خاندان کی غیرت
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اکیسویں صدی میں سانس لینے کے باوجود سترھویں صدی میں رہ رہا ہو۔۔۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اکیسویں صدی میں سانس لینے کے باوجود سترھویں صدی میں رہ رہا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مضحکہ خیز سوال ہے کیونکہ ہم خود اکیسویں صدی میں سانس لینے کے باوجود اپنی تمام تر شان وشوکت اور جدید ترین سہولتوں سے آشنائی اور تعلیم کے معجزات سے بھرپور واقفیت کے باوجود بفضل تعالیٰ اپنی بدترین بدبختی کے باعث اب بھی سترھویں صدی کے ماحول مزاج اور رسم و رواج کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ بات آپکو عجیب لگے گی لیکن اگر آپ اپنے اردگرد روز مرہ کے واقعات کا بغور جائزہ لیں تو بڑے واضح طور پر آپ پر عیاں ہو جائے گا کہ یہ کتنی بڑی حقیقت ہے یعنی ہمارا اکیسویں صدی میں ہونے کے باوجود اس سے لاتعلق رہنا اور سترھویں صدی سے چار صدیوں کی دُوری کے باوجود جڑے رہنا صرف یہی ایک بات ثابت کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس کا ادراک تک نہیں ہے۔ جب کسی بات کا ادراک تک نہ ہو تو اس کا شعور کیسے ہو سکتا ہے۔ چلیں آگے جانے سے پہلے میں آپ کو ایک بڑی عام سی چیز کے بارے میں بتاتا ہوں جس سے آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ چار صدیوں کا بُعد بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
خبر یہ ہے کہ پسند کی شادی کرنیوالے ایک پریمی جوڑے نے پنجاب میں غیرت کے نام پر پنچائیت کی طرف سے قتل کا حکم جاری ہونے اور اندرونِ سندھ میں کاروکاری قرار دیے جانے پر در درکی ٹھوکریں کھانے کے بعد کراچی کی ایک عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔تفصیلات کے مطابق کبیر والا ضلع خانیوال پنجاب کی مسّمات ندا نے وکیل ناصر احمد کے توسط سے تحفظ فراہم کرنے سے متعلق درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ اس نے وٹہ سٹہ کے فرسودہ رسم ورواج کو مسترد کرتے ہوئے کبیروالا گائوں کے ایک بوڑھے شخص سے شادی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس بوڑھے شخص کی بجائے اس نے نوشہرو فیروز اندرون سندھ کے رہائشی جاوید علی کے ہمراہ 26 اپریل کو کراچی سٹی کورٹ کے اعزازی مجسٹریٹ سے خود مختاری حاصل کرکے پسند کی شادی کرلی تھی۔ اس بات پر کبیر والا کے چوہدری کی زیر صدارت پنچائیت نے اُس کے والد عبدالمجید اور دیگر اہل خانہ کو پنچائیت میں بے غیرت قرار دے کر انھیں غیرت کے نام پر قتل کرنے کا حکمنامہ جاری کیا تھا۔ ندا نے مُوقف اختیار کیا کہ قتل کے خوف سے اس نے اپنے سسرال کے پاس محراب پور ضلع نوشہرو فیروز میں رہائش اختیارکی لیکن پنچائیت کے وفد نے محراب پور کے وڈیرے سے رجوع کر کے ندا اور اس کے شوہر کو ان کے حوالے کرنے کے لیے کہا جس پر جرگہ نے انھیں کارو کاری قرار دے دیا۔ وہ دونوں اپنی جان بچانے کے لیے بڑی مشکل سے کراچی پہنچے۔ انھوں نے اپنے وکیل کے توسط سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے روبرو درخواست میں تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کی ہے۔
خبر کے ساتھ پسند کی شادی کرنیوالے جوڑے کی تصویر بھی دی گئی ہے جو شکل وصورت اور عمر کے لحاظ اور اعتبار سے انتہائی معصوم اور غریب لگتے ہیں۔ ان کے چہروں سے خوف اور تذبذب عیاں ہے کیونکہ وہ مستقبل میں ہونے والے اپنے ساتھ سلوک کے بارے میں بالکل نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ غریب بچوں کے لیے سب سے بڑی امید اور روشنی ان کے خاندان ہوتے ہیں جو نہ صرف ان کے دشمن بن گئے ہیں بلکہ انھیں صفحہ ہستی سے مٹانا بھی چاہتے ہیں وہ غریب اور مفرور ہونے کے باعث بے روز گار بھی ہیں جس کا صاف مطلب ہے کہ اپنی معاشی محتاجی کے باعث وہ اپنی دیکھ بھال خود کرنے سے قاصر ہیں۔ خاندان کے لوگوں نے تو بھیڑئیے کا روپ دھار ہی لیا ہے لیکن ان کے اردگرد درندے بھی منُہ پھاڑے انھیں ہڑپ کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ندا بھی ایک بیٹی ہے۔ اس کا قصور کیا ہے؟ اس کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ ایک بوڑھے شخص کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے بجائے اپنے ہم عمر ایک جوان کے ساتھ اس کی شریک حیات بن کر رہنا چاہتی ہے۔کیا اکیسویں صدی میں یہ قصور قابل گردن زدنی ہوسکتا ہے؟ بالکل ہوسکتا ہے شرط یہ ہے کہ آپ اکیسویں صدی کے اندر ہوتے ہوئے سترویں صدی کے دلدادہ ہوں۔ آپ کے آگے اور آپ کے پیچھے دیوار کھڑی کردی گئی ہو۔ اوپر سے ڈھانپ دیا گیا ہو جس کے باعث آپ کچھ بھی دیکھ سکنے کے قابل نہ ہوں۔
ہمارا دین ہمیں ظلمات سے نور کی طرف لیجانا چاہتا ہے مگر ہم اس کی تعلیمات کے بر عکس نور سے ظلمات کی طرف جانے پر مُصر ہیں۔ ہمارا دین ہمیں صرف اور صرف اللہ کے قانون کی پاسداری کا حکم دیتا ہے لیکن ہم پنچائیت چوہدری اور وڈیرے کے قانون کو لا گو کرنا چاہتے ہیں اللہ ہمیں انسان بنانا چاہتا ہے لیکن ہم جانور بننے کے لیے بے چین رہتے ہیں یہ سلسلہ ہمیں کبھی آباد نہیں کرسکے گا۔ ہم عروج سے زوال کی طرف ہی گامزن رہیں گے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ماں باپ، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب اور رشتے داروں کے ہوتے ہوئے ندا اس ساری دنیا میں بالکل اکیلی رہ گئی ہے وہ جس کے سہارے زندگی گزارنا چاہتی ہے اس کی زندگی کی بھی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کیونکہ وہ بھی پنچائیت، چوہدری اور وڈیرے کی دنیا میں رہتا ہے۔کیا کوئی سوچنے والا ہے کہ اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں ندا اور جاوید علی کا کیا بنے گا۔ یہ ایک ندا اور ایک جاوید علی نہیں ہیں۔ اکیسویں صدی کے پاکستان میں ایسے بے شمار جاوید علی اور ندا کی جوڑی جیسی جوڑیاں خوف، کرب، ذلت، گھبراہٹ اور بد ترین ذہنی اذیت اور کوفت میں زندگی گزار رہی ہیں۔ محبت کرنیوالے سارے رشتوں نے گِدھوں کا روپ دھارلیا ہے اور آس پاس منڈلا رہے ہیں تاکہ موقع ملتے ہی انھیں نوچنا شروع کریں۔کیوں؟ خاندانی غیرت کی خاطر پنچائیت کے فیصلے کی عظمت کو قائم رکھنے کی خاطر، چوہدری اور وڈیرے کی شان کا بھرم رکھنے کی خاطر۔ لیکن کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر ہم واقعی غیرت مند ہوتے تو اسقدر ذلیل کیوں ہوتے۔ اگر ہم واقعی عزت دار ہوتے تو دنیا بھر میں بھکاری کی حیثیت سے کیوں جانے جاتے ہم تو وہ بد بخت لوگ ہیں جو خراج کی گدا سے نہیں بلکہ باقاعدہ گدائی کا پیشہ اپنا کر قیصری کرنے کے ماہر ہیں۔ہمیں اکیسویں صدی میں رہنے کا کوئی حق نہیںہے۔ ہم لوگ حال کی نفی کرکے اور مستقبل سے لاتعلق رہ کر ماضی میں زندہ رہنا چاہتے ہیں جو ہماری دماغی حالت کی تشویش ناک کیفیت کو واضح کرتا ہے اس پر طرہ یہ کہ ہم پورے وثوق اور یقین کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ جس اندھے کنویں کی جانب رواں دواں ہیں وہی سیدھا راستہ ہے جس پر چلنے کی ہم دن میں پانچ مرتبہ دعا کرتے ہیں اور اس پر لعنت بھیجتے ہیں جو بھٹکا ہوا اور راندہ درگاہ رِب العزّت ہے۔ کیا ہم میں سے کوئی ہے جو ندا اور جاوید علی کی مدد کرے۔ خدا ان بچوں کا حافظ و ناصر ہو۔ آمین۔