برمی مسلمانوں کی حالت زار

چند روز قبل بھی ایک ہجوم نے مسلمانوں کے ایک گاؤں مکھتیلا کو آگ لگا کر 44 افراد کو زندہ جلا دیا تھا۔


Editorial May 04, 2013
برما میں مسلمانوں کی آبادیو ں پر حملے ابھی تک رکے نہیں ہیں اور وہ مسلسل خطرے میں ہیں۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

KARACHI: برما میں مسلمانوں کی آبادیو ں پر حملے ابھی تک رکے نہیں ہیں اور وہ مسلسل خطرے میں ہیں۔برما میں مارے جانے والے مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں صحیح اندازے قائم کرنا مشکل کام ہے تاہم اس حوالے سے اطلاعات خاصی ہولناک ہیں۔غیرملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق برما کے دارالحکومت رنگون کے قریب واقع ''ون کٹی'' نامی مسلمانوں کا ایک گاؤں ہے۔اس گاؤں پر ایک سو کے لگ بھگ مسلح بلوائیوں کے حملے کی کوشش کے بعد گاؤں کے مسلمانوں نے گاؤں کے گرد مضبوط بانسوں سے ایک حفاظتی حصار بنانا شروع کر دیا جب کہ قریبی گاؤں سے آنے والے حملہ آوروں کی طرف سے دھمکی دی گئی ہے کہ وہ دیگر بہت سے دیہات کی مانند ون کٹی گاؤں کو بھی آگ لگا دیں گے اور ظاہر ہے کہ آگ لگائے جانے کی صورت میں بانسوں کو زمین میں گاڑ کر بنایا جانے والا حصار بھلا کیا مزاحمت کر سکے گا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برما میں نئی خون ریزی ہو سکتی ہے۔ چند روز قبل بھی ایک ہجوم نے مسلمانوں کے ایک گاؤں مکھتیلا کو آگ لگا کر 44 افراد کو زندہ جلا دیا تھا۔ پولیس اس قسم کی وارداتوں میں اس وقت موقعے پر پہنچتی ہے جب قاتل گروہ اپنا کام کر کے بکھر چکے ہوتے ہیں۔ برما کے دارالحکومت کے قریب واقعون کٹی گاؤں کے نوجوانوں کے حوالے سے عالمی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ پولیس کی طرف حفاظت سے مایوس ہو کر اب گاؤں کے مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی انتظامات کرنے شروع کر دیے ہیں۔ گاؤں کے چاروں طرف حفاظتی حصار کے قیام کے ساتھ ساتھ تمام لوگوں نے چھوٹے موٹے ہتھیار بھی جمع کر لیے ہیں جن میں زیادہ تر بانس یا لکڑی کے ڈنڈوں کے علاوہ لوہے کی سلاخیں اور تلواریں ٹوکے وغیرہ بھی شامل ہیں۔

اس علاقے کے مسلمانوں نے مقامی پولیس اور سیکیورٹی فورسز سے اس علاقے میں گشت کی درخواست کر دی گئی ہے۔ گاؤں ون کٹی کے گرد بانس کی پانچ فٹ اونچی باڑ لگنے کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں اور بدھ مت کو ماننے والوں میں خلیج وسیع سے وسیع تر ہو رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بدھ مذہب بھی تشدد کی اسی طرح نفی کرتا ہے جس طرح کے اسلام نفی کرتا ہے بلکہ اسلام کا تو مطلب ہی امن وسلامتی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور بدھ مت کو ماننے والوں کی باہمی چپقلش اب جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔

انڈونیشیا کی پولیس نے بتایا ہے کہ انھوں نے جکارتہ میں میانمار کے سفارتخانے پر حملہ کرنے کے ایک خطرناک منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے اور بھاری مقدار میں دھماکا خیز مواد برامد کر کے اس پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق جکارتہ کے مسلمان برمی مسلمانوں کے قتل عام کا بدلہ لینے کی خاطربرماکے سفارت خانے کو دھماکے سے اڑانا چاہتے تھے۔ ادھر میانمار کے حکام نے ملک کے متعدد حساس علاقوں میں لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی ہے تا کہ گروہوں کی صورت میں دوسروں پر حملہ نہ کیا جا سکے۔ یانگوں کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے فسادات کے الزام میں بہت سے بلوائیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ فلسطین' کشمیر اور بوسنیا ہرزگونیا کے بعد برما جیسے پسماندہ ملک میں بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد کی واقعات سے صرف ایک حقیقت ہی آشکار ہوتی ہے اور وہ یہ کہ:

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

برما کے بارے میں عمومی تاثر یہ رہا ہے کہ یہ ایک پرامن ملک ہے لیکن وہاں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے برما ایک ظالم ملک کے طور پر ابھرا ہے جو اس ملک کی حکومت کے لیے اچھا تاثر نہیں ہے۔ مسلم ممالک کو برما کی حکومت سے برمی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم رکوانے کے لیے سفارتی سطح پر بات کرنی چاہیے تاکہ برما میں ہونے والے مظالم دیگر مسلم ممالک کے عوام میں اشتعال کا باعث نہ بنیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں