نواز مریم کا فیصلہ ۔ شہباز عمران میں کس کو فائدہ ہوگا
ووٹر اور سپورٹر کو بھی علم ہی تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہو جائے گی۔
نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف فیصلہ کسی کے لیے بھی باعث حیرانی وپریشانی نہیں ہے۔ اس فیصلے کی سب کو توقع تھی، صرف توہین عدالت کے خوف سے براہ راست لکھا نہیں جا سکتا تھا ورنہ فیصلہ زبان زد عام تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کے لیے یہ فیصلہ کوئی سرپرائز ہے۔ انھیں بھی یقین تھا کہ انھیں سزا ہو جائے گی۔ اگر ان کے پاس کوئی گیم پلان ہے تو اس میں سزا موجود تھی۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ سزا کو سامنے رکھے بغیر ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ اسی طرح یہ فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹر اور سپورٹر کے لیے بھی کوئی حیرانی و پریشانی کا باعث نہیں ہے۔ ووٹر اور سپورٹر کو بھی علم ہی تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہو جائے گی۔ اس لیے ن لیگ کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد سے جو ووٹر ن لیگ کے ساتھ کھڑا ہے وہ اس فیصلے کے بعد بھی ن لیگ کے ساتھ ہی کھڑا رہے گا۔ اس لیے یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اس فیصلے سے ن لیگ کے ووٹ بینک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اس ضمن میں نا اہلی کے بعد ہونے والے ضمنی انتخاب دلیل کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں، لودھراں اور لاہور کا ضمنی انتخاب دیکھ لیں۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ اس فیصلے کا ن لیگ کے ووٹ بینک پر کوئی اثر پڑے گا۔
یہ بات بھی نا قابل فہم ہے کہ اس وقت کوئی آزاد ووٹر ہے جس نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے کس کو ووٹ کرنا ہے۔ آپ یہ مان لیں کہ جس نے ابھی تک کسی کو ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا وہ کسی کوووٹ دے گا ہی نہیں۔ وہ گھر بیٹھا رے گا اور ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکلے گا ہی نہیں۔ اس لیے مختلف سرویز میں جس آزاد ووٹر کا ذکر کیا جا رہا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ووٹ نہیں دینا۔ ا س کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عمران خان سے بھی نا امید ہو گیا ہے۔ اس لیے وہ گھر سے ہی نہیں نکلے گا۔ اس لیے یہ تجزیہ بھی غلط ہے کہ اس فیصلے کا کسی آزاد ووٹر کی رائے پر کسی بھی قسم کا کوئی اثر ہو گا۔ اس لیے حقیقت یہی ہے کہ یہ فیصلہ انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بس صرف اتنا ہوا ہے کہ مریم نواز انتخابی عمل سے باہر ہو گئی ہیں۔ نواز شریف پہلے ہی باہر تھے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کمان پہلے ہی شہباز شریف کو دی جا چکی ہے۔ وزارت عظمیٰ کا امیدوار بھی شہباز شریف کو ہی نامزد کیا جا چکا ہے۔ اس لیے مریم نواز کہیں گیم میں تھی ہی نہیں۔ اب یہ ضرور ہے کہ اس فیصلے کے بعد شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) پر کمان اور گرفت مضبوط ہو جائے گی۔ مسلم لیگ کی قیادت اور ووٹر شہباز شریف کے ساتھ جڑ جائے گی۔ یہ وہ وقت ہے جب شہباز شریف کی قیادت پر تمام سوالیہ نشان ختم ہو جائیں گے۔ وہ مکمل طور پر مسلم لیگ (ن) کے کپتان بن گئے ہیں۔ اب ایک لمبے عرصہ تک مسلم لیگ (ن) کی قیادت ان کے پاس رہے گی۔ تمام ابہام ختم ہو جائیں گے۔
یہ وقت شہباز شریف کے لیے کڑے امتحان کا وقت بھی ہے۔ انھیں اب مسلم لیگ (ن) کی کشتی کو آگے لے کر چلنا ہے۔ اگر نواز شریف اور مریم نواز وطن واپس آکر جیل چلے بھی جاتے ہیں تب بھی شہباز شریف کو ہی کپتانی کرنی ہے۔ اور اگر وہ لندن میں رہتے ہیں تب بھی کپتانی شہباز شریف کو ہی کرنی ہے۔ اب نواز شریف کے لیے لندن میںبیٹھ کر بھی کپتانی کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس لیے اس فیصلہ سے شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) پر اٹھنے والے سوالات اور ابہام ختم ہو گئے ہیں۔ اب یہ شہباز شریف پر ہے کہ وہ کیسی کپتانی کرتے ہیں۔ قدرت نے انھیں موقع دے دیا۔ اب اگر وہ میچ جیت جاتے ہیں تو ان کی کپتانی پکی اور اگر وہ میچ ہار جاتے ہیں تو ان کی کپتانی پر سوالیہ نشان پیدا ہو جائیں گے۔
عمران خان کو اس فیصلے پر زیادہ خوش ہونے کی ضروت نہیں ہے۔ بلکہ عمران خان کو اس فیصلے پر پیپلزپارٹی اور بالخصوص آصف زرداری کا بیان پڑھنا چاہیے۔ آصف زرداری واضح کہہ رہے ہیں کہ ا س فیصلے کا انتخابات میں ن لیگ کو فائدہ ہو گا۔ یہ درست ہے کہ آصف زرداری یہ پیشگوئی بھی کر رہے ہیں کہ نواز شریف واپس نہیں آئیں گے۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو فیصلے کی ٹائمنگ پر شدید تحفظات ہیں اور وہ سمجھ رہی ہے کہ اس فیصلے کا انتخابات میں ن لیگ کو فائدہ ہوگا۔
عمران خان کی کوشش ہو گی کہ کہ وہ اس فیصلے سے زیادہ سے فائدہ اٹھا سکیں۔ یہ فیصلہ انھیں جیت کی وہ اٹھان دیدے جس کی انھیں تلاش ہے۔ اسی لیے انھوں نے اس فیصلے پر مٹھائیاں تقسیم کرائی ہیں۔لیکن آپ دیکھیں کہ اگر اس فیصلے پر احتجاج کرنے والوں کی تعداد کم رہی ہے تو اس فیصلے پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کی تعداد بھی اتنی ہی کم رہی ہے۔ یہ تعداد ظاہر کر رہی ہے کہ نہ اس فیصلے پر کوئی عوامی جوش و خروش ہے اور نہ ہی کوئی عوامی دکھ ہے۔ اس لیے صرف اس فیصلہ پر انتخابات کی جیت اور ہار کا فیصلہ نہیں ہو گا۔ جیت اور ہار کے پیمانے مختلف ہیں۔
میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ن لیگ کو فائدہ ہو گا۔ ن لیگ کی اس کے ووٹر اور سپورٹر کے دل میں ہمدردی بڑھے گی۔ ہمدردی اور مظلومیت انتخابات کا رخ بدل دیتے ہیں۔ اس لیے انتخابات سے دو ہفتہ قبل یہ فیصلہ ن لیگ کے لیے ایک گیم چینجر بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ بلکہ یہی شہباز شریف کی قیادت کا امتحان ہے۔ انھیں مظلومیت بھی برقرار رکھنی ہے اور جیت کا جذبہ بھی برقرار رکھنا ہے۔ انھیں یہ امید رکھنی ہے کہ ہم جیت رہے ہیں۔ کیونکہ جب تک جیت کی امید رہے گی ووٹر سپورٹر میں حوصلہ ر ہے گا۔
شہباز شریف نے اب تک دھیمے انداز کی سیاست کی ہے۔ انھوں نے محاذ آرائی سے اجتناب کیا ہے لیکن ساتھ ساتھ نواز شریف سے وفاداری بھی نبھائی ہے۔ لیکن اب انھیں انتخابات کے اس آخری راؤنڈ میں جارحا نہ شہباز شریف کو باہر لانا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس فیصلے سے دوستوں اور نواز شریف کے مخالفین کو وقتی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تو پھر اس فیصلے کو التوا میں ہی رکھ دینا چاہیے۔ لیکن التوا کی صورت میں مریم نوازپارلیمنٹ میں پہنچ جاتیں۔ شاید اسی کو روکا جانا مقصود ہے۔
نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے ابہام ہے۔ گو انھوں نے کہا ہے کہ وہ واپس آ رہے ہیں۔ خبریں بھی یہی ہیں کہ وہ واپس آ رہے ہیں۔ دوست اس ضمن میں تاریخیں بتا رہے ہیں۔ لیکن اب ان کا آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اب آنے اور پہلے واپس آنے میں فرق ہے۔ اب جیل جانے کے لیے واپس آنا ہے۔ لیکن اب واپسی ان کی سیاست کو ایک نیا رخ دے گی۔
اگر نواز شریف انتخابات سے قبل واپس آ جاتے ہیں تو اس کا بھی ن لیگ کو فائدہ اور عمران خان کو نقصان ہو گا۔ دوست کہتے ہیں کہ ن لیگ کا راستہ روکنا مقصود ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے سے شہباز شریف کے لیے راستے بن رہے ہیں۔ یہ فیصلہ عمران خان کی راہ میںرکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔ اسی طرح جیسے دھرنے کے بعد انھیں کچھ نہیں ملا۔ اسی طرح شاید سارے لوٹے اکٹھے کر کے ایک کنگز پارٹی بن کر بھی انھیں منزل نہ مل سکے۔ کیونکہ یہی سیاست کا حسن ہے۔ اس میں جو نظر آ رہا ہو تا ہے وہ ہو نہیں رہا ہوتا اور جو ہو رہا ہوتا ہے وہ نظر نہیں آ رہا ہوتا۔