عوامی احتساب یا انتشار
عوامی احتساب کے نام پر تشدد کو ہوا دے کر ملک میں انتشار و انارکی کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔
احتساب لفظ اپنے معنوں میں بڑا وسیع مطلب رکھتا ہے ۔ اس کی بہترین صورت خود احتسابی ہے اور بدترین صورت پُر تشدد عوامی احتساب ہے ۔ مہذب معاشروں میں احتساب کی پہلی صورت کے عکس وہاں کی ترقی میں معاشرتی و سماجی اقدارکے روپ میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔جب کہ دنیا کے مہذب و جمہوری ممالک میں سیاسی اخلاقیات اور جمہوری اقدار کی پاسداری ہوتی ہے مگر مملکت ِ خداداد میں ان اقدار کا ناپید ہونا ہمارے غیر مہذب معاشرہ ہونے کا پتہ دیتی ہیں ۔
ہم عام طور پر روز آئینے کے سامنے کھڑے تو ہوتے ہیں لیکن خود اپنے ضمیر سے آنکھیں چراکر کتراکے نکل جاتے ہیں ۔ اورہماری یہی نفسیات زندگی کے تمام شعبہ جات میں خرابی کی بنیادی وجہ ہے ۔ ملکی سیاست بھی ان اخلاقی اقدار سے عاری نظر آتی ہے ۔ کبھی انتظامی عہدوں پر براجمان افراد کی جانب سے عوام کی تذلیل کی جاتی ہے کہ تو کبھی سیاسی مخالفین پر گالم گلوچ و اوچھے لفظوں کے تیر برسائے جاتے ہیں اور اس کو ٹھیک کرنے کے بجائے اپنی انفرادی و اجتماعی کوتاہیوں اور غلطیوں کا بوجھ معاشرے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔
دیگر ممالک کی سیاست میں تو اپنے منشور کے ذریعے ملک میں بہتر سے بہترین ماحول و ترقی کے وعدے کیے جاتے ہیں یا پھر عوامی مفاد کے پیش نظر اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اپنے حریف کی کارکردگی پر سوال اُٹھائے جاتے ہیں ۔ لیکن اس خطے میں بوئے گئے مذہبی انتہاپسندی کے بیج کا یہ اثر ہوا کہ زندگی کے تمام شعبہ جات کی طرح سیاست میں بھی انتہا پسندی و تشدد سائے کی طرح ساتھ ساتھ سفر کرتے رہے اور اس بیج کو ہم نے نفرت کا پانی دیکر سینچا، جو تناور درخت بن گیاہے ۔ جس میں تشدد کا عنصر اس قدر حاوی ہوتا گیا ہے کہ آج ملکی سیاست کُشتی کا اکھاڑہ بن گئی ہے اور سیاست دان بھی سیاسی اختلاف رائے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ذاتی دشمن بن جاتے ہیں، پھر ووٹرز اور حمایتی بھی اُن کی تقلید کرتے ہیں اور یوں پورا ملک اکھاڑہ بن جاتا ہے ۔
ایسی صورتحال میں خود احتسابی والی احتساب کی بہترین صورت تو کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور تمام معاشرہ خود فریبی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جمہوریت میںانتخابی عمل میں عوام کے فیصلہ کن کردار کی وجہ سے عوام ہی سب سے طاقتور ہوتا ہے اور وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے سیاستدانوں کو منتخب بھی کرتے ہیں تو مسترد بھی کرتے ہیں یعنی انتخابات اور اس میں ووٹ ہی احتساب کا بہترین اظہار ہے ۔ لیکن جب معاشرہ بدعنوانیوں کے طوفان میں اچھے اور برے کی تمیز کھو دیتا ہے تو سیاسی عمل بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔ پھر عوام اپنے فیصلے ووٹ سے نہیں بلکہ خود فریبی اوراندھے گھوڑے پر سوار ہوکربلا سوچے سمجھے اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر اُن رہنماؤں کا احتساب گلیوں کوچوں میں کرنے پر اُتر آتے ہیں ۔اس موڑ پر اگر عوام کو تدبر اور تحمل کی ہم مزاج رہنمائی ملے تو عوامی انقلاب آتا ہے ورنہ وہ عوامی احتساب انتشار و انارکی کا باعث بن جاتا ہے ۔
حالیہ ملکی حالات بھی اسی دوراہے پر نظر آتے ہیں ۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ ملک میں سیاسی شعور کی حامل تبدیلی آگئی ہے۔ لیکن جس طرح سیاسی و جمہوری سسٹم سے جڑے لوگوں کے خلاف اکھاڑ پچھاڑ کی گئی وہ شکوک سے خالی نہیں ۔ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب، وفاقی دارالحکومت میں دھرنے اور اُن میں حکومتی رٹ کو ناکارہ بنانا اور پھر بلوچستان اسمبلی کی جانب سے اپنی تکمیلی مدت کے آخری ایام میں انتخابات ملتوی کرنے کی سفارش کا بل پاس کرنا۔ ان حالات کا جائزہ لینے اور ترتیب سے رونما ہونے والے واقعات سے واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ یہ تبدیلی عوامی اُمنگوں اور خواہشات کے مطابق انقلاب بن کر نہیں آئی بلکہ غیرجمہوری قوتوں کے عزائم کی تکمیل کے لیے لائی گئی ہے ۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گذشتہ 10برس کی حکمرانی کے دوران مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو شکایتیں ہیں۔ جس سے متعلق عوام وقتاً فوقتاً اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں لیکن کوئی تدارک نہیں ہوپایا ۔ ایسے میں انتخابات کے شروع ہونے والے عمل کے دوران لوگ آزمائے ہوئے امیدواران سے انتہائی بے رخی برتتے ہوئے ووٹ دینے سے پہلے سوال بھی کر رہے ہیں تو اُن پر خراب کارکردگی کے طعنوں کے تیر بھی برسارہے ہیں ۔ حالانکہ خراب طرز ِ حکمرانی کی وجہ سے ملک بھر میں عوام اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں لیکن سندھ کے عوام تو کئی وجوہات کی بناء پر ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ بھگت رہے ہیں۔ وہ اس وقت کثیر الجہتی تباہ کاریوں کو منہ دے رہے ہیں ۔
ایک طرف قلت ِ آب کی وجہ سے زراعت تباہ ہوکر رہ گئی ہے تو دوسری طرف دریائے سندھ، کینجھر و منچھر جیسی بڑی جھیلوں سمیت پانی کے کئی ذخائر موجود ہونے کے باوجود لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ۔ صوبہ بھر میں گندگی و کچرے کے ڈھیروں کے خاتمے کے لیے کوئی ذمے دار ادارہ نظر نہیں آتا۔ غیر مقامی آبادی میں دن بہ دن ہونے والے اضافے کی وجہ سے یہاں مہنگائی ، بدامنی میں اضافہ اور وسائل پر قبضہ ہوگیا ہے جب کہ یہ صوبہ کی ڈیمو گرافی پربھی وار ہے ۔
وفاق کی جانب سے ہر سال اربوں روپے حصے سے کم دینا ۔ اوپر سے صوبائی حکومت کی خراب طرز ِ حکمرانی ، کرپشن اورعوام کے مسائل سے آنکھیں چرانے کی وجہ سے یہاں کے لوگ توجیسے بپھرے ہوئے ہیں۔ لیکن باوجود شدیدناراضگی اور غم و غصے کے سندھ کے عوام اس خطے میں ویدانی اور وحدانی تصوف کی تعلیمات کے ہزارہا سالوں کے اثر کی وجہ سے جہاں حق کی سر بلندی کے لیے کھڑا ہونا یہاں کے لوگوں کے مزاج میں شامل ہے ، وہیں اعلیٰ کردار ،انسانی برابری ، دوسروں کی رائے کو اہمیت دینا، برداشت ، عفو و تحمل مزاجی بھی اُن کے مزاج کا حصہ ہیں جو اس خطے کے لوگوں کو مکمل طور پر سیاسی ، سماجی و جمہوری اور اخلاقی اقدار پر مبنی رویوں کا حامل بناتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ تحریک پاکستان ہویا تعمیر پاکستان یا پھر تحریک بحالی ِ جمہوریت ، تمام مواقع پر یہ خطہ ہمیشہ رہنمائی کرتے نظر آتا ہے ۔لیکن ماضی گواہ ہے کہ یہاں کے لوگ تشدد و معاشرتی انتشار کا باعث بننے والی کسی بھی تحریک کانہ کبھی حصہ رہے ہیں اور نہ ہی کبھی حمایت کی ہے ۔ اور وہ اپنے معاملات میں افہام و تفہیم اور اخلاقی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔ لیکن حالیہ انتخابی ماحول میں ووٹرز کی جانب سے امیدواران سے اُن کی ناقص کارکردگی پر احتجاج کے واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ اب اپنے حقوق و وسائل کی لوٹ مار پر خاموش نہیں رہنا چاہتے بلکہ 70سال سے اقتدار پر قابض قوتوں سے حساب کرنا چاہتے ہیں ،پھر سوشل میڈیا کی موجودگی اور وہاں سے ملنے والے حوصلے کی بدولت اب اُن میں سوالات اُٹھانے کی جرأت بھی پیداہوگئی ہے ۔
یہاں یہ بھی لازم ہے کہ یہ سب مثبت سیاسی عمل و اخلاقی اقدار کی حدود میں رہ کر ہونا چاہیے اور اکثر و بیشتر جگہوں پر ایسا ہوبھی رہا ہے ، لیکن کچھ ملک دشمن اس سیاسی شعوری لہر کو پر تشدد بنا کر ملک میں گذشتہ 10سال سے پنپنے والے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کا جواز پیدا کرنے کے ساتھ ملک میں سیاسی افراتفری کے ساتھ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں اور پھر حالات کو قابو میں کرنے کے بہانے ملکی اسٹیٹسکو کی صورت میں ملکی وسائل کی لوٹ مار پر قانونی حق حاصل کرنے کے اپنے مذموم عزائم کو پورا کرسکیں ۔
یہی وجہ ہے کہ جہاں کوٹری میں ملک اسد سکندر جیسے مضبوط و طاقتور وڈیرے کوانتخابی مہم کے دوران ووٹر کی جانب سے راستے میں روک کرعلاقے کی بدحالی سے متعلق اُن کی کارکردگی پراخلاقی اقدار کی حدود میں رہتے ہوئے سوالات کیے گئے اور اپنا احتجاج نوٹ کروایا ،وہیں دادو میں سابقہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے سامنے بھی حلقہ کے لوگوں کی جانب سے احتجاج کے واقعات ہوئے لیکن کہیں سے بھی کسی تشدد کی کوئی اطلاع نہیں آئی ۔لیکن لیاری میں بلاول کی قیادت میں نکلنے والی پیپلز پارٹی کی ریلی پر پتھراؤاور پُرتشدد کارروائیوںمیںجہاں حلقے کے ناراض ووٹرز شامل تھے وہیں پی پی پی اور اس کی قیادت کے مخالفین بھی شامل تھے جو کہ اُن غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے مقصدکو پورا کرنے کی کوششوں میں اُن کے بالواسطہ یا بلا واسطہ سانجھی بنے ۔
ان حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پُرتشدد احتجاج و کارروائیاں کسی طور بھی عوام کی جانب سے نہیں ہیں بلکہ یہ جمہورت کو ڈی ریل کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ جس کے تحت عوامی احتساب کے نام پر تشدد کو ہوا دے کر ملک میں انتشار و انارکی کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے ۔ اس لیے معاشرے میں پھیلی بے چینی کو اگر درست سمت نہ دی گئی تو یہ انتشار ایک قومی المیے اور ملکی خلفشار کا باعث بنے گا۔ اس لیے لازم ہے کہ تمام سیاسی و جمہوری قوتوں کو دور اندیشی و تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے برداشت ، رواداری ، اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کرنے ، عوام کے سامنے جوابدہ رہنے، ملک میں سیاسی ماحول اور جمہوری ہم آہنگی کی فضا کو قائم رکھنے کے لیے عدم تشدد کی ترغیب کے لیے تحرک لیا جائے ورنہ اگر عوام نے ایک مرتبہ تشدد کا راستہ اپنا لیا تو پھر اس ملک میں جمہوری ومعاشرتی اقدار کی کشتی کوڈوبنے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔