سپریم کورٹ پی آئی اے میں2سابق فوجی افسروں کی بھرتی کا نوٹس لے ٹرانسپیرنسی
بریگیڈیئر (ر) اسحاق ڈائریکٹر سیکیورٹی، کرنل (ر) مظہر جنرل منیجر ویجیلنس کے عہدے پر کام کر رہے ہیں
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چوہدری کو خط لکھا ہے کہ چیئرمین پی آئی اے، سیکریٹری وزارت دفاع نے 2 اپریل 2013ء سے دو ریٹائرڈ آرمی افسران کو پی آئی اے میں تعینات کیا ہے جو کہ عدالتی احکام کیخلاف ہے۔
بریگیڈئیر ریٹائرڈ اسحاق احمد ڈائریکٹر سیکیورٹی اینڈ ویجیلنس اور کرنل ریٹائرڈ مظہر اقبال جنرل مینجر ویجیلنس کے عہدے پر کام کر رہے ہیںجبکہ یہ تعیناتیاں قواعد و ضوابط کیخلاف ہیں، بھرتی اوپن میرٹ پر ہونی چاہیے، ہر آسامی کے لیے تین بہترین افراد کا انتخاب کیا جائے گا اور ان کے نام اسٹیبلشنمنٹ ڈویژن کو بھیجے جائیں گے اور اگر ریٹائرڈ فوجی افسران بھی درخواست دہندہ ہوں اور انکو ریٹائر ہوئے 5 سال سے کم عرصہ ہوا ہو تو انکے کیسز کو اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے ذریعے جی ایچ کیو سے این او سی لینے کیلئے وزارت دفاع کو بھجوایا جائیگا، جی ایچ کیو میں این او سی دینے یا نہ دینے کے حوالے سے مروجہ طریقہ کار ہے۔
ادھر 14 دسمبر 2012ء کو سپریم کورٹ نے پی آئی اے میں بھرتیوں پر پابندی عائد کی تھی اور ائیرلائن کی مینجمنٹ سے گزشتہ عرصہ میں ہونیوالی بھرتیوں کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔ پی آئی اے کی طرف سے نہ صرف سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ انہی آسامیوں پر اپریل کے وسط میں بھرتی کیلئے پی آئی اے کی ویب سائٹ پر اشتہار بھی دیا گیا تھا۔ شکایت کنندہ نے پی آئی اے کو بتایا ہے کہ پی آئی اے 2001ء سے ٹی ایس اے ضروریات کے مطابق ہے اور اپریل 2013ء میں نئی آسامیاں پیدا کرنے کا جواز نہیں۔
ٹرانسپورٹ سکیورٹی ایڈمنسٹریشن(ٹی ایس اے) امریکہ نے 2001ء میں ٹرانسپورٹیشن سسٹم کی بہتری کیلئے بنائی۔ شکایت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھرتی کیلئے تجربہ بھی ٹھیک نہیں اور یہ دونوں ریٹائرڈ فوجی حضرات کے تجربہ کے مطابق دیا گیا ہے اور دونوں آسامیاں پرائیویٹ سیکٹر کے ماہرین کیلئے اوپن نہیں ہیں جو کہ قواعد و ضوابط اور اوپن میرٹ کی خلاف ورزی ہے۔
ڈائریکٹر کی آسامی کیلئے فوج میں بطور کیمشن افسر 20 سے 25 سال یا کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں انٹیلی جنس اور سکیورٹی کے حوالے سے 15 سے 20 سال کا تجربہ مانگا گیا۔ جنرل مینیجر کی آسامی کیلئے پاک فوج میں بطور کیمشنڈ افسر کم از کم 20 سال یا کسی اور ادارے میں سیکیورٹی اورانٹیلی جنس کے حوالے سے 15 سال کا تجربہ ہونا ضروری ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی آئی اے نہ صرف عدالت کے 14 دسمبر 2012ء کے احکام کی خلاف ورزی کر رہا ہے بلکہ قواعد و ضوابط کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اور غیرقانونی بھرتیوں کو جواز دینے کیلیے طریقہ کار کو بھی توڑا مروڑا گیا۔
بریگیڈئیر ریٹائرڈ اسحاق احمد ڈائریکٹر سیکیورٹی اینڈ ویجیلنس اور کرنل ریٹائرڈ مظہر اقبال جنرل مینجر ویجیلنس کے عہدے پر کام کر رہے ہیںجبکہ یہ تعیناتیاں قواعد و ضوابط کیخلاف ہیں، بھرتی اوپن میرٹ پر ہونی چاہیے، ہر آسامی کے لیے تین بہترین افراد کا انتخاب کیا جائے گا اور ان کے نام اسٹیبلشنمنٹ ڈویژن کو بھیجے جائیں گے اور اگر ریٹائرڈ فوجی افسران بھی درخواست دہندہ ہوں اور انکو ریٹائر ہوئے 5 سال سے کم عرصہ ہوا ہو تو انکے کیسز کو اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے ذریعے جی ایچ کیو سے این او سی لینے کیلئے وزارت دفاع کو بھجوایا جائیگا، جی ایچ کیو میں این او سی دینے یا نہ دینے کے حوالے سے مروجہ طریقہ کار ہے۔
ادھر 14 دسمبر 2012ء کو سپریم کورٹ نے پی آئی اے میں بھرتیوں پر پابندی عائد کی تھی اور ائیرلائن کی مینجمنٹ سے گزشتہ عرصہ میں ہونیوالی بھرتیوں کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔ پی آئی اے کی طرف سے نہ صرف سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ انہی آسامیوں پر اپریل کے وسط میں بھرتی کیلئے پی آئی اے کی ویب سائٹ پر اشتہار بھی دیا گیا تھا۔ شکایت کنندہ نے پی آئی اے کو بتایا ہے کہ پی آئی اے 2001ء سے ٹی ایس اے ضروریات کے مطابق ہے اور اپریل 2013ء میں نئی آسامیاں پیدا کرنے کا جواز نہیں۔
ٹرانسپورٹ سکیورٹی ایڈمنسٹریشن(ٹی ایس اے) امریکہ نے 2001ء میں ٹرانسپورٹیشن سسٹم کی بہتری کیلئے بنائی۔ شکایت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھرتی کیلئے تجربہ بھی ٹھیک نہیں اور یہ دونوں ریٹائرڈ فوجی حضرات کے تجربہ کے مطابق دیا گیا ہے اور دونوں آسامیاں پرائیویٹ سیکٹر کے ماہرین کیلئے اوپن نہیں ہیں جو کہ قواعد و ضوابط اور اوپن میرٹ کی خلاف ورزی ہے۔
ڈائریکٹر کی آسامی کیلئے فوج میں بطور کیمشن افسر 20 سے 25 سال یا کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں انٹیلی جنس اور سکیورٹی کے حوالے سے 15 سے 20 سال کا تجربہ مانگا گیا۔ جنرل مینیجر کی آسامی کیلئے پاک فوج میں بطور کیمشنڈ افسر کم از کم 20 سال یا کسی اور ادارے میں سیکیورٹی اورانٹیلی جنس کے حوالے سے 15 سال کا تجربہ ہونا ضروری ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی آئی اے نہ صرف عدالت کے 14 دسمبر 2012ء کے احکام کی خلاف ورزی کر رہا ہے بلکہ قواعد و ضوابط کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اور غیرقانونی بھرتیوں کو جواز دینے کیلیے طریقہ کار کو بھی توڑا مروڑا گیا۔