بارش ڈینگی اور ڈالر
شرفاء ہر ریاست میں ہوتے ہیں اور ریاست شرفاء کے مفادات کو تحفظ دیتی ہے۔
پیرس میں بارش برسی اور برس کر چلی گئی، فقط دو سو چودہ ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی، بارش آئی اور آکر ٹھہر گئی۔ لاہور میں یہ بارش بڑی بارشوں کے حساب سے درمیانے درجے کی تھی لیکن شہر لاہور کا پردہ اٹھ گیا۔ جب ہم کوئی میگا پروجیکٹ لاتے ہیں تو ایسے پروجیکٹ حقیقی زندگی کے عکاس نہیں ہوتے۔
بارش تو صرف غریبوں کے لیے ہوتی ہے، ان کے کچے گھروں کے لیے ہوتی ہے، تنگ گلیوں کے لیے ہوتی ہے، ان کے نکاسی آب بند ہوتے ہیں، ان کے بچوں کے تن ننگے ہوتے ہیں اور وہ بارش کو غنیمت سمجھ کر کھلے آسمان تلے کھیلنے لگتے ہیں، پھر کئی موسمی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بارش تو برس کر چلی جاتی ہے مگر اس کے اثرات کبھی کبھار برسوں تک ٹھہر جاتے ہیں۔ امریکا کے ایک صحتی ادارے نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ کسی بھی وقت پاکستان میں ٹائیفائیڈکی وبا پھیل سکتی ہے، جس پر شاید کوئی دوا بھی اثر انداز نہ ہو سکے۔
ساؤتھ ایشیا میں پائی جانے والی Antibiotic ، ٹائیفائیڈ کی بیماری پر اثر انداز نہیں ہوتی جس کی وجہ سے لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں۔ بارش کے اثرات سے ڈینگی کا موذی مرض بھی پھیلتا ہے۔ ڈائیریا، ملیریا اور کئی خطرناک موسمی بیماریاں جن پر قابو پانے کے لیے ہمارے پاس مثبت ذرایع موجود نہیں۔ یہ تمام بیماریاں پاکستان کے ہر شہر میں اس طبقے کے لیے ہیں جو غربت کا شکار ہے۔ اگر ان بیماریوں کا شکار کوئی امیر آدمی ہو بھی جائے تو کیا، ان کے لیے اس ملک کے قانون سے لے کر زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہیں۔ امیر اور غریب میں فقط ایک حق یکساں ہے وہ ہے ووٹ دینے کا حق، لیکن اس ملک میں ووٹ بھی صرف امیروں کو ہی دیا جاسکتا ہے۔
اس ملک میں دیکھنے کی حد تک سب برابر ہیں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں۔ اس ملک کو ملک بنانے کے لیے حقیقتوں کو لاگو کرنا پڑے گا۔ اس دفعہ ملک میں آنے والے تمام پروجیکٹس کو آئین کے آرٹیکل پچیس کے تناظر میں introduce کروانا ہوگا۔ اس دفعہ الیکشنز میں پارٹی ٹکٹس کی distribution بھی آرٹیکل پچیس کے مطابق ہونا چاہئیں، جس میں کسی امیر غریب طبقے کا اصولی طور پر تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ جنرل مشرف کا کردار بھلے کتنا ہی تنقیدی ہو مگر انھوں نے آرٹیکل پچیس کا ایک پہلو ضرور اجاگر کیا کہ انھوں نے خواتین کے لیے اسمبلیز میں ریزرو سیٹس مقرر کیں۔
بات یہ ہے کہ غربت کی شرح دیکھنے کے اس زاویے کا کوئی صحیح پیمانہ موجود نہیں اور جو موجود ہے وہ دل کو رنجیدہ کرنے والی بات ہے کہ اس غربت کی لکیر کو اب کوئی پار کرکے نہیں نکل سکتا۔ کیونکہ یہ ملک کچھ اس ڈگر پر چل پڑا ہے کہ امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب، غریب تر۔ غربت سے نکلنے کے لیے تعلیم چاہیے، ہنر چاہیے، صحت چاہیے، پینے کے لیے صاف پانی اور سستا انصاف چاہیے۔ اور یہاں مشکل بات یہی ہے کہ یہ تمام بنیادی سہولتیں صرف پیسے پر میسر ہیں، جس کو کوئی غریب آدمی خرید نہیں سکتا۔
اس ملک میں غریب کو برابر کا حق اور برابر نمایندگی اسی طریقے سے دی جاسکتی ہے جس طرح مشرف نے اسمبلی میں عورتوں کی ریزرو سیٹیںمقرر کیں۔ کیونکہ ہمارے آئین میں آرٹیکل پچیس کے تحت برابری کا حق تو موجود ہے لیکن عملی طور پر اس کا کوئی وجود نہیں۔ ہماری اسمبلی میں غریب طبقے کی نمایندگی زیرو ہے۔ اگر اصولی طور پر اس طبقے کی نمایندگی ہماری اسمبلی میں موجود ہو تو یقیناً ان بنیادی مسائل کو عملی طور پر حل کیا جاسکتا ہے اور وہ تمام میگا پروجیکٹس جس پر اربوں کی لاگت ہے اور جو صرف شوکیس میں شوپیس کی مانند ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا ملک قرضے میں ڈوب چکا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ لاہور کو لندن اور کراچی کو پیرس بنانا ہے، بلکہ بنیادی طور پر مساوات کو یقینی بنانا ہے۔ ان علاقوں کی ترقی پر غور کرنا ہے جہاں اکثریتی آبادی ہے۔
الیکشن کے بعد ہم نہ چاہتے ہوئے بھی نئے بحرانوں کی زد میں ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ موڈیز کی حالیہ رپورٹ کے بعد Fitch Rating کی رپورٹ بھی سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ کے آنے کے فوراً بعد کراچی اسٹاک ایکسچینج لگ بھگ ساڑھے بارہ سو پوائنٹس یا 3 فیصد گرگیا، بقول ان کے پاکستان کے balance of payment میں شدید بحران آنے والا ہے اور اس بحران پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے علاوہ شاید کوئی اور راستہ نہ بچے۔ IMF سے قرضہ لینا شرائط کے بغیر ممکن نہیں اور ان شرائط کے رو سے ٹیکسز بڑھ جائیں گے اور یہ ٹیکسز بالواسطہ ہوں گے جس کا براہ راست بوجھ عوام پر ہوگا۔ افراط زر بڑھے گا اور غریب مزید غربت کا شکار ہوگا۔ قرضے لیتے ہیں شرفاؤں کے ٹولے اور مقروض ہوتا ہے غریب کا بچہ۔
ایک اور خبر جو گردش کر رہی ہے، وہ یہ کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے والی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان میں پٹرول کی قیمت سو روپے لیٹر سے ایک سو تیس تک پہنچ جائے گی۔ پٹرول کی قیمت میں یہ اضافہ افراط زر میں مزید اضافہ کرے گا جس کا خمیازہ بھی غریب ہی بھگتے گا۔
عمران خان کہتے ہیں کہ الیکشن، الیکٹیبلز اور پیسے کے بغیر نہیں جیتا جاسکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب نے بھی گھٹنے ٹیک دیے۔ انھوں نے بھی اپنی پارٹی کے ٹکٹ ان ہی لوگوں کو دیے جو پیسے میں تگڑے اور الیکٹیبلز ہیں۔
شرفاء ہر ریاست میں ہوتے ہیں اور ریاست شرفاء کے مفادات کو تحفظ دیتی ہے۔ بات یہ ہے کہ شرفاء کی ماہیت کیا ہے؟ اگر شرفاء برلا ٹاٹا کی طرح چاہتا ہے کہ ان کا غریب ہنرمند ہو تاکہ ان کی انڈسٹریز ترقی کریں تو اس اشرافیہ کا وجود ملک کے لیے بہتری ہے لیکن ہمارے ملک کی اشرافیہ یہ چاہتی ہے کہ غریب غریب رہے، ہماری اشرافیہ ترقی کی انحراف ہے، اپنے مفادات کی خاطر وہ اس ملک کے اثاثوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اور یہی اشرافیہ ہے جو آمریت اور جمہوریت دونوں پر قابض ہے۔ پاکستان کا کوئی ادارہ ان کی دسترس سے باہر نہیں۔
یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں پاکستان کی ترقی میں جمود ہے اور آج بھی پاکستان اسی کی گردش میں ہے۔ پاکستان کی ترقی، پاکستان کی بقاء اسی میں ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے، عام لوگوں کو بہتر نمایندگی کا موقع دیا جائے۔ غریب لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مثبت اقدام اٹھائے جائیں۔ شوپیس پروجیکٹس پر توجہ دینے کے بجائے عام لوگوں کے مسائل کو حل کیا جائے تاکہ پاکستان کی معشیت بہتر انداز میں منظم ہو، لیکن ہماری اشرافیہ پہلے بھی اس ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھی اور اب بھی وہ ہنرمند پاکستان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔