نواب صاحب کے اُداس آم
آم کے پیڑوں پر جب کوئل کوکتی ہے تو وہ اپنے آم خوروں کا رجسٹر منگواتے۔
گرمیوں کی آمد مجھے ان کی یاد دلاتی ہے وہ گھر میں نظر بند ہوتے یا جیل میں بند ہوں، بیمار ہوں یا صحتمند کچھ بھی ہو وہ اپنے دوستوں اور نیاز مندوں کو کبھی فراموش نہ کرتے، کوئی انھیں کتنا بھی فراموش کیوں نہ کرے وہ اس کو سال میں ایک بار اپنی یاد ضرور دلاتے اور وہ ایک بار پھر ان ہی دنوں میں آتی ہے۔ آم کے دنوں میں۔ مجھ جیسے نیاز مند جن کی اخبار نویسی کا ایک طویل دور ان کے ساتھ گزرا وقتاً فوقتاً نواب صاحب کو یاد کر لیتا ہوں۔ ان کے حقے کی گڑ گڑاہٹ مجھے آج بھی اپنے کانوں میں محسوس ہوتی ہے۔ ان کی مخصوص ترکی ٹوپی کا استعمال نواب صاحب کے بعد متروک ہو گیا۔
آم کے پیڑوں پر جب کوئل کوکتی ہے تو وہ اپنے آم خوروں کا رجسٹر منگواتے اور اپنے پسندیدہ درختوں کے آم دوستوں اور نیاز مندوں کی نذر کرتے جو کچھ بچ جاتا وہ منڈی میں چلا جاتا۔ آم ہر سال پوری دیانت اور امانت کے ساتھ ان کو پہنچا دیے جاتے جن کے ناموں پر ان کی مہر لگی ہوئی ہوتی۔ برسوں کا یہ معمول برسوں جاری رہا۔ خواہ بچوں کے منہ سے کیوں نہ چھیننا پڑتا یا آڑھتی کے بہی کھاتوں میں الٹی گنتی نہ چلانا پڑتی۔ اور اب تو یہ حالت ہے کہ نواب زادہ نصر اللہ خان کی یادیں ہی ہمارے ساتھ رہ گئی ہیں۔ اب وضع داریاں بے حد گراں ہوتی جا رہی ہیں۔ تعلقات کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور موسم سال بہ سال نا مہربان ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر حساب دوستاں درد دل ہے۔ جو بھی گزری نہایت شاندار گزری۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو موسم مہرباں ہو یا نا مہرباں اپنے باغوں کو پانی دیتے رہتے ہیں، فالتو جڑی بوٹیاں تلف کرتے رہتے ہیں، کھیت کو آراستہ کرتے رہتے ہیں اس میں ہل چلاتے رہتے ہیں اور اسے کھاد بھی دیتے رہتے ہیں۔ کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے وہ اپنے کھیت کی باغبانی سے کبھی غافل نہیں
ہوتے خواہ اس میں انھیں کتنے ہی صدمے اور دکھ کیوں نہ برداشت کرنے پڑیں۔
غالبؔ نے اس کا ذکر یوں کیا ہے:
آغشتہ ایم ہر سر خارے بہ خون دل
قانون باغبانی صحرا نوشتہ ایم
کہ ہر کانٹے کی نوک کو خون دل میں ڈبو دیا ہے اور اس طرح ہم نے صحرا کی باغبانی کا طریقہ رقم کیا ہے۔
کسی نے ایک بزرگ کو دیکھا کہ وہ درخت لگا رہا ہے اس سے پوچھا گیا کہ بابا تم یہ محنت کیوں کر رہے ہو تم تو نہ اس کے سائے میں آرام کر سکو گے نہ اس کا پھل کھا سکو گے۔ بزرگ نے جواب دیا کہ میں یہ درخت اپنے لیے نہیں اپنی اولاد کے لیے اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے لگا رہا ہوں کہ وہ اس کے سائے میں آرام کر لیں گے اور اس کے پھل کھائیں گے۔
ہمارا یہ باغبان بھی اسی مزاج کا تھا اسی باغبانی میں زندگی گزر گئی روائتی شاعری میں باغبان بلبلوں کو قید کرتا ہے اور پرندوں کا شکار کرتا ہے مگر ہمارا باغبان خود شکار ہوا کرتا ہے، قید ہوتا ہے اور جیل خانے کے کسی باغ میں نظر بند ہوتا ہے۔ ساری زندگی باغبانی کے طریقے اور قانون لکھنے میں گزر گئی ہے جس میں ہر کانٹے کی نوک کو خون دل میں ڈبونا پڑتا ہے۔ بہر حال ہم ہر سال کی طرح اس سال بھی آم کھا رہے ہیں اور لاہور سے بہت دور لمبے کے تھلوں میں کسی آم کے پیڑ پر بیٹھی ہوئی کوئل کی کوک کو عالم تصور میں سن رہے ہیں اور نواب صاحب کو یاد کر رہے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ لاہور کا عملہ تہہ بازاری تجاوزات کے چکر میں بوہڑ والے چوک سے نواب صاحب کی رہائش گاہ کے گھر کے برآمدے سے ان کی آم کی پیٹیاں بھی اُٹھا کر لے گیا۔ بعد میں کارپوریشن والوں نے معذرت بھی کی اور آم کی پیٹیاں بھی واپس کیں ۔ نوابزادہ صاحب کے باغوں میں آموں کی فصل بارآور ہو یا موسم کی کسی سختی سے برباد ہو گئی ہو یہ ان کی وضعداری رہی کہ وہ پرانی فہرست کو جھاڑ پھونک کر ہر سال نکالتے اور اسے اپنے کسی منشی کے حوالے کر دیتے ۔ وہ آم نواب صاحب کے اپنے باغ کے ہوں یا ملتان کی منڈی کے نواب صاحب کے دوستوں کے گھر میں پہنچ جاتے۔
نواب صاحب کے آموں کی پہلی پیٹی جب کسی اخبار نویس کے پاس پہنچتی تو دوسرے دن خبر چھپ جاتی کہ آموں کی پیٹیاں بٹنی شروع ہو گئی ہیں۔ نواب صاحب کے سیاسی اتحادوں کی طرح ان کے آموں کے سالانہ تحفے بھی مشہور رہے۔ افسوس کہ مرزا اسد اللہ خان غالبؔ ایک شاعر نواب صاحب کے تحفے سے محروم رہے۔ مرزا کے دو ہی شوق تھے شراب اور آم۔ مرحوم صادقین نے ایک بار اپنے قیام دہلی میں شراب کی کئی اقسام جمع کیں انھیں ایک بالٹی میں ڈال کر ملا دیا اور اس سے مرزا کے مزار کو غسل دیا۔ اگر دلی دور نہ ہوتی تو نواب صاحب مرزا کے مزار کو انواع و اقسام کے آموں سے ڈھانپ دیتے۔
میرے لیے آم کے موسم کا آغاز نواب صاحب کے آموں سے ہوتا تھا۔ ذائقہ بگڑ چکا ہے، بازار میں آموں کے ڈھیر لگ رہے ہیں مگر ان میں وہ لذت کہا ں جو نواب صاحب کے آموں میں ہوتی تھی۔ یہ آم کسی کیمیاوی مادے کی دھونی سے نہیں پکائے جاتے تھے بلکہ محبت اور پیار کی آنچ میں پکے ہوتے تھے، اسی لیے ان کی لذت اور ذائقہ ہی الگ ہوتا تھا۔ پہلے یوں ہوتا تھا کہ آم گھر میں بھی پہنچتے تھے اور ''شام غریباں'' کی مجلس میں جاتے تھے تو وہاں بھی ملا کرتے تھے۔ نواب صاحب کے جانے کے بعد سے آموں میں وہ لذت نہیں رہی۔ ملتان سے جہانگیر خان، سندھ ٹنڈو آدم سے ملک عارف جیسے مہربان اور دوسرے دوست بھی میٹھے آم بجھواتے ہیں اور بہت بجھواتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود مزید بہت میٹھے آموں کے طالب ''غالبؔ'' کی نظریں اہل ملتان و نواح ملتا ن پر لگی ہوئی ہیں۔
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
آم کے پیڑوں پر جب کوئل کوکتی ہے تو وہ اپنے آم خوروں کا رجسٹر منگواتے اور اپنے پسندیدہ درختوں کے آم دوستوں اور نیاز مندوں کی نذر کرتے جو کچھ بچ جاتا وہ منڈی میں چلا جاتا۔ آم ہر سال پوری دیانت اور امانت کے ساتھ ان کو پہنچا دیے جاتے جن کے ناموں پر ان کی مہر لگی ہوئی ہوتی۔ برسوں کا یہ معمول برسوں جاری رہا۔ خواہ بچوں کے منہ سے کیوں نہ چھیننا پڑتا یا آڑھتی کے بہی کھاتوں میں الٹی گنتی نہ چلانا پڑتی۔ اور اب تو یہ حالت ہے کہ نواب زادہ نصر اللہ خان کی یادیں ہی ہمارے ساتھ رہ گئی ہیں۔ اب وضع داریاں بے حد گراں ہوتی جا رہی ہیں۔ تعلقات کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے اور موسم سال بہ سال نا مہربان ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر حساب دوستاں درد دل ہے۔ جو بھی گزری نہایت شاندار گزری۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو موسم مہرباں ہو یا نا مہرباں اپنے باغوں کو پانی دیتے رہتے ہیں، فالتو جڑی بوٹیاں تلف کرتے رہتے ہیں، کھیت کو آراستہ کرتے رہتے ہیں اس میں ہل چلاتے رہتے ہیں اور اسے کھاد بھی دیتے رہتے ہیں۔ کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے وہ اپنے کھیت کی باغبانی سے کبھی غافل نہیں
ہوتے خواہ اس میں انھیں کتنے ہی صدمے اور دکھ کیوں نہ برداشت کرنے پڑیں۔
غالبؔ نے اس کا ذکر یوں کیا ہے:
آغشتہ ایم ہر سر خارے بہ خون دل
قانون باغبانی صحرا نوشتہ ایم
کہ ہر کانٹے کی نوک کو خون دل میں ڈبو دیا ہے اور اس طرح ہم نے صحرا کی باغبانی کا طریقہ رقم کیا ہے۔
کسی نے ایک بزرگ کو دیکھا کہ وہ درخت لگا رہا ہے اس سے پوچھا گیا کہ بابا تم یہ محنت کیوں کر رہے ہو تم تو نہ اس کے سائے میں آرام کر سکو گے نہ اس کا پھل کھا سکو گے۔ بزرگ نے جواب دیا کہ میں یہ درخت اپنے لیے نہیں اپنی اولاد کے لیے اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے لگا رہا ہوں کہ وہ اس کے سائے میں آرام کر لیں گے اور اس کے پھل کھائیں گے۔
ہمارا یہ باغبان بھی اسی مزاج کا تھا اسی باغبانی میں زندگی گزر گئی روائتی شاعری میں باغبان بلبلوں کو قید کرتا ہے اور پرندوں کا شکار کرتا ہے مگر ہمارا باغبان خود شکار ہوا کرتا ہے، قید ہوتا ہے اور جیل خانے کے کسی باغ میں نظر بند ہوتا ہے۔ ساری زندگی باغبانی کے طریقے اور قانون لکھنے میں گزر گئی ہے جس میں ہر کانٹے کی نوک کو خون دل میں ڈبونا پڑتا ہے۔ بہر حال ہم ہر سال کی طرح اس سال بھی آم کھا رہے ہیں اور لاہور سے بہت دور لمبے کے تھلوں میں کسی آم کے پیڑ پر بیٹھی ہوئی کوئل کی کوک کو عالم تصور میں سن رہے ہیں اور نواب صاحب کو یاد کر رہے ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ لاہور کا عملہ تہہ بازاری تجاوزات کے چکر میں بوہڑ والے چوک سے نواب صاحب کی رہائش گاہ کے گھر کے برآمدے سے ان کی آم کی پیٹیاں بھی اُٹھا کر لے گیا۔ بعد میں کارپوریشن والوں نے معذرت بھی کی اور آم کی پیٹیاں بھی واپس کیں ۔ نوابزادہ صاحب کے باغوں میں آموں کی فصل بارآور ہو یا موسم کی کسی سختی سے برباد ہو گئی ہو یہ ان کی وضعداری رہی کہ وہ پرانی فہرست کو جھاڑ پھونک کر ہر سال نکالتے اور اسے اپنے کسی منشی کے حوالے کر دیتے ۔ وہ آم نواب صاحب کے اپنے باغ کے ہوں یا ملتان کی منڈی کے نواب صاحب کے دوستوں کے گھر میں پہنچ جاتے۔
نواب صاحب کے آموں کی پہلی پیٹی جب کسی اخبار نویس کے پاس پہنچتی تو دوسرے دن خبر چھپ جاتی کہ آموں کی پیٹیاں بٹنی شروع ہو گئی ہیں۔ نواب صاحب کے سیاسی اتحادوں کی طرح ان کے آموں کے سالانہ تحفے بھی مشہور رہے۔ افسوس کہ مرزا اسد اللہ خان غالبؔ ایک شاعر نواب صاحب کے تحفے سے محروم رہے۔ مرزا کے دو ہی شوق تھے شراب اور آم۔ مرحوم صادقین نے ایک بار اپنے قیام دہلی میں شراب کی کئی اقسام جمع کیں انھیں ایک بالٹی میں ڈال کر ملا دیا اور اس سے مرزا کے مزار کو غسل دیا۔ اگر دلی دور نہ ہوتی تو نواب صاحب مرزا کے مزار کو انواع و اقسام کے آموں سے ڈھانپ دیتے۔
میرے لیے آم کے موسم کا آغاز نواب صاحب کے آموں سے ہوتا تھا۔ ذائقہ بگڑ چکا ہے، بازار میں آموں کے ڈھیر لگ رہے ہیں مگر ان میں وہ لذت کہا ں جو نواب صاحب کے آموں میں ہوتی تھی۔ یہ آم کسی کیمیاوی مادے کی دھونی سے نہیں پکائے جاتے تھے بلکہ محبت اور پیار کی آنچ میں پکے ہوتے تھے، اسی لیے ان کی لذت اور ذائقہ ہی الگ ہوتا تھا۔ پہلے یوں ہوتا تھا کہ آم گھر میں بھی پہنچتے تھے اور ''شام غریباں'' کی مجلس میں جاتے تھے تو وہاں بھی ملا کرتے تھے۔ نواب صاحب کے جانے کے بعد سے آموں میں وہ لذت نہیں رہی۔ ملتان سے جہانگیر خان، سندھ ٹنڈو آدم سے ملک عارف جیسے مہربان اور دوسرے دوست بھی میٹھے آم بجھواتے ہیں اور بہت بجھواتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود مزید بہت میٹھے آموں کے طالب ''غالبؔ'' کی نظریں اہل ملتان و نواح ملتا ن پر لگی ہوئی ہیں۔
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے