ضلع ملیر این اے 238 کا حلقہ ’’ مسائل کا گڑھ‘‘ کہلاتا ہے

حلقے میں پیپلز پارٹی ،اے این پی ،ن لیگ کی سیاسی پوزیشن بہتر ہے،این اے 238کو’’قومیتوں کا گلدستہ‘‘ والاحلقہ بھی کہتے ہیں


عامر خان July 08, 2018
ایم کیو ایم پاکستان، ایم ایم اے اور پی ٹی آئی بھی ’’سیاسی دھماکا ‘‘ کر سکتی ہیں، مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی اہمیت کا حامل ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 238ملیر 3 گنجان آباد والا حلقہ ہے جب کہ اس حلقے میں مختلف مذاہب ،مسالک ،قومیتوں اور برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں۔

این اے 238ملیر کو'' قومیتوںکے گلدستے ''والاحلقہ بھی کہا جاتا ہے ،اس حلقے میں کراچی کیٹل کالونی بھی واقع ہے،اس کالونی میں سیکڑوں کی تعداد میں بھینسوں کے باڑے ہیں،یہ کالونی کراچی کے عوام کو دودھ فراہم کرنے کا سب سے بڑا مرکز ہے، اس حلقے میں مختلف مصنوعات تیار کرنے والی اہم ملز بھی واقع ہیں۔

اس حلقے کے ابراہیم حیدری سب ڈویژن میں رہائش پذیر اکثر خاندانوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری بھی ہے ،اس حلقے کے لوگ مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں جن میں جانوروں کی خرید فروخت ،دودھ کی سپلائی ،ٹرانسپورٹ،مزدوری اور دیگر شامل ہیں ،اس حلقے کی اکثر علاقوں میں رہائش پذیر خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں ،اس حلقے کے عوام تعلیم ،صحت ،انفراسٹرکچر اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔این اے 238 کا حلقہ ''مسائلستان کا گڑھ '' کہلاتا ہے ۔

نئی حلقہ بندی کے مطابق این اے 238ملیر 3 میں سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس 89،پی ایس 90 اور پی ایس 91شامل ہیں ۔این اے 238 کی حلقہ بندی سابقہ قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 257 اور این اے 258 کے مختلف علاقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے ۔

این اے 238 سے 20، پی ایس 89 سے 22،پی ایس 90 سے18اور پی ایس 91سے 21 مختلف جماعتوں اور آزاد امیدوار انتخابی عمل میں حصہ لے رہے ہیں ۔این اے 238میں پیپلز پارٹی کے سید رفیع اللہ ،ایم کیوایم پاکستان کے گلفراز خان خٹک ،مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر وامیدوار سید شاہ محمدشاہ ،عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر وامیدوار شاہی سید ،تحریک انصاف کے زنیرا رحمن ،ایم ایم اے کے محمد اسلام ،راہ حق پارٹی کے مولانا اورنگزیب فاروقی اور دیگر شامل ہیں ۔

اس حلقے میں پیپلز پارٹی ،اے این پی ،راہ حق پارٹی ،مسلم لیگ (ن) کی سیاسی پوزیشن بہتر ہے تاہم ایم کیوایم پاکستان ،ایم ایم اے اور پی ٹی آئی بھی انتخابی معرکہ کوئی''سیاسی دھماکہ ''کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔سیاسی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو این اے 238 کے حلقے میں شاہی سید،سید شاہ محمد شاہ ،مولانا اورنگزیب فاروقی،سید رفیع اللہ میں مقابلے کا امکان ہے ۔

تاہم یہ صورتحال اب تک واضح نہیں ہے کہ اس حلقے میں کس امیدوار کی پوزیشن بہت مضبوط ہے ۔اس حلقے کے سیاسی ،مذہبی اور آزاد امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے میں بھی مشکلات ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی مہم کا ضابطہ اخلاق کافی سخت ہے ۔حلقے میں انتخابات کی روایتی رونق نظر نہیں آرہی ہے ۔این اے 238 کے امیدواروں نے انتخابی مہم چلانے کیلیے حجرہ ،مہمان خانہ اورڈیرے کا استعمال کررہے ہیں ۔

امیدوار گلی اورمحلوں حجرہ ،مہمان خانہ اورڈیروں میں جاکر علاقائی عمائدین ، اہم سیاسی ،سماجی اور مذہبی شخصیات سے ووٹ کے حصول کیلیے درخواست کررہے ہیں۔این اے238 کے پختون علاقوں میں خواتین کے ووٹ کاحصول مشکل مرحلہ ہے جس کیلیے اے این پی ،ایم ایم اے،راہ حق پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی خواتین کارکنان گھر گھر جاکر اپنے اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم کیلیے خواتین ووٹرز سے رابطے کررہی ہیں۔

پی ایس 89 کا حلقہ میں مختلف قومیتیں آباد ہیں ۔اس حلقے میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی اہمیت کا حامل ہے ۔پی ایس 89پر پیپلزپارٹی،ایم ایم اے ،اے این پی،راہ حق پارٹی،ایم کیوایم پاکستان اور دیگر جماعتوں میں مقابلے کا امکان ہے۔پی ایس 90 میں بھی پیپلز پارٹی،مسلم لیگ (ن) ،ایم کیوایم پاکستان ،ایم ایم اے اور دیگر جماعتوں میں مقابلے کا امکان ہے ۔پی ایس 91 میں پیپلز پارٹی ،اے این پی ،ایم کیوایم پاکستان،ایم ایم اے ،مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں میں مقابلے کا امکان ہے ۔

اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے رہنماء حاجی مظفر شجرہ پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ''آزاد امیدوار ''کے طور پر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں ۔اس حلقے میں پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت کے ڈویژن سطح کے رہنماؤں سے اختلافات ہیں جس کی وجہ سے پی پی کے امیدوار کو انتخابی مہم میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔حاجی مظفر شجرہ اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے رہنماء ہیں ۔

این اے238 کے سابقہ حلقوں کے گذشتہ نتائج کے مطابق جائزہ لیا جائے تو این اے 257سے 2002،2008اور 2013 کے عام انتخابات میں بالترتیب ایم کیوایم کے محمد شمیم صدیقی ،ساجد احمد اور پھر ساجد احمد ہی کامیاب ہوئے تھے ۔این اے 258میں 2002 اور 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے شیر محمد بلوچ اور 2013 کے انتخابات مسلم لیگ (ن) کے عبدالحکیم بلوچ کامیاب ہوئے تھے جو بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر اس نشست سے مستعفیٰ ہوگئے ۔

بعدازاں اس حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر عبدالحکیم بلوچ کامیاب ہوکر دوبارہ ایم این اے بن گئے ۔سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں ،ایم کیوایم کی تقسیم اور موجودہ سیاسی صورتحال کے سبب کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے238 اور سندھ اسمبلی کے حلقوں پی ایس 89، پی ایس 90 اور پی ایس 91 کے نتائج ''حیران کن اور دلچسپ ''ہوسکتے ہیں۔





 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں