افغان حکام کی پاکستان میں برادر سے ملاقات
" ہم نے برادر سے ملاقات کی، ہمارے وفد نے ان سے بات کی اور ان کی امن...
افغان حکام نے طالبان کے سابق سیکنڈ ان کمانڈجو کہ اس وقت پاکستان کی جیل میں قید ہیں کے ساتھ مزاکرات کئے جنہیں پوشیدہ رکھا گیا ۔ دونوں ممالک کےسینئیر حکام کے بقول یھ قدم طالبان جنگجوون کے ساتھ مزاکرات دوبارہ نئے سرے سے شروع کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔
افغان حکام نے ہمیشہ پاکستان کو طالبان سے مزاکرات کرنے کے معاملے میں پیچھے ہٹتے دیکھا ہے مگر اس دفعہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کو ملا ابدل غنی برادر سے ملنے کی اجازت ملنا پاکستان کی مزاکرات پر آمادگی کو ظاہر کرتا ہے۔
رنگین سپانتا جو کے صدر حامد کرزائی کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزراور طالبان سے امن مزاکرات کے بانی ہیں نے بتایا کہ افغانی وفد نے ملا برادر سے دو مہینے پہلے پاکستان میں ملاقات کی۔ برادر پاکستان میں 2010 سے جیل میں قید ہیں۔
سپانتا نےرائیٹرز کو بیان دیا " ہم نے برادر سے ملاقات کی، ہمارے وفد نے ان سے بات کی اور ان کی امن مزاکرات پہ رائے جاننے کی کوشش کی۔"
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ پاکستان نے افغان حکام کو ملا برادر سے ملاقات کی اجازت دے دی۔ ملک نے مزید کہا "ہم افغانستان سے مکمل تعاون کر رہے ہیں اورافغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے ان کی کوششوں میں انکا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔"
پاکستان کو افغانستان میں امن وا امان کی بحالی کیلئے بڑی اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر امریکی افواج کا2014 تک افغانستان سے انخلا شروع ہو جائیگا جبکہ عسکریت پسند ابھی بھی بڑی تعداد میں پاک افغان بارڈر کی علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔
افغان حکام برادر سے بات چیت کو نہایت اہمیت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور پر امید ہیں کہ برادر افغان طالبان کے سینئیر لیڈران جنمیں ملا عمر بھی شامل ہیں سے مزاکرات کروانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان نے امن مزاکرات کی بحالی پر اتفاق رائے کیا تھا اور پاکستان کے وزیراعظم نے افغانی حکام اورطالبان کے درمیان مزاکرات کروانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
افغان حکام نے ہمیشہ پاکستان کو طالبان سے مزاکرات کرنے کے معاملے میں پیچھے ہٹتے دیکھا ہے مگر اس دفعہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کو ملا ابدل غنی برادر سے ملنے کی اجازت ملنا پاکستان کی مزاکرات پر آمادگی کو ظاہر کرتا ہے۔
رنگین سپانتا جو کے صدر حامد کرزائی کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزراور طالبان سے امن مزاکرات کے بانی ہیں نے بتایا کہ افغانی وفد نے ملا برادر سے دو مہینے پہلے پاکستان میں ملاقات کی۔ برادر پاکستان میں 2010 سے جیل میں قید ہیں۔
سپانتا نےرائیٹرز کو بیان دیا " ہم نے برادر سے ملاقات کی، ہمارے وفد نے ان سے بات کی اور ان کی امن مزاکرات پہ رائے جاننے کی کوشش کی۔"
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ پاکستان نے افغان حکام کو ملا برادر سے ملاقات کی اجازت دے دی۔ ملک نے مزید کہا "ہم افغانستان سے مکمل تعاون کر رہے ہیں اورافغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے ان کی کوششوں میں انکا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔"
پاکستان کو افغانستان میں امن وا امان کی بحالی کیلئے بڑی اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر امریکی افواج کا2014 تک افغانستان سے انخلا شروع ہو جائیگا جبکہ عسکریت پسند ابھی بھی بڑی تعداد میں پاک افغان بارڈر کی علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔
افغان حکام برادر سے بات چیت کو نہایت اہمیت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور پر امید ہیں کہ برادر افغان طالبان کے سینئیر لیڈران جنمیں ملا عمر بھی شامل ہیں سے مزاکرات کروانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان نے امن مزاکرات کی بحالی پر اتفاق رائے کیا تھا اور پاکستان کے وزیراعظم نے افغانی حکام اورطالبان کے درمیان مزاکرات کروانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔