پاکستان ہارٹی کلچر ویژن 18 جولائی کو پیش کرنے کا اعلان

پھل سبزیوںکے شعبے کی ترقی کاروڈمیپ الیکشن سے قبل پیش کرنے کامقصدنئی حکومت کیلیے پالیسی سازی میں مددہے،وحیداحمد

ہارٹی کلچرویژن2030کی تعارفی تقریب،اسٹیٹ بینک کمیٹی میں پیش کرنے کی دعوت، وزیرزراعت ودیگر نے زرعی مسائل کواجاگرگیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ہارٹی کلچر سیکٹر کی ترقی کا روڈ میپ ''پاکستان ہارٹی کلچر ویژن 2030'' کراچی میں 18 جولائی کوپیش کیا جائے گا۔

ہارٹی کلچر سیکٹر کو درپیش چیلنجز کا حل فراہم کرتے ہوئے ملک میں پھل اور سبزیوں کی پیداوار میں اضافہ، معیار کی بہتری اور برآمدات میں اضافے جیسے اہداف کو حاصل کرنے کیلیے نجی شعبے کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ جامع تحقیق اور ملک بھر میں اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کردہ روڈمیپ عام انتخابات کے نتیجے میں آنے والی وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو ہارٹی کلچر سیکٹر کی ترقی کے لیے پالیسیوں کی تشکیل میں معاون ثابت ہوگا۔

ہارٹی کلچر ویژن 2030کی تعارفی تقریب گزشتہ روز فیڈریشن ہاؤس کراچی میں منعقد ہوئی۔ سندھ کے نگراں وزیر زراعت خیر محمد جونیجو تقریب کے مہمان خصوصی تھے، بزنس کمیونٹی کی ممتاز شخصیات خالد تواب، عبدالحسیب خان، مرزا اختیار بیگ، شکیل ڈھینگڑہ ، پی ایف وی اے کے چیئرمین اسلم پکھالی، ایف پی سی سی آئی کی نائب صدور شبنم ظفر، سعیدہ بانو، اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ثمر حسنین، بین الاقوامی زرعی تحقیقی ادارے CABIکے ڈائریکٹر ڈاکٹر بابر ای باجوہ سمیت ہارٹی کلچر انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی بڑی تعداد نے تقریب میں شرکت کی اور ایک ساتھ ربن کاٹ کر پاکستان ہارٹی کلچر ویژن 2030کا علامتی افتتاح کیا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی نگراں وزیر زراعت خیر محمد جونیجو نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں اہمیت کے حامل زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی، پانی کی قلت، جدید سہولتوں اور مارکیٹنگ کا فقدان پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ نچلی سطح پر آچکا ہے، سندھ میں کپاس کی کاشت کا موسم ہے، نہروں میں جو پانی موجود ہے 10سے 15دنوں میں ختم ہوجائے گا جس کے بعد کپاس کی پیداوار بھی متاثر ہوگی۔

انہوں نے ایکسپورٹرز اور بڑے سرمایہ داروں پر زور دیا کہ کاشت کاروں کے ساتھ اشتراک عمل کو مضبوط بنائیں، جب تک کاشت کاروں کو ان کی محنت کی اچھی قیمت نہیں ملے گی زراعت کا شعبہ پائیدار بنیادوں پر ترقی نہیں کرے گا، زرعی پیداوار بالخصوص پھل اور سبزیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کولڈ اسٹوریج بنانے کی ضرورت ہے، بہتر مارکیٹنگ نہ ہونے اور فروٹ فلائی کی وجہ سے پاکستان سے آم کی ایکسپورٹ پر لگنے والی پابندی کی وجہ سے ملک میں آم کے باغات لگنا بند ہوگئے تھے تاہم موثر مارکیٹنگ کے بعد ایکسپورٹ بڑھتی دیکھ کر کاشت کار دوبارہ آم کے باغات لگارہے ہیں۔

انہوں نے پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے ڈرپ اری گیشن کے طریقے کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ نگراں وزیر زراعت نے ہارٹی کلچر سیکٹر کی ترقی کے لیے روڈ میپ تیار کرنے پر ایف پی سی سی آئی اور پی ایف وی اے کی کاوشوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔

اس موقع پر ہارٹی کلچر ویژن 2030 کا خاکہ بیان کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر وحید احمد نے بتایا کہ ملک سے پھل اور سبزیوں کی ایکسپورٹ میں کمی اور بڑھتی ہوئی درآمدات فوڈ سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن رہی ہیں جس سے ملک کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے کو پانی کی قلت، موسمی تبدیلی، تحقیق وترقی کے فقدان اور جدید طور طریقوں سے ناواقفیت جیسے مسائل کا سامنا ہے، ہارٹی کلچر ویژن 2030کا مقصد ان مسائل کا حل فراہم کرتے ہوئے پیداوار بڑھا کر برآمدات میں اضافہ کرنا ہے جس سے معیشت کے دیگر تمام شعبوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔


انہوں نے بتایا کہ روڈ میپ کی تشکیل کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ فارمرز ،ٹریڈرز، ٹرانسپورٹرز، زرعی تحقیقی اداروں، شپنگ کمپنیوں او رکلیئرنگ ایجنٹس تک سپلائی چین میں شامل تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ 7 ماہ تک مشاورت کی گئی، پہلی مرتبہ بلوچستان جاکر وہاں کے کاشت کاروں اور تاجروں کی مشکلات دریافت کی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ روڈ میپ کی تیاری میں ملکی و غیرملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جنہوں نے قلیل، وسط اور طویل مدتی اقدامات تجویز کیے ہیں جو 18جولائی کو ہارٹی کلچر ویژن 2030کی شکل میں پیش کیے جائیں گے، عام انتخابات سے قبل سامنے لانے کا مقصد انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کی توجہ ہارٹی کلچر سیکٹر کی جانب مبذول کرانا ہے، دوسری جانب ویژن کی شکل میں مرتب کردہ تجاویز آنے والی حکومتوں کو بھی پالیسیوں کی تشکیل میں معاون ہوں گی۔

تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ پاکستانی معیشت میں زراعت کا حصہ 40فیصد سے کم ہوکر 20فیصدرہ گیاجبکہ خدمات کا شعبہ 60فیصد شیئر رکھتا ہے، زرعی شعبے کا حجم کم ہونا تشویشناک امر ہے جس کی وجوہ کا جائزہ لیتے ہوئے زرعی ترقی کی تجاویز پاکستان ہارٹی کلچر ویژن 2030 کے ذریعے مرتب کی گئی ہیں، ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے ہارٹی کلچر سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ دلانے کی کوششیں کی جائیں گی۔ انہوں نے ہارٹی کلچر ویژن 2030 کو قابل عمل منصوبہ قرار دیا۔

ڈاکٹر بابر ای باجوہ نے کہا کہ پاکستان میں زراعت کو نظام کے طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے، پانی کی قلت، موسمی تبدیلی، ہنرمند افرادی قوت اور فی ایکڑ پیداوار پاکستان کے زرعی شعبے کے چیلنجز ہیں، پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ زرعی شعبہ اور دیہی آبادی کو ترقی دی جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ہارٹی کلچر ویژن 2030 کے ذریعے زراعت اور ہارٹی کلچر سیکٹر کو درپیش چیلنجز کا جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حل فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ ہارٹی کلچر سیکٹر کی ترقی کے لیے ویژن کی روشنی میں پالیسی تشکیل دی جائے۔

اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ثمر حسنین نے ہارٹی کلچر ویژن 2030 مرتب کرنے پر ایف پی سی سی آئی کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ اپنے بنیادی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ زراعت کی بہتری اسٹیٹ بینک کی اولین ترجیح ہے ، پائیدار ترقی کے لیے زراعت، ایس ایم ایز اور ہاؤسنگ سیکٹر کی ترقی ناگزیر ہے، رواں مالی سال زرعی شعبے کو 1ہزار ارب روپے کے قرضے جاری کیے جائیں گے تاہم ہارٹی کلچر سیکٹر 3فیصد ہے، زرعی قرضوں کو جغرافیائی لحاظ سے متوازن بنانے کی ضرورت ہے جس کیلیے ہارٹی کلچر سیکٹر اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

انہوں نے اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ کولڈ اسٹوریج کے قیام، ایس ایم ایز اور دیہی انٹرپرائزز کیلیے رعایتی قرضوں کی اسکیموں سے فائدہ اٹھائیں۔ انہوں نے وحید احمدکے ویژن کو سراہتے ہوئے انہیں ایگری کلچر کریڈٹ ایڈوائزری کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پاکستان ہارٹی کلچر ویژن 2030کے بارے میں بریفنگ دینے کی بھی دعوت دی جس کی صدارت گورنر اسٹیٹ بینک کریں گے۔

فیڈریشن کے سابق نائب صدر شیخ خالد تواب نے کہا کہ پاکستان کی 90فیصد صنعتیں زراعت پر مبنی ہیں اس لیے زرعی شعبے کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے مگرزرعی انفرااسٹرکچر تباہ حال ہے، سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے پیداوار کا بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے، مہنگی بجلی کولڈ اسٹوریج کے قیام میںرکاوٹ ہے، کپاس کے علاقوں میں شوگرملز کے قیام سے زرعی شعبے کو نقصان پہنچا، جب تک فارمرز کی حالت نہیں بدلے گی زرعی شعبہ ترقی نہیں کرے گا، اس لیے کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جائے۔

 
Load Next Story