آبی بحران اور بلاول بھٹو
تھرپارکر کا علاقہ برسہا برس سے خشک سالی کی وجہ سے بھوک و افلاس میں مبتلا ہے۔
پانی پاکستان کی موت و زندگی کا مسئلہ بن چکا ہے۔ گزشتہ 17 برس کے دوران پانی کے ذخائر کے متعلق ہماری قومی بے حسی کا نتیجہ موجودہ نسل کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ملک کا کوئی صوبہ ایسا نہیں ہے جس کو پینے کے پانی کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔ دریا دن بدن خشک ہوتے جارہے ہیں، صوبہ سندھ اور بلوچستان کا بیشتر حصہ پانی کی عدم دستیابی کی بدولت مسلسل خشک سالی کا شکار ہورہا ہے، خاص کر سندھ میں پانی کی قلت بڑھتی جارہی ہے۔ تھرپارکر کا علاقہ برسہا برس سے خشک سالی کی وجہ سے بھوک و افلاس میں مبتلا ہے۔
دوسری طرف ہمارے سیاسی رہنما اقتدار کے حصول کی جنگ میں مست ہاتھی کی طرح ملک کے عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ پانی کا تنازع دن بدن شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ پاکستان کو جنگی میدان میں شکست دینے میں ناکامی کے بعد اس نے آبی جنگ شروع کر رکھی ہے، اس کے نتیجے میں ملک کے بیشتر حصے بنجر ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کسی بھی حکومت نے کوشش نہیں کی۔ ایوب خان کے دور میں منگلا، تربیلا اور وارسک ڈیم کے علاوہ کوئی قابل ذکر ڈیم نہیں بن سکا۔ تمام آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی زراعت کی بقاء کے لیے کالا باغ ڈیم کی تعمیر انتہائی لازمی ہے، اگر یہ ڈیم تعمیر نہ ہوا تو پاکستان کی ناصرف زراعت تباہ بلکہ پینے کے پانی کی بھی قلت پیدا ہوجائے گی اور ہماری اس غفلت کا نتیجہ ہمارے سامنے آنا شروع ہوچکا ہے اور آج ملک کے کونے کونے سے العطش، العطش کی آوازیں بلند ہونی شروع ہوگئی ہیں۔
مستقبل کی خطرناک صورتحال کا احساس ماہرین کے ساتھ ساتھ اب زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی ہونے لگا ہے۔پاکستان کے اس سنگین ترین مسئلے کو حل کرنے کے لیے سیاسی حکمرانوں کی ناکامی اور ہٹ دھرمی کے بھیانک نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف سنجیدہ قدم اٹھایا تو پھر ہمارے بعض سیاست دانوں کو حسب معمول تکلیف محسوس ہونے لگی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک کے آبی مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری طور پر دو ایسے ڈیم بنانے کی منظوری متعلقہ فریقین کی رضامندی سے دی ہے جس کی تعمیر پر قوم متحد ہے لیکن سیاست دان اپنے مذموم مقاصد کی وجہ سے اسکو عملی شکل دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق بھاشا اور مہمند ڈیم اس پیسے سے تعمیر ہوگا جو ہمارے سیاست دان مختلف بینکس سے قرضے معاف کراکر عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ وہ ڈوبی ہوئی رقم ہے جس کی واپسی کی امید بڑی بڑی جمہوری حکومتوں کے دور میں بھی ناممکن نظر آئی۔ یہ رقم زیادہ تر ملک میں جمہوریت کے نام پر برسراقتدار آنے والے سیاست دانوں اور مارش لاء کے دور میں عنان حکومت سنبھالنے والے اعلیٰ ترین افسران نے شیر مادر سمجھ کر ہضم کر رکھا تھا۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ملک کے پہلے سیاست دان ہیں جن کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس حکم سے سخت تکلیف پہنچی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیم تعمیر کرنا یا کرانا عدالتوں کا کام نہیں ہے۔ بات بالکل صحیح ہے، لیکن جب ملک میں جمہوریت اور آمریت کے بھیس میں برسراقتدار آنے والے افراد ملک کے اہم ترین مسئلے پر اپنی آنکھیں بند رکھیں تو پھر کوئی نہ کوئی آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔
بلاشبہ ڈیمز کی تعمیر سول حکومتوں کا فرض ہے لیکن پاکستان کے عوام چیئرمین سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آپ کے نانا، والدہ اور آپ کے والد محترم برسہا برس تک پاکستان کے حکمران رہے، انھوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ چھوٹی موٹی نہریں تعمیر کرنے کا کام صرف سندھ میں ہی نہیں، ملک کے دیگر صوبوں میں بھی ہوا ہے لیکن کوئی چھوٹا یا بڑا ڈیم کسی بھی حکومت نے کیوں نہیں تعمیر کیا۔
پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں آج بھی ایسے پسماندہ علاقے موجود ہیں جہاں انسان و جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ سندھ میں تو صورتحال دن بہ دن انتہائی سنگین ہوتی جارہی ہے۔ تھرپارکر ہو یا بدین کا علاقہ یہاں کے باسیوں کی مشکلات اور پیاس کا اندازہ کراچی میں بیٹھ کر نہیں لگایا جاسکتا۔ پاکستان کے عوام اب ڈیمز کی تعمیر کو سیاسی نہیں بلکہ اپنا معاشی مسئلہ سمجھ کر حل کرانے کے خواہش مند ہیں اور اس سلسلے میں وہ پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے سیاسی رہنما اقتدار کے حصول کی جنگ میں مست ہاتھی کی طرح ملک کے عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ پانی کا تنازع دن بدن شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ پاکستان کو جنگی میدان میں شکست دینے میں ناکامی کے بعد اس نے آبی جنگ شروع کر رکھی ہے، اس کے نتیجے میں ملک کے بیشتر حصے بنجر ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کسی بھی حکومت نے کوشش نہیں کی۔ ایوب خان کے دور میں منگلا، تربیلا اور وارسک ڈیم کے علاوہ کوئی قابل ذکر ڈیم نہیں بن سکا۔ تمام آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی زراعت کی بقاء کے لیے کالا باغ ڈیم کی تعمیر انتہائی لازمی ہے، اگر یہ ڈیم تعمیر نہ ہوا تو پاکستان کی ناصرف زراعت تباہ بلکہ پینے کے پانی کی بھی قلت پیدا ہوجائے گی اور ہماری اس غفلت کا نتیجہ ہمارے سامنے آنا شروع ہوچکا ہے اور آج ملک کے کونے کونے سے العطش، العطش کی آوازیں بلند ہونی شروع ہوگئی ہیں۔
مستقبل کی خطرناک صورتحال کا احساس ماہرین کے ساتھ ساتھ اب زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی ہونے لگا ہے۔پاکستان کے اس سنگین ترین مسئلے کو حل کرنے کے لیے سیاسی حکمرانوں کی ناکامی اور ہٹ دھرمی کے بھیانک نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف سنجیدہ قدم اٹھایا تو پھر ہمارے بعض سیاست دانوں کو حسب معمول تکلیف محسوس ہونے لگی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک کے آبی مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری طور پر دو ایسے ڈیم بنانے کی منظوری متعلقہ فریقین کی رضامندی سے دی ہے جس کی تعمیر پر قوم متحد ہے لیکن سیاست دان اپنے مذموم مقاصد کی وجہ سے اسکو عملی شکل دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق بھاشا اور مہمند ڈیم اس پیسے سے تعمیر ہوگا جو ہمارے سیاست دان مختلف بینکس سے قرضے معاف کراکر عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ وہ ڈوبی ہوئی رقم ہے جس کی واپسی کی امید بڑی بڑی جمہوری حکومتوں کے دور میں بھی ناممکن نظر آئی۔ یہ رقم زیادہ تر ملک میں جمہوریت کے نام پر برسراقتدار آنے والے سیاست دانوں اور مارش لاء کے دور میں عنان حکومت سنبھالنے والے اعلیٰ ترین افسران نے شیر مادر سمجھ کر ہضم کر رکھا تھا۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ملک کے پہلے سیاست دان ہیں جن کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس حکم سے سخت تکلیف پہنچی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیم تعمیر کرنا یا کرانا عدالتوں کا کام نہیں ہے۔ بات بالکل صحیح ہے، لیکن جب ملک میں جمہوریت اور آمریت کے بھیس میں برسراقتدار آنے والے افراد ملک کے اہم ترین مسئلے پر اپنی آنکھیں بند رکھیں تو پھر کوئی نہ کوئی آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔
بلاشبہ ڈیمز کی تعمیر سول حکومتوں کا فرض ہے لیکن پاکستان کے عوام چیئرمین سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آپ کے نانا، والدہ اور آپ کے والد محترم برسہا برس تک پاکستان کے حکمران رہے، انھوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ چھوٹی موٹی نہریں تعمیر کرنے کا کام صرف سندھ میں ہی نہیں، ملک کے دیگر صوبوں میں بھی ہوا ہے لیکن کوئی چھوٹا یا بڑا ڈیم کسی بھی حکومت نے کیوں نہیں تعمیر کیا۔
پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں آج بھی ایسے پسماندہ علاقے موجود ہیں جہاں انسان و جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ سندھ میں تو صورتحال دن بہ دن انتہائی سنگین ہوتی جارہی ہے۔ تھرپارکر ہو یا بدین کا علاقہ یہاں کے باسیوں کی مشکلات اور پیاس کا اندازہ کراچی میں بیٹھ کر نہیں لگایا جاسکتا۔ پاکستان کے عوام اب ڈیمز کی تعمیر کو سیاسی نہیں بلکہ اپنا معاشی مسئلہ سمجھ کر حل کرانے کے خواہش مند ہیں اور اس سلسلے میں وہ پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔