کر دیکھا تھا لیکن اس وقت تک شاید وہ روپیہ ٹکسال سے بن کر وہاں نہیں پہنچا تھا۔
ہمارے شہر کا ایسا ہی دوسرا انوکھا کردار قلعی گر جمعہ چوہدری تھا جس کی چھوٹی سی بھٹی عربو کے ہوٹل اور ٹرانسپورٹر مظفر شاہ کے گھر کے عقبی حصے کی درمیان تھوڑی سی جگہ میں نیم کے گھنے درخت کے نیچے نصب تھی، جہاں بیٹھ کر وہ برتن قلعی کیا کرتا تھا۔ اچھا بھلا محنت مزدوری کرکے بچوں کی روزی کمانے والا ہنس مکھ آدمی تھا، پتہ نہیں کیسے قاضی قادر بخش میمن کے ہتھے چڑھ کر پولیس کا ٹاؤٹ، مخبر اور پیشہ ور گواہ بن گیا۔ اس کے باپ کو ہم نے تو نہیں دیکھا تھا لیکن سنتے تھے بٹوارے سے پہلے بنیوں کے زمانے میں بطور ٹھیکیدار کام کرتا تھا اور مخیر لوگ اس سے کنویں کھدوایا کرتے تھے۔ اپنے کام کے حوالے سے اس کا بڑا نام تھا اور شہر ہی نہیں پورے علاقے میں ساکھ بنی ہوئی تھی۔
ایک دفعہ اس نے جس جگہ کنواں کھودنے کا ٹھیکہ لیا وہاں چٹان نکل آئی، پتھریلی زمین کی کھدائی میں زیادہ وقت لگ گیا اور مزدوروں کو اضافی ادائیگی کرنے کی وجہ سے بچت تو کیا ہوتی الٹا نقصان ہوگیا، غریب کے پاس کوئی جمع پونجی تو تھی نہیں، مجبوراً کام بند کرنا پڑگیا، کنواں کھدوانے والے مخیر آدمی کے پاس جانے میں اسے شرم آتی تھی کہ یہ بات اس کے اصولوں کے خلاف تھی، ذہنی دباؤ نے اسے پاگل کردیا اور وہ پتہ نہیں کہاں چلا گیا، سب ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گئے لیکن اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ کچھ دنوں کے بعد کوئی آدمی ساجن سوائی نام کے بزرگ کے مزار پر چادر چڑھانے گیا تو اس نے موصوف کو اس حالت میں دیکھا کہ گلے میں چَڑا (گائے کے گلے میں بندھی ہوئی بڑے سائز کی گھنٹی) ڈلا ہوا اور درخت کی ایک موٹی سی ٹہنی کندھے پر رکھے قبرستان میں گشت کر رہے ہوتے۔
ہمارے ٹیچر بتاتے تھے کہ صبح منہ اندھیرے جب بنیے اپنی دکانیں کھول رہے اور پیتل کی چھوٹی سی گڈیا سے پانی چھڑک کر پوجا پاٹ کر رہے ہوتے، یہ چَڑا بجاتا اور ڈنڈا ہاتھ میں لیے شہر میں داخل ہوتا اور اس کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا کہ ''بھر کلموں'' یعنی کلمہ پڑھ۔ جہاں کلمہ پڑھنے کی آواز نہ سنتا وہاں آنکھیں بند کرکے چاروں طرف ڈنڈا گھمانا شروع کردیتا، کوئی مرے یا بچے اسے اس کی پرواہ نہیں ہوتی تھی، نتیجتاً بنیے بیچارے اسے دیکھتے ہی بلند آواز سے کلمہ پڑھنا شروع کردیتے اور فجر کی اذان سے پہلے ہی شہر میں لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ کی صدائیں گونجنے لگتی تھیں۔