شعر و سخن اور افسانے
افسانے میں کرداروں کا اپنے فطری انداز میں بات کرنا افسانے کو زندگی بخش دیتا ہے۔
میرے سامنے اس وقت دو کتابیں ہیں، ایک شعری مجموعہ بعنوان ''لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے'' اس کے تخلیق کار خواجہ رضی حیدر ہیں اور یہ کتاب 240 صفحات کا احاطہ کرتی ہے اور نظمیہ شاعری سے مرصع ہے، جب کہ دوسری کتاب افسانوں کا مجموعہ ہے، افسانہ نگار ہیں شہناز خانم عابدی ''افسانوں کے دریچوں سے جھانکتی زندگی'' اس کا عنوان ہے اور یہ اکادمی بازیافت سے شایع ہوئی ہے۔
تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر 25 افسانے زندگی کی کہانیاں سنا رہے ہیں، وہ زندگی جو غموں، دکھوں اور ڈھیروں مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ مسرت و انبساط کی بوندیں جھلستے ابدان پر کم ہی کم برستی ہیں یا پھر احساس کی شدت خوشی سے زیادہ یاسیت کو محسوس کرتی ہے۔ میں محترمہ شہناز عابدی کے افسانوں کو قارئین سے متعارف کرانے سے قبل ''لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے'' پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے کی کوشش کروں گی، خواجہ رضی حیدر کا یہ تیسرا شعری مجموعہ ہے، پہلا مجموعہ ''بے دیارِ شام'' جب کہ دوسرا ''گماں گشت'' کے نام سے اشاعت کے مرحلے میں داخل ہوا۔ مذکورہ دونوں کتابیں غزلیات پر مشتمل ہیں۔
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے اپنے مضمون ''ہمہ جہتی اضطراب کا نمایندہ شاعر'' میں لکھا ہے کہ ''خواجہ رضی حیدر کی کم و بیش ایک سو سے زائد نظمیں ان کی تازہ کتاب شعر میں شامل کی گئی ہیں اور یوں یہ کتاب لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے، ایک بھرپور شعر ہے، ان کی نظموں میں فکر و دانش کا بھرپور اظہار گہری سانسیں لے رہا ہے۔ خواجہ رضی حیدر کی نظموں سے سرسری نہیں گزرا جاسکتا، ہر نظم فنی خوبیوں سے الگ اپنی فکری تفہیم میں انسانی جذبات و محسوسات کے پیچیدہ حوالوں اور تاریخ و تہذیب کی نیرنگیوں سے گفتگو کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔''
بے شک خواجہ رضی حیدر خوبصورت اور پرتاثیر نظموں کے تخلیق کار ہیں، ان کی شاعری میں ایک دکھ کی کیفیت نمایاں ہے، یہی وجہ ہے کہ قاری بھی اس احساس سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھ سکتا ہے۔ شاعر کا ہر شعر معاشرتی سچائی کے گرد گھومتا ہے۔ اور باطن کا دکھ شاعری کے قلب میں ابھر آیا ہے۔ ''میں زندہ نہیں ہوں'' یہ عنوان ہے ان کی نظم کا جس میں مایوسی بچھو کے ڈنک کی طرح سینے میں پیوست ہوگئی ہے اور دل و دماغ پر ناکامیوں کی برچھیاں مسلسل اپنا کام دکھا رہی ہیں ملاحظہ فرمائیے۔
میں مرنے سے پہلے۔۔۔۔ کئی کام کرنے کی حسرت لیے۔۔۔۔ ایک جہد مسلسل سے پیوست تھا۔۔۔۔ ایک تھکن بدن میں رواں جوکہ رکھتی تھی تازہ مجھے۔۔۔۔ ہر نفس۔۔۔۔ ہر قدم پر، مگر وقت ایسا نہیں چاہتا تھا سو اس نے مری زندگی، ایک انجان خواہش سے مشروط کرکے، مجھے مار ڈالا۔
ان کی ایک اور نظم ''رقص دہشت'' سے چند اشعار۔
یہ خودکش دھماکے، کہاں تک ہمارا تعاقب کریں گے، کہاں تک ہمارے ارادوں کی دہلیز پر، بے خطر رقصِ دہشت کریں گے، کہاں تک یہ خوشیوں بھرے بام و در میں، سینہ پوش منظر اگاتے رہیں گے، کہاں تک یہ مقتل سجاتے رہیں گے۔
حال ہی میں ''لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے'' کی شاندار تقریب اجرا ہوئی۔ یہ تقریب رونمائی یادگار تقریبات میں سے ایک تھی۔ شہناز خانم عابدی کے اولین مجموعہ ''خواب کا رشتہ'' کئی سال قبل شایع ہوا تھا۔ میں ''خواب کا رشتہ'' کو پڑھنے سے محروم رہی، لیکن افسانوں کے دریچوں سے جھانکتی زندگی کے افسانے میں نے بڑی توجہ اور دلچسپی سے پڑھے، مجھے مطالعے نے یہ سمجھایا کہ شہناز خانم عابدی فن افسانہ سے نہ کہ بہت اچھی طرح واقف ہیں بلکہ اس میدان تخلیقیت کی پختہ کار کھلاڑی بھی ہیں اور خوب جم کر لکھتی ہیں، اسی لیے ان کی تحریریں قاری کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ قاری خود نہیں پڑھتا بلکہ یہ افسانے اپنی سحر انگیزی، سماجی سچائیوں کے حوالے سے اپنے آپ کو اچھی طرح پڑھوا لیتے ہیں۔ زندگی کے حقائق کو انھوں نے فنی باریکیوں اور سچائی کے ساتھ ڈھالا ہے۔ ان افسانوں کی بنت اور ماحول سازی میں اردگرد کا ماحول سانس لیتا نظر آتا ہے جو انھوں نے دیکھا محسوس کیا اسی احساس اور درد کو دل میں اتارنے کے ساتھ ساتھ صفحہ قرطاس پر امر بیل کی طرح پھیلا دیا ہے۔ پڑھتے جائیے اور مزے لیتے جائیے کہ یہ معاشرے کے تلخ و شیریں واقعات کا تسلسل ہیں۔
کتاب میں شامل پہلا افسانہ ''رشتہ آواز'' ہے، میرا دل بھی اس آواز کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ مصنفہ نے کرداروں کے رہن سہن، بول چال اور ماحول کی عکاسی اس قدر دل نشیں انداز میں کی ہے کہ لفظوں سے پینٹ کی ہوئی تصویریں متحرک ہوگئی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پوری بستی رہتے بستے اور زندگی گزارتے لوگوں کے ساتھ اپنے طلسماتی قدموں سے چلتی ہوئی سامنے آگئی ہو۔ آئیے چند سطور پڑھتے ہیں۔
''اس نے جب ہوش پکڑا تو وہ لاڑکانہ میں تھی، کہتے اس کے لوگ ''گیا'' سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ''گیا'' جہاں راج کمار گوتم بدھ سدھارتھ کو پیپل کے ایک پیڑ کے نیچے گیان کی روشنی ملی تھی، دل ہی دل میں وہ ''گیا'' سے گوتم سدھارتھ (بدھ) سے پیپل کے پیڑ سے روشنی سے اپنا رشتہ جڑا پا کر بہت خوش ہوتی، اس کو لاڑکانہ بہت پسند تھا، دنیا بھر کے سیاح جو موئن جو دڑو آتے وہ لاڑکانہ بھی آتے۔ لاڑکانہ کے جام (امرود) اور بیر اس کے من بھاتے تھے، لاڑکانہ کے دونوں بڑے باغ ''جناح باغ اور گیان باغ'' تو اس کے کلیجے کے ٹکڑے تھے، گیان باغ کے اسی تالاب میں کنول کے ایک پھول کے نظارے میں گم ہوکر وہ تالاب میں گر پڑی تھی، کہانی کے ہیرو ڈاکٹر جواد سائیں نے اس کی زندگی بچائی تھی۔ ڈاکٹر جواد اور حنا کے لیے وہ لمحات امر ہوگئے۔ وہ جلد ہی شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
افسانے میں کرداروں کا اپنے فطری انداز میں بات کرنا افسانے کو زندگی بخش دیتا ہے، افسانے سے چند سطور۔ سلام ماسی! تو نے مجھے پہچانا نہیں؟ ماں آلتو آں تیرا ہمسایہ قلندر بخش جو پتر۔ اچھا! تو قلندر بخش کا چھورا آلتو ہے، تو ڈرائیور کب سے بن گیا رے!'' چھوٹے چھوٹے اور بامعنی جملوں نے افسانے میں رنگ بھر دیا ہے، جیسے حنا ان کی سوئمبر میں ''جیتی ہوئی عورت تھی'' لیکن جب ڈاکٹر جواد حادثاتی طور پر موت کی وادی میں اتر گئے تو حنا شدید محبت کے باعث ان کے خیال و خواب میں زندگی بسر کرنے لگی۔ تصوراتی دنیا کی دلکشی اسے بھانے لگی اس کی موت کا سبب بھی یہی نفسیاتی بیماری بنی اور ایک دن جوہڑ نے ایسا روپ بدلا کہ وہ ایک خوبصورت تالاب میں بدل گیا اور تالاب میں کنول کے پھول کھلے ہوئے تھے اور دور سے اسے ڈاکٹر جواد کی آواز سنائی دے رہی تھی جو اسے تالاب میں گرنے کے لیے دعوت دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ''یہ ملن گھڑی ہے''۔
ایک اور افسانہ پروٹیکشن کے عنوان سے مصنفہ نے لکھا ہے جو مغربی ماحول کا عکاس ہے۔ اس حقیقت میں بھی شبہ نہیں کہ مغرب اپنے ملک میں رہنے بسنے والوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن انسانی جذبات اور جبلت کو نظرانداز کرنا ان کے اصولوں اور ضوابط میں شامل ہے۔ Child Protection Service نے سورن کی بچی کو اپنے ادارے میں لے جانے کے لیے اس وقت قدم اٹھایا، جب بچی کی ماں ملازمت پر تھی گھر آکر اس نے جو منظر دیکھا وہ ایک ماں کے لیے نہایت تکلیف دہ تھا۔ بچی کے رونے پر پڑوسیوں نے 911 کو فون کرکے بلالیا تھا، سورن نے لاکھ منت سماجت کی، ادارے کے ارکان نے ممتا پر رحم کھانے کے بجائے اپنی ڈیوٹی کو اہمیت دی۔
مغرب اور مشرق میں یہی فرق ہے۔ ''انتہائی مطلوب'' ایک ایسا افسانہ ہے جس میں گداگری کی لعنت اور گداگروں کے ماحول کے تنفس اور بے رحمی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ شہناز عابدی کے قلم کا جادو منہ چڑھ کر بولتا ہے اور قاری کی مکمل توجہ اپنی طرف مبذول کرالیتا ہے۔ ''لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے'' کی نظمیں اور مصنفہ کے افسانے بے حد شاندار اور جاندار ہیں۔ یہ کتابیں بار بار پڑھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر 25 افسانے زندگی کی کہانیاں سنا رہے ہیں، وہ زندگی جو غموں، دکھوں اور ڈھیروں مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ مسرت و انبساط کی بوندیں جھلستے ابدان پر کم ہی کم برستی ہیں یا پھر احساس کی شدت خوشی سے زیادہ یاسیت کو محسوس کرتی ہے۔ میں محترمہ شہناز عابدی کے افسانوں کو قارئین سے متعارف کرانے سے قبل ''لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے'' پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے کی کوشش کروں گی، خواجہ رضی حیدر کا یہ تیسرا شعری مجموعہ ہے، پہلا مجموعہ ''بے دیارِ شام'' جب کہ دوسرا ''گماں گشت'' کے نام سے اشاعت کے مرحلے میں داخل ہوا۔ مذکورہ دونوں کتابیں غزلیات پر مشتمل ہیں۔
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے اپنے مضمون ''ہمہ جہتی اضطراب کا نمایندہ شاعر'' میں لکھا ہے کہ ''خواجہ رضی حیدر کی کم و بیش ایک سو سے زائد نظمیں ان کی تازہ کتاب شعر میں شامل کی گئی ہیں اور یوں یہ کتاب لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے، ایک بھرپور شعر ہے، ان کی نظموں میں فکر و دانش کا بھرپور اظہار گہری سانسیں لے رہا ہے۔ خواجہ رضی حیدر کی نظموں سے سرسری نہیں گزرا جاسکتا، ہر نظم فنی خوبیوں سے الگ اپنی فکری تفہیم میں انسانی جذبات و محسوسات کے پیچیدہ حوالوں اور تاریخ و تہذیب کی نیرنگیوں سے گفتگو کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔''
بے شک خواجہ رضی حیدر خوبصورت اور پرتاثیر نظموں کے تخلیق کار ہیں، ان کی شاعری میں ایک دکھ کی کیفیت نمایاں ہے، یہی وجہ ہے کہ قاری بھی اس احساس سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھ سکتا ہے۔ شاعر کا ہر شعر معاشرتی سچائی کے گرد گھومتا ہے۔ اور باطن کا دکھ شاعری کے قلب میں ابھر آیا ہے۔ ''میں زندہ نہیں ہوں'' یہ عنوان ہے ان کی نظم کا جس میں مایوسی بچھو کے ڈنک کی طرح سینے میں پیوست ہوگئی ہے اور دل و دماغ پر ناکامیوں کی برچھیاں مسلسل اپنا کام دکھا رہی ہیں ملاحظہ فرمائیے۔
میں مرنے سے پہلے۔۔۔۔ کئی کام کرنے کی حسرت لیے۔۔۔۔ ایک جہد مسلسل سے پیوست تھا۔۔۔۔ ایک تھکن بدن میں رواں جوکہ رکھتی تھی تازہ مجھے۔۔۔۔ ہر نفس۔۔۔۔ ہر قدم پر، مگر وقت ایسا نہیں چاہتا تھا سو اس نے مری زندگی، ایک انجان خواہش سے مشروط کرکے، مجھے مار ڈالا۔
ان کی ایک اور نظم ''رقص دہشت'' سے چند اشعار۔
یہ خودکش دھماکے، کہاں تک ہمارا تعاقب کریں گے، کہاں تک ہمارے ارادوں کی دہلیز پر، بے خطر رقصِ دہشت کریں گے، کہاں تک یہ خوشیوں بھرے بام و در میں، سینہ پوش منظر اگاتے رہیں گے، کہاں تک یہ مقتل سجاتے رہیں گے۔
حال ہی میں ''لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے'' کی شاندار تقریب اجرا ہوئی۔ یہ تقریب رونمائی یادگار تقریبات میں سے ایک تھی۔ شہناز خانم عابدی کے اولین مجموعہ ''خواب کا رشتہ'' کئی سال قبل شایع ہوا تھا۔ میں ''خواب کا رشتہ'' کو پڑھنے سے محروم رہی، لیکن افسانوں کے دریچوں سے جھانکتی زندگی کے افسانے میں نے بڑی توجہ اور دلچسپی سے پڑھے، مجھے مطالعے نے یہ سمجھایا کہ شہناز خانم عابدی فن افسانہ سے نہ کہ بہت اچھی طرح واقف ہیں بلکہ اس میدان تخلیقیت کی پختہ کار کھلاڑی بھی ہیں اور خوب جم کر لکھتی ہیں، اسی لیے ان کی تحریریں قاری کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ قاری خود نہیں پڑھتا بلکہ یہ افسانے اپنی سحر انگیزی، سماجی سچائیوں کے حوالے سے اپنے آپ کو اچھی طرح پڑھوا لیتے ہیں۔ زندگی کے حقائق کو انھوں نے فنی باریکیوں اور سچائی کے ساتھ ڈھالا ہے۔ ان افسانوں کی بنت اور ماحول سازی میں اردگرد کا ماحول سانس لیتا نظر آتا ہے جو انھوں نے دیکھا محسوس کیا اسی احساس اور درد کو دل میں اتارنے کے ساتھ ساتھ صفحہ قرطاس پر امر بیل کی طرح پھیلا دیا ہے۔ پڑھتے جائیے اور مزے لیتے جائیے کہ یہ معاشرے کے تلخ و شیریں واقعات کا تسلسل ہیں۔
کتاب میں شامل پہلا افسانہ ''رشتہ آواز'' ہے، میرا دل بھی اس آواز کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ مصنفہ نے کرداروں کے رہن سہن، بول چال اور ماحول کی عکاسی اس قدر دل نشیں انداز میں کی ہے کہ لفظوں سے پینٹ کی ہوئی تصویریں متحرک ہوگئی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پوری بستی رہتے بستے اور زندگی گزارتے لوگوں کے ساتھ اپنے طلسماتی قدموں سے چلتی ہوئی سامنے آگئی ہو۔ آئیے چند سطور پڑھتے ہیں۔
''اس نے جب ہوش پکڑا تو وہ لاڑکانہ میں تھی، کہتے اس کے لوگ ''گیا'' سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ''گیا'' جہاں راج کمار گوتم بدھ سدھارتھ کو پیپل کے ایک پیڑ کے نیچے گیان کی روشنی ملی تھی، دل ہی دل میں وہ ''گیا'' سے گوتم سدھارتھ (بدھ) سے پیپل کے پیڑ سے روشنی سے اپنا رشتہ جڑا پا کر بہت خوش ہوتی، اس کو لاڑکانہ بہت پسند تھا، دنیا بھر کے سیاح جو موئن جو دڑو آتے وہ لاڑکانہ بھی آتے۔ لاڑکانہ کے جام (امرود) اور بیر اس کے من بھاتے تھے، لاڑکانہ کے دونوں بڑے باغ ''جناح باغ اور گیان باغ'' تو اس کے کلیجے کے ٹکڑے تھے، گیان باغ کے اسی تالاب میں کنول کے ایک پھول کے نظارے میں گم ہوکر وہ تالاب میں گر پڑی تھی، کہانی کے ہیرو ڈاکٹر جواد سائیں نے اس کی زندگی بچائی تھی۔ ڈاکٹر جواد اور حنا کے لیے وہ لمحات امر ہوگئے۔ وہ جلد ہی شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔
افسانے میں کرداروں کا اپنے فطری انداز میں بات کرنا افسانے کو زندگی بخش دیتا ہے، افسانے سے چند سطور۔ سلام ماسی! تو نے مجھے پہچانا نہیں؟ ماں آلتو آں تیرا ہمسایہ قلندر بخش جو پتر۔ اچھا! تو قلندر بخش کا چھورا آلتو ہے، تو ڈرائیور کب سے بن گیا رے!'' چھوٹے چھوٹے اور بامعنی جملوں نے افسانے میں رنگ بھر دیا ہے، جیسے حنا ان کی سوئمبر میں ''جیتی ہوئی عورت تھی'' لیکن جب ڈاکٹر جواد حادثاتی طور پر موت کی وادی میں اتر گئے تو حنا شدید محبت کے باعث ان کے خیال و خواب میں زندگی بسر کرنے لگی۔ تصوراتی دنیا کی دلکشی اسے بھانے لگی اس کی موت کا سبب بھی یہی نفسیاتی بیماری بنی اور ایک دن جوہڑ نے ایسا روپ بدلا کہ وہ ایک خوبصورت تالاب میں بدل گیا اور تالاب میں کنول کے پھول کھلے ہوئے تھے اور دور سے اسے ڈاکٹر جواد کی آواز سنائی دے رہی تھی جو اسے تالاب میں گرنے کے لیے دعوت دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ''یہ ملن گھڑی ہے''۔
ایک اور افسانہ پروٹیکشن کے عنوان سے مصنفہ نے لکھا ہے جو مغربی ماحول کا عکاس ہے۔ اس حقیقت میں بھی شبہ نہیں کہ مغرب اپنے ملک میں رہنے بسنے والوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن انسانی جذبات اور جبلت کو نظرانداز کرنا ان کے اصولوں اور ضوابط میں شامل ہے۔ Child Protection Service نے سورن کی بچی کو اپنے ادارے میں لے جانے کے لیے اس وقت قدم اٹھایا، جب بچی کی ماں ملازمت پر تھی گھر آکر اس نے جو منظر دیکھا وہ ایک ماں کے لیے نہایت تکلیف دہ تھا۔ بچی کے رونے پر پڑوسیوں نے 911 کو فون کرکے بلالیا تھا، سورن نے لاکھ منت سماجت کی، ادارے کے ارکان نے ممتا پر رحم کھانے کے بجائے اپنی ڈیوٹی کو اہمیت دی۔
مغرب اور مشرق میں یہی فرق ہے۔ ''انتہائی مطلوب'' ایک ایسا افسانہ ہے جس میں گداگری کی لعنت اور گداگروں کے ماحول کے تنفس اور بے رحمی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ شہناز عابدی کے قلم کا جادو منہ چڑھ کر بولتا ہے اور قاری کی مکمل توجہ اپنی طرف مبذول کرالیتا ہے۔ ''لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے'' کی نظمیں اور مصنفہ کے افسانے بے حد شاندار اور جاندار ہیں۔ یہ کتابیں بار بار پڑھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔