آؤ مل کر انتظار کرتے ہیں

مسلم لیگ ن کے اس موجودہ زوال کا سلسلہ پاناما پیپرز کے منظر عام پر آتے ہی شروع ہوگیا تھا۔

پاکستان میں آنے والے انتخابات میں ایک عجیب صورتحال سامنے آ رہی ہے، میڈیا کی وجہ سے انتخابی نمایندوں پر سوالات کی بوچھاڑ ہے، دوسری طرف مسلم لیگ ن جس بحران سے دوچار ہے ایسا کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ بڑی تعداد میں لوگ مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں جا رہے ہیں یا آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ایساکم دیکھنے کو ملتا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ کسی جماعت کا ٹکٹ واپس کر دیں، جو جماعت چند روز پہلے تک برسراقتدار تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے اندرونی خلفشار اور بھگدڑ کو روکنے کے بجائے اسے بڑھانے والے اقدامات کرتی نظر آ رہی ہے۔ شہباز شریف کے بیانیے کو ان کے بہت سے ساتھی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اب لاہور کی بارش سے ہونے والی تباہی، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، جانی نقصانات اور نئے منصوبوں کی تباہی نے مسلم لیگ ن کو بہت بڑی پریشانی سے دوچار کر دیا ہے، اب وہ یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ بارش بھی ایک سازش ہے اور اس سازش میں خلائی مخلوق کا کردار نظر آ رہا ہے۔

تیزی کے ساتھ زوال کی طرف رواں دواں مسلم لیگ ن انتخابات کا بائیکاٹ کر سکتی ہے، جس کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے معاملات طے پا گئے تو وہ پیپلز پارٹی کی حمایت میں اچانک دستبردار بھی ہو سکتے ہیں اور پیپلز پارٹی ایک بڑی قوت کے طور پر سامنے آ سکتی ہے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ کے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد اس فیصلے سے بغاوت کر سکتی ہے۔ اس بغاوت کے بعد چوہدری نثار علی خان کے لیے مسلم لیگ ن پر قبضے اور وزیراعظم بننے کے لیے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

اس وقت ایک اور مسئلہ مسلم لیگ ن کو درپیش ہے، ان کے موجودہ صدر شہباز شریف کی ہر بات خالص سیاسی ہوتی ہے لیکن ان کے ظاہری تاثرات اس بات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں، جو ان کی اندرونی کیفیت ہوتی ہے، لہٰذا وہ اپنے آپ کو ایک قابل اعتبار شخص کی صورت میں پیش نہیں کر سکتے۔ اس لیے انتشار تیزی سے چاروں طرف سے مسلم لیگ ن کو اپنی آغوش میں لے رہاہے۔ جس سے بچنے کی امیدیں آہستہ آہستہ دم توڑتی جارہی ہیں۔ اصل میں مسلم لیگ ن کے قائدین کافی عرصے سے ضرورت سے زیادہ سمجھ داری کا عملی مظاہرہ کررہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے اس موجودہ زوال کا سلسلہ پاناما پیپرز کے منظر عام پر آتے ہی شروع ہوگیا تھا، اس موقع پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور پی پی پی کے دیگر رہنماؤں نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس معاملے کا کوئی قابل قبول حل نکال لینا چاہیے، اس میں انھیں وزرات عظمیٰ سے علیحدگی ہی کیوں نہ اختیار کرنی پڑے۔


سمجھ داری کا تقاضا بھی یہ ہی تھا کہ میاں نوازشریف پیچھے ہٹ جاتے اور اپنے چھوٹے بھائی شہاز شریف کو آگے کردیتے تو شاید معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا، لیکن انھوں نے وقت پر بروقت فیصلہ نہ کرکے سب کو انتہائی مشکل صورتحال سے دو چار کرکے خود لندن میں بیٹھے پریشانی سے دوچار ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ پریشانی مستقل پریشانی میں تبدیل ہوجائے گی۔ اب چونکہ انتخابات کے بعد ہی صورتحال واضح ہوگی لیکن یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کے عوام آنے والے وقتوں میں مختلف صورتحال سامنے لے کر آسکتے ہیں۔

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ان مسائل کے ادراک میں پوری طرح کامیاب نہیں ہیں جن سے پاکستان دوچار ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، غربت میں اضافہ، پانی، بجلی اور گیس کی قلت، صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کا فقدان، بڑھتی ہوئی آبادی، پینے کا زہریلا پانی اہم ترین مسائل ہیں، لہٰذا تمام انتخابات کی طرح اس انتخابات میں بھی عوام کو یہ امید ہے کہ شاید وہ اپنے ووٹ کے ذریعے ان لوگوں کو سامنے لے آئیں گے جو ان مسائل کو حل کرنے کا کام کرسکیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں انتخابی مرحلہ کس طرح مکمل ہوتا ہے، لیکن جو تصویر سامنے آرہی ہے وہ ملک کی برسراقتدار پارٹیوں کے حق میں نظر نہیں آرہی ہے۔

چوہدری نثار ایک نیا گروپ بنانے کے لیے کوشاں ہیں، دوسری طرف مولانا فضل الرحمان بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ ایسی پوزیشن میں آجائیں کہ اپنی نشستوں کے بل پر آنے والی حکومت میں شامل ہوکر اعلیٰ عہدے تک پہنچ جائیں۔ ادھر شہباز شریف کے بیانات سے بعض مبصرین نے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی کہ شاید وہ کوئی ایسی پیشکش کررہے ہیں جس پر انھیں اور ان کے خاندان کو مقدمات سے بچالیا جائے اور اس کے نتیجے میں وہ انتخابات ہار بھی جاتے ہیں تو انھیں پروا نہیں ہوگی۔ ایسا ہی ایک معاہدہ میاں نوازشریف جنرل پرویز مشرف سے کر چکے تھے اور وہ تقریباً دس سال کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔ آنے والے چند دنوں میں انتخابی مہم کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں آئیں مل کر انتظار کرتے ہیں۔

ہم کو تو انتظار سحر بھی قبول ہے

لیکن شب فراق ترا کیا اصول ہے
Load Next Story