کچھ دن ترکی میں
ایک ٹیبل پر موجود پاکستانی صاحب ہمیں پہچان گئے اور اپنا اور ساتھیوں کا تعارف کروایا۔
میں کیف و سرور کے سمندر میں غوطہ زن تھا کیونکہ جو منظر میرے سامنے تھا وہ خوش قسمت لوگوں کے ہی نصیب میں آتا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے حضور اکرمؐ کی دو تلواریں ایک شوکیس میں خوبصورتی سے سجی تھیں۔ یہ تلواریں غزوہ بدر اور ہجرت مکہ کے موقع پر آپ کے ساتھ تھیں۔ سونے کے ایک صندوق پر نگاہ پڑی تو آپ کا سیاہ اون کا بنا فرغل مبارک نظر آیا۔ ملحقہ کمرے میں داخل ہوا تو شوکیس میں آپ کا قدم مبارک دکھا۔
روایت کے مطابق آپ شب معراج کے موقع پر اس پتھر پر قدم مبارک رکھ کربراق پر سوار ہوئے۔ ایک شوکیس میں حضور اکرمؐ کی مہر مبارک کا دیدار ہوا۔ نبی کریم کا وہ دندان مبارک جو غزوہ احد میں شہید ہوا سونے کے کیس میں جگمگا رہا تھا۔ اللہ کے نبی کے موئے مبارک بھی میوزیم کی شان بڑھا رہے تھے۔ چمڑے کے ٹکڑے پر آپ کا وہ خط نظر آیا جس پر آپ کی مہر واضح ہے۔ یہ خط شاہ روم مکاوس کو تبلیغ کی غرض سے تحریر کیا تھا۔
میوزیم میں حضرت علیؓ اور خلفائے راشدین سمیت حضرت داؤد علیہ السلام کی تلواریں بھی موجود ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کا عصا جو زمین پر ڈالتے ہی اژدھا بن جاتا تھا اس میوزیم کی زینت ہے۔ ایک وسیع گیلری میں قرآن کریم کے نادر و نایاب نسخے موجود ہیں۔ ایک شوکیس میں حضرت عثمان غنیؓ کا وہ قرآن شریف موجود ہے جو شہادت کے وقت تلاوت فرما رہے تھے۔ اس پر خون کے دھبے آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایک گیلری میں داخل ہوئے تو بیت اﷲ کے دروازے کے قفل و میزاب رحمت، حجر اسود کا غلاف، اور اﷲ کے گھر سے متعلق قیمتی نوادرات کا دیدار ہوا۔ حسن و خوبصورتی کے ان نظاروں کے سحر میں جکڑے جب باہر آئے تو دیگر ساتھی منتظر تھے۔ سب ساتھیوں کا تعلق پاکستانی میڈیا کے مختلف اداروں سے ہے جو پاکستان میں اینکرز اور پروڈیوسرز کے فورم پاکستان میڈیا کلب کے تحت یہاں پہنچے۔ سفر کا انتظام و انصرام ضیاخان، اعجاز کھوکھر اور سجاد سہاگ نے کیا۔
یہاں آنے کے لیے جو کنٹری بیوشن یعنی زر تعاون جمع کروانا پڑا وہ کچھ تخفیف شدہ تھا اور پھر ترکی کے صدر طیب اردوان ودیگر سے ملاقات بھی اس سفر کا حصہ تھی، تو ہم بھی قافلے میں شامل ہولیے اور پھر جن اسلامی نوادرات کا دیدار ملا اس سے اندازہ ہوا کہ ہمارا فیصلہ درست تھا۔باہر ہماری ایک ساتھی خاتون نے ہماری توجہ جس جانب مبذول کروائی اس مسئلہ نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ ہم نے جو اب چاروں جانب نظریں دوڑائیں تو محترمہ کی بات میں وزن نظر آیا۔
میوزیم کے اندر اور باہر دنیا بھر سے آئے سیاحوں کا رش تھا اور مرد و زن کے پیرہن ان کے کلچر کی بلند آہنگ غمازی کرتے نظر آئے۔ ہماری ساتھی خاتون نے کہا، صدام میں تو اسلامی نوادرات کو دیکھتے جیسے ہی پلٹتی تو آدھے لباس میں ملبوس خواتین کو دیکھ کر بدمزہ ہوجاتی، کیا اس جگہ کا ڈریس کوڈ نہیں ہونا چاہیے؟ ان کی یہ بات سن کر قریب موجود ساتھی نے کہا، یہ میوزیم ہے اور اچھی بات ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ ہماری ثقافت سے مانوس ہوں۔
دوسرا لقمہ نجی ٹی وی کے پروڈیوسر کا تھا جنھوں نے کہا بھائی بات درست ہے، پر دبئی میں موجود میوزیم میں داخلے کا بھی تو ڈریس کوڈ ہے اور خواتین کو مکمل لباس کے بعد ہی داخلے کی اجازت ہے، وہاں بھی تو دنیا بھر کے سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ان کی بات میں وزن تھا اور ہم سوچ رہے تھے کہ واقعی نوادرات کی زیارت میں کھوئے ہمیں اندازہ ہی نہ رہا کہ اردگرد دنیا بھر سے آئے سیاحوں کے لباس کیسے تھے۔ اس کے بعد ہم بلیو موسک یعنی نیلی مسجد کا نظارہ کرنے آیا صوفیہ پہنچے۔
عالم اسلام کی خوبصورت مساجد میں شمار ہونے والی نیلی مسجد بادشاہ سلطان احمد نے 1617 میں تعمیر کروائی۔ آیا صوفیہ عیسائیت کا عظیم گرجا گھر رہا۔ اس عظیم کلیسا کی وجہ سے قسطنطنیہ کو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ 1453 میں جب سلطان محمد نے قسطنطنیہ فتح کیا تو یہاں چالیس ہزار عیسائیوں نے پناہ لی، جنھیں جان کی امان دے کر شہر میں سکون سے بسنے کی آزادی دی گئی۔تقسیم اسکوائر پر واقع ایلیٹ ورلڈ ہوٹل میں سب کو ڈبل روم میسر تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میڈیا سے وابستہ پچاس سے زائد افراد کا یہ ایک بڑا ڈیلی گیشن تھا، جس میں ہمارے محترم استاد ریحان حسن سمیت ملک بھر سے دیگر میڈیا پروفیشنلز شامل تھے۔ پہلے روز ہوٹل واپسی پر ترکی کے سرکاری ٹی وی سے وابستہ احمد رضا و دیگر بھی ملاقات کے لیے آئے۔ اگلے دن طے شدہ شیڈول کیمطابق رات کا کھانا باسفورس کروز میں تھا۔
استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں ایشیا اور یورپ میں پھیلا ہے۔ اس کے تینوں جانب تین سمندر بحیرہ مرمر، بحیرہ باسفورس گولڈن ہارن ہیں۔ باسفورس کی سیر کے دوران جو محل سلطان عبدالمجید نے تعمیر کروایا تھا وہ بھی دیکھا، جس کی تعمیر میں کئی ٹن خالص سونا استعمال کیا گیا۔ اس دوران باسفورس پل بھی دیکھا جس کی تعمیر سے ایشیا اور یورپ کے درمیان فاصلے ختم ہوئے۔
کروز میں مختلف ٹیبلز پر مختلف ممالک کے لوگ تھے، جن کے سامنے ان کا قومی پرچم رکھا گیا تھا، سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی، کیونکہ ہم سمیت پانچ ٹیبلوں پر پاکستانی پرچم موجود تھا۔ دائیں جانب ایک ٹیبل پر بھارتی جھنڈا بھی نظر آیا۔ اس دوران عراقی، ایرانی و دیگر قومیتوں کے لوگوں سے گپ شپ اور تفریح کا سلسلہ جاری رہا لیکن بھارتی سیاح خاموشی سے اپنی ٹیبل پر ہی بیٹھے رہے اور نجانے کس وجہ سے انھوں نے کسی بھی ایکٹیوٹی میں شامل ہونے سے گریز کیا۔ اس دوران ہم سب پاکستانی ہلالی پرچم لہراتے رہے۔
ایک ٹیبل پر موجود پاکستانی صاحب ہمیں پہچان گئے اور اپنا اور ساتھیوں کا تعارف کروایا کہ ان کا تعلق پاکستان رینجرز سے ہے اور ترکی میں گھومنے کی غرض سے آئے ہیں۔ اگلے دن فیری کے ذریعے پرنسز آئی لینڈ پہنچے۔ یہ انتہائی خوبصورت جزیرہ ہے جسے دیکھ کر کوہ مری یاد آگیا۔ یہاں گھومنے کے لیے بگھیوں کے علاوہ سائیکلیں بھی کرائے پر دستیاب ہیں۔ شام میں واپسی پر فیری میں سب ساتھیوں نے خوب دھماچوکڑی مچائی، جس میں ترکش اور یورپین کے علاوہ بھارتی سیاح خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ہمارا ہوٹل تقسیم اسکوائر پر واقع تھا جس کے سامنے استقلال اسٹریٹ ہے۔ تقسیم اسکوائر کا علاقہ استنبول کے یورپی حصے میں ہے اور لباس و بودوباش مکمل یورپین طرز کا ہے۔ استنبول میں قیام کے دوران چائے کی کمی کو خاصہ محسوس کیا کیونکہ وہاں زیادہ استعمال قہوے کا ہے، جس کا ذائقہ ہمیں بالکل نہ بھایا، البتہ ترکی کی مٹھائیاں خوش ذائقہ ہیں خاص کر مشہور مٹھائی بکلاوہ لذیذ ہے۔ مختلف بازاروں میں گھوم کر اندازہ ہوا کہ سستی اور اچھی شاپنگ کے لیے گرینڈ بازار موزوں ہے۔
اس دوران سلطان کے حرم سمیت دیگر تاریخی مقامات بھی دیکھے۔ ترکی میں مساجد بہت خوبصورت ہیں اور اندازے کیمطابق استنبول میں پندرہ سو مساجد موجود ہیں۔ ترک ایک بہادر قوم ہے، جنھوں نے پانچ سو سال تک تین براعظموں پر حکومت کی ہے۔ یہاں کے لوگ خوبصورت و خوش مزاج ہیں اور پاکستانیوں کی قدر کرتے ہیں۔
یہ بہادر قوم اپنے فیصلوں میں اٹل ہے، جس کی زندہ مثال طیب اردوان ہیں، جنھیں ایک مرتبہ پھر منتخب کیا گیا ہے۔ یہ قوم غلامانہ سوچ نہیں رکھتی۔ اس وقت وطن پاکستان میں بھی الیکشن کا شور و غوغا ہے، دعا ہے کہ پاکستانی بھی غلامانہ سوچ سے نکل کا درست انتخاب کریں تاکہ قوم کا مستقبل سنور سکے۔
روایت کے مطابق آپ شب معراج کے موقع پر اس پتھر پر قدم مبارک رکھ کربراق پر سوار ہوئے۔ ایک شوکیس میں حضور اکرمؐ کی مہر مبارک کا دیدار ہوا۔ نبی کریم کا وہ دندان مبارک جو غزوہ احد میں شہید ہوا سونے کے کیس میں جگمگا رہا تھا۔ اللہ کے نبی کے موئے مبارک بھی میوزیم کی شان بڑھا رہے تھے۔ چمڑے کے ٹکڑے پر آپ کا وہ خط نظر آیا جس پر آپ کی مہر واضح ہے۔ یہ خط شاہ روم مکاوس کو تبلیغ کی غرض سے تحریر کیا تھا۔
میوزیم میں حضرت علیؓ اور خلفائے راشدین سمیت حضرت داؤد علیہ السلام کی تلواریں بھی موجود ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کا عصا جو زمین پر ڈالتے ہی اژدھا بن جاتا تھا اس میوزیم کی زینت ہے۔ ایک وسیع گیلری میں قرآن کریم کے نادر و نایاب نسخے موجود ہیں۔ ایک شوکیس میں حضرت عثمان غنیؓ کا وہ قرآن شریف موجود ہے جو شہادت کے وقت تلاوت فرما رہے تھے۔ اس پر خون کے دھبے آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایک گیلری میں داخل ہوئے تو بیت اﷲ کے دروازے کے قفل و میزاب رحمت، حجر اسود کا غلاف، اور اﷲ کے گھر سے متعلق قیمتی نوادرات کا دیدار ہوا۔ حسن و خوبصورتی کے ان نظاروں کے سحر میں جکڑے جب باہر آئے تو دیگر ساتھی منتظر تھے۔ سب ساتھیوں کا تعلق پاکستانی میڈیا کے مختلف اداروں سے ہے جو پاکستان میں اینکرز اور پروڈیوسرز کے فورم پاکستان میڈیا کلب کے تحت یہاں پہنچے۔ سفر کا انتظام و انصرام ضیاخان، اعجاز کھوکھر اور سجاد سہاگ نے کیا۔
یہاں آنے کے لیے جو کنٹری بیوشن یعنی زر تعاون جمع کروانا پڑا وہ کچھ تخفیف شدہ تھا اور پھر ترکی کے صدر طیب اردوان ودیگر سے ملاقات بھی اس سفر کا حصہ تھی، تو ہم بھی قافلے میں شامل ہولیے اور پھر جن اسلامی نوادرات کا دیدار ملا اس سے اندازہ ہوا کہ ہمارا فیصلہ درست تھا۔باہر ہماری ایک ساتھی خاتون نے ہماری توجہ جس جانب مبذول کروائی اس مسئلہ نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ ہم نے جو اب چاروں جانب نظریں دوڑائیں تو محترمہ کی بات میں وزن نظر آیا۔
میوزیم کے اندر اور باہر دنیا بھر سے آئے سیاحوں کا رش تھا اور مرد و زن کے پیرہن ان کے کلچر کی بلند آہنگ غمازی کرتے نظر آئے۔ ہماری ساتھی خاتون نے کہا، صدام میں تو اسلامی نوادرات کو دیکھتے جیسے ہی پلٹتی تو آدھے لباس میں ملبوس خواتین کو دیکھ کر بدمزہ ہوجاتی، کیا اس جگہ کا ڈریس کوڈ نہیں ہونا چاہیے؟ ان کی یہ بات سن کر قریب موجود ساتھی نے کہا، یہ میوزیم ہے اور اچھی بات ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ ہماری ثقافت سے مانوس ہوں۔
دوسرا لقمہ نجی ٹی وی کے پروڈیوسر کا تھا جنھوں نے کہا بھائی بات درست ہے، پر دبئی میں موجود میوزیم میں داخلے کا بھی تو ڈریس کوڈ ہے اور خواتین کو مکمل لباس کے بعد ہی داخلے کی اجازت ہے، وہاں بھی تو دنیا بھر کے سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ان کی بات میں وزن تھا اور ہم سوچ رہے تھے کہ واقعی نوادرات کی زیارت میں کھوئے ہمیں اندازہ ہی نہ رہا کہ اردگرد دنیا بھر سے آئے سیاحوں کے لباس کیسے تھے۔ اس کے بعد ہم بلیو موسک یعنی نیلی مسجد کا نظارہ کرنے آیا صوفیہ پہنچے۔
عالم اسلام کی خوبصورت مساجد میں شمار ہونے والی نیلی مسجد بادشاہ سلطان احمد نے 1617 میں تعمیر کروائی۔ آیا صوفیہ عیسائیت کا عظیم گرجا گھر رہا۔ اس عظیم کلیسا کی وجہ سے قسطنطنیہ کو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ 1453 میں جب سلطان محمد نے قسطنطنیہ فتح کیا تو یہاں چالیس ہزار عیسائیوں نے پناہ لی، جنھیں جان کی امان دے کر شہر میں سکون سے بسنے کی آزادی دی گئی۔تقسیم اسکوائر پر واقع ایلیٹ ورلڈ ہوٹل میں سب کو ڈبل روم میسر تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میڈیا سے وابستہ پچاس سے زائد افراد کا یہ ایک بڑا ڈیلی گیشن تھا، جس میں ہمارے محترم استاد ریحان حسن سمیت ملک بھر سے دیگر میڈیا پروفیشنلز شامل تھے۔ پہلے روز ہوٹل واپسی پر ترکی کے سرکاری ٹی وی سے وابستہ احمد رضا و دیگر بھی ملاقات کے لیے آئے۔ اگلے دن طے شدہ شیڈول کیمطابق رات کا کھانا باسفورس کروز میں تھا۔
استنبول دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں ایشیا اور یورپ میں پھیلا ہے۔ اس کے تینوں جانب تین سمندر بحیرہ مرمر، بحیرہ باسفورس گولڈن ہارن ہیں۔ باسفورس کی سیر کے دوران جو محل سلطان عبدالمجید نے تعمیر کروایا تھا وہ بھی دیکھا، جس کی تعمیر میں کئی ٹن خالص سونا استعمال کیا گیا۔ اس دوران باسفورس پل بھی دیکھا جس کی تعمیر سے ایشیا اور یورپ کے درمیان فاصلے ختم ہوئے۔
کروز میں مختلف ٹیبلز پر مختلف ممالک کے لوگ تھے، جن کے سامنے ان کا قومی پرچم رکھا گیا تھا، سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی، کیونکہ ہم سمیت پانچ ٹیبلوں پر پاکستانی پرچم موجود تھا۔ دائیں جانب ایک ٹیبل پر بھارتی جھنڈا بھی نظر آیا۔ اس دوران عراقی، ایرانی و دیگر قومیتوں کے لوگوں سے گپ شپ اور تفریح کا سلسلہ جاری رہا لیکن بھارتی سیاح خاموشی سے اپنی ٹیبل پر ہی بیٹھے رہے اور نجانے کس وجہ سے انھوں نے کسی بھی ایکٹیوٹی میں شامل ہونے سے گریز کیا۔ اس دوران ہم سب پاکستانی ہلالی پرچم لہراتے رہے۔
ایک ٹیبل پر موجود پاکستانی صاحب ہمیں پہچان گئے اور اپنا اور ساتھیوں کا تعارف کروایا کہ ان کا تعلق پاکستان رینجرز سے ہے اور ترکی میں گھومنے کی غرض سے آئے ہیں۔ اگلے دن فیری کے ذریعے پرنسز آئی لینڈ پہنچے۔ یہ انتہائی خوبصورت جزیرہ ہے جسے دیکھ کر کوہ مری یاد آگیا۔ یہاں گھومنے کے لیے بگھیوں کے علاوہ سائیکلیں بھی کرائے پر دستیاب ہیں۔ شام میں واپسی پر فیری میں سب ساتھیوں نے خوب دھماچوکڑی مچائی، جس میں ترکش اور یورپین کے علاوہ بھارتی سیاح خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ہمارا ہوٹل تقسیم اسکوائر پر واقع تھا جس کے سامنے استقلال اسٹریٹ ہے۔ تقسیم اسکوائر کا علاقہ استنبول کے یورپی حصے میں ہے اور لباس و بودوباش مکمل یورپین طرز کا ہے۔ استنبول میں قیام کے دوران چائے کی کمی کو خاصہ محسوس کیا کیونکہ وہاں زیادہ استعمال قہوے کا ہے، جس کا ذائقہ ہمیں بالکل نہ بھایا، البتہ ترکی کی مٹھائیاں خوش ذائقہ ہیں خاص کر مشہور مٹھائی بکلاوہ لذیذ ہے۔ مختلف بازاروں میں گھوم کر اندازہ ہوا کہ سستی اور اچھی شاپنگ کے لیے گرینڈ بازار موزوں ہے۔
اس دوران سلطان کے حرم سمیت دیگر تاریخی مقامات بھی دیکھے۔ ترکی میں مساجد بہت خوبصورت ہیں اور اندازے کیمطابق استنبول میں پندرہ سو مساجد موجود ہیں۔ ترک ایک بہادر قوم ہے، جنھوں نے پانچ سو سال تک تین براعظموں پر حکومت کی ہے۔ یہاں کے لوگ خوبصورت و خوش مزاج ہیں اور پاکستانیوں کی قدر کرتے ہیں۔
یہ بہادر قوم اپنے فیصلوں میں اٹل ہے، جس کی زندہ مثال طیب اردوان ہیں، جنھیں ایک مرتبہ پھر منتخب کیا گیا ہے۔ یہ قوم غلامانہ سوچ نہیں رکھتی۔ اس وقت وطن پاکستان میں بھی الیکشن کا شور و غوغا ہے، دعا ہے کہ پاکستانی بھی غلامانہ سوچ سے نکل کا درست انتخاب کریں تاکہ قوم کا مستقبل سنور سکے۔