میکسیکو کی تبدیلی کے لیے ایملو پرعزم

میکسیکو میں ایملو کی آمد کے بعد صادق اور امین کا کچھ کچھ مفہوم تو سمجھ میں آگیا۔

میکسیکو میں گزشتہ دنوں ہونے والے انتخابات اپنے انعقاد سے چند لمحوں پہلے تک ایک ڈراؤنا خواب تھے۔ خون میں ڈوبے ہوئے انتخابات آخرکار ہوئے اور ایملو (اینڈرس مینوئل لوپز اوبرینڈر) دو بار شکست کے بعد اس مرتبہ میکسیکو کے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کا انتخابی منشور عین انسانیت کا منشور تھا، جس کی لاج رکھتے ہوئے انھوں نے اپنی پہلی صدارتی تقریر میں جو اعلانات کیے انھیں دنیا نے بے یقینی کی آنکھوں سے دیکھا اور حیرت کے کانوں سے سنا۔

تعصب کی عینک اتار کر ایک طرف رکھیں تو ایملو کی آنکھوں میں تبدیلی کی خواہش اور امیدوبیم کے دیپ جلتے شاید نظر آجائیں۔ ان کی افتتاحی تقریر کا ہر نکتہ ایسا ہے کہ اس پر الگ الگ تحریر لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن میرا موضوع ان کی وہ چند باتیں ہیں جن کی میکسیکو کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کو اشد ضرورت ہے۔

ایملو نے بحیثیت صدر ملنے والے تمام سیکیورٹی پلان مسترد کر دیے۔ وہ کہتے ہیں انھیں کسی باڈی گارڈ کی ضرورت نہیں۔ وہ عوام کے قریب رہیں گے اور عوام ہی ان کے محافظ ہوں گے۔ نیز انھوں نے نہ صرف صدارتی محل منتقل ہونے سے انکار کر دیا، بلکہ عوام سے اپنی تنخواہ میں نمایاں کمی کا بھی وعدہ کیا۔

چاروں جانب سے آگ کے شعلوں میں گھرے میکسیکو کے لیے ایملو کے یہ اعلانات ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ ایملو نے وقت کے بہترین مسیحا کا کردار ادا کرتے ہوئے سب سے پہلے نرم لفظوں کے پھائے میکسیکن عوام کے رِستے زخموں پر رکھے۔ برسوں سے میکسیکو کا شمار دنیا کے چند خطرناک ترین ممالک میں کیا جاتا رہا ہے۔ یہ خطہ ڈرگ مافیا کی جنت ہے۔ ڈرگ مافیا یہاں اتنی طاقتور ہے کہ اس نے پورے میکسیکو کا امن تاراج کردیا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے قتل عام میں میکسیکو دو لاکھ لوگوں کا قبرستان بنا۔ گمشدہ افراد کی فہرستیں تیس ہزار لوگوں کے ناموں سے بھری ہوئی ہیں۔

ہر شہر سے اجتماعی قبریں ملنا یہاں عام سی بات ہے۔ 2017ء کا سال میکسیکو کے لیے سب سے خطرناک سال تھا جس میں تئیس ہزار لوگ ابدی سفر پر روانہ کیے گئے۔ رواں سال ہلاک شدگان کی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ دو سال پہلے کے مقابلے میں یہ شرح تین گنا زیادہ ہے۔ ڈرگ مافیا نے انتخابات میں رخنہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ستمبر سے شروع ہونے والی انتخابی مہم میں عام شہریوں کے ساتھ 132 امیدواروں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ خوف کے باعث 80 امیدوار انتخابات کی دوڑ سے پیچھے ہٹ گئے۔

جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے انتخابی امیدواروں کو اپنے گروہ میں شامل ہونے کا کہا جاتا، جس سے انکار کی صورت میں ان کی سانس کی ڈوریں کاٹ دی جاتیں، اگر جان کے خوف سے یہ امیدوار گروہ میں شمولیت اختیار کر لیتے تو مخالف گروہ کے انتقام کا نشانہ بنتے۔ یوں میکسیکو کی اکتیس میں سے بائیس ریاستیں دورانِ انتخابات بدترین تشدد کی لپیٹ میں رہیں۔ اتنی خطرناک صورت حال میں انتخابات کا ہونا اور ایملو جیسے شخص کا منصب صدارت کا اہل قرار پانا جو میکسیکو کی تقدیر بدلنے کے لیے پرعزم ہو، کسی معجزے سے کم نہیں۔


ایملو سیاست داں ہونے کے ساتھ چودہ کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ اب وہ میکسیکو کی نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں لیکن قلم سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے۔ تبدیلی کی ابتدا انھوں نے اپنی ذات سے کی ہے۔ دنیا میں چاروں طرف بسنے والوں نے تو آج تک ریاست کے سربراہان اور اراکین حکومت کے آگے پیچھے سیکیورٹی کے قافلے دیکھے ہیں۔ اس رسم کی پیروی میں دنیا کے تقریباً سب ممالک صف بستہ ہیں، چاہے ان کا شمار پرامن ممالک میں ہی کیوں نہ ہوتا ہو، نیز اس سیکیورٹی پر عوامی وسائل کا جو ضیاع ہوتا ہے اور سڑکوں پر انسانی اقدار کا جو تماشا لگتا ہے اس سے دنیا کی ہر قوم نالاں ہے۔ ایملو بلاشبہ اس پرآشوب دور میں ایک بہترین مثال بن کر نمودار ہوئے ہیں۔

2018ء دنیا میں انتخابات کا سال رہا۔ روس، چین، عراق، مصر، ملائیشیا، ترکی، فن لینڈ، اٹلی، میکسیکو غرض دنیا کے ہر خطے میں کہیں نہ کہیں انتخابات ہوئے، اور پاکستان اس عمل سے گزرنے جارہا ہے، لیکن افسوس! بہت کم نئے چہرے چمکے۔ نیا نظام چاہتے ہوئے بھی ان کے دروازوں پر دستک نہ دے سکا۔ قومی مفادات انسانیت پر غالب رہے۔ لیکن آفرین ہے ایملو پر کہ وہ اس روش پر نہیں چل رہے۔ انھوں نے امریکانوازی کا ثبوت نہیں دیا بلکہ مہاجرین کے لیے نرم جذبات کا اظہار کرکے ٹرمپ کی امیدوں پر پانی پھیرا ہے۔ ایملو کہتے ہیں ہمیں ایسی زمین تیار کرنی ہے جو انصاف پر قائم ہو، جہاں ہم دیواروں، غربت، تقسیم، امتیاز اور خوف کے بغیر رہ سکیں۔ ایملو کی بہترین منصوبہ بندی اور بلند حوصلگی کے ساتھ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ میکسیکو امریکا کا پڑوسی ملک ہے اور یہی بات ایملو کے لیے بڑی بدقسمتی کا باعث بن سکتی ہے۔ امریکا جس نے سات سمندر پار کے وسائل نہ چھوڑے وہ پڑوسیوں کو کیسے ہاتھ سے جانے دے گا؟

میکسیکو میں ڈرگ مافیا کی سرپرستی کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود امریکا ہے۔ ساتھ ہی اپنی دوغلی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس مافیا کی جڑیں کاٹنے اور قیام امن کے نام پر میکسیکو کی سابق حکومتوں کو اس کے خلاف کارروائی پر بھی اکساتا رہا ہے۔ یوں واشنگٹن نے سارے سیاسی حربے آزماکر ریاست اور مافیا کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا، جس کے نتیجے میں بدترین خانہ جنگی ہوئی اور خون بہا۔ اس کے نتیجے میں سب سے پہلا فائدہ تو امریکا کو یہ ہوا کہ جان بچانے کے لیے امریکا میں پناہ لینے والے میکسیکو کے باشندوں کی صورت میں امریکا کو سستی لیبر میسر آگئی۔

امریکا نے پناہ گزینوں کے معاملے میں بوکھلاہٹ کی خوب خوب اداکاری کی۔ ان کی آمد پر چیختا رہا۔ دیواریں اٹھانے کی آوازیں بلند کرنے لگا۔ لیکن وقت نے امریکی اداکاری کا بھانڈا پھوڑ دیا اور ثابت ہوا کہ امریکا تو ان پناہ گزینوں کا بے چینی سے منتظر ہے تاکہ معیشت کے پہیے میں ان کا خون شامل کیا جائے۔ ان کی ہڈیوں کا عرق نچوڑ نچوڑ کر اپنی صنعتی ایمپائر کو برقرار رکھا اور توسیع کی جائے۔ وہ سارے کام لیے جائیں جو امریکا اپنے شہریوں سے نہیں لے سکتا۔ یوں میکسیکو کی خانہ جنگی سے امریکا کا بڑا فائدہ ہوا، بلکہ یہ کہنا زیادہ صائب ہوگا کہ صرف امریکا کا ہی تو فائدہ ہوا۔

میکسیکو اپنے باشندوں کو امریکی صنعت کی غلامی میں دے کر بھی اس کے سامنے سر نہ اٹھا سکا۔ میکسیکو میں اب تک بننے والی حکومتیں امریکانواز ہی رہیں۔ یوں میکسیکو کی معیشت کو تباہ کیا جاتا رہا۔ امریکا نے میکسیکو کے کسانوں، صنعت کاروں اور زمیں داروں کو ان کے جائز حق سے بے دخل کیا اور مافیا کے خلاف ہونے والی کارروائی میں ''تعاون'' کے بدلے میکسیکو سے فری ٹریڈ کے معاہدے کیے۔ یوں امریکا میکسیکو کی منڈیوں میں آسن جما کر بیٹھ گیا۔ میکسیکو کے وسائل بھی لوٹتا رہا اور وہاں خون کی بوچھار بھی نہ رکنے دی۔ ٹرمپ نے ایملو کو بڑی خوش دلی سے تہینتی پیغام پہنچایا ہے لیکن امریکا اور میکسیکو کی تاریخ دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکا ایملو کو بہت ٹف ٹائم دے گا۔

انتخابات ہمارے وطن میں بھی عین سر پر آپہنچے ہیں۔ پاکستانیوں کے لیے یہ رحمت کا بادل بنیں گے یا ایک اور آزمائش منتظر ملے گی، یہ تو انتخابی نتائج دیکھ کر اور نئی حکومت آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ میکسیکو میں ایملو کی آمد کے بعد صادق اور امین کا کچھ کچھ مفہوم تو سمجھ میں آگیا۔ مشرق کے دامن میں ان الفاظ کے کیا معنی پوشیدہ ہیں یہ پتہ چلے گا لیکن اس وقت جب پچیس جولائی کو طلوع ہونے والا سورج، تاریخ رقم کرتا ہوا وقت کی اوٹ میں غروب ہوگا۔
Load Next Story