ہم نوے فیصد ہیں
ریاست صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہے، اس لیے انتخابات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
2011 میں نیویارک سے ابھرنے والی وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کا نعرہ تھا کہ ''we are 99 percent'' ہم ننانوے فیصد ہیں۔ وال اسٹریٹ عالمی سامراج کی معاشی سرگرمیوں کا جوئے کا اڈہ ہے۔ یہ تحریک شروع تو انارکسٹ مزدوروں نے کی تھی مگر بعد ازاں اس تحریک میں دنیا بھر کے سامراج مخالف، سرمایہ دار مخالف مزدور کارکنان، انقلابی اور انسان دوست قوتیں شریک ہوگئی تھیں۔
اس کی حمایت میں نیویارک سے نیوزی لینڈ تک دنیا کے 88 ملکوں کے 900 شہروں میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ مگر آج پاکستان میں ہمارا نعرہ ہونا چا ہیے کہ ''we are 90 percent'' ہم نوے فیصد ہیں۔ وہ اس لیے کہ اس کمر توڑ مہنگائی میں ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ کم از کم 30 ہزار روپے ہونی چاہیے۔ مگر حکومت نے 15 ہزار روپے کا اعلان کیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نوے فیصد مزدوروں اور کسانوں کو 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے ساتھ نہیں ملتی ہے۔
یہ استحصال کا بدترین نمونہ ہے۔ صرف سرکاری ملازمین جو کل مزدور، کسان اور کھیت مزدور میں بمشکل 6 فیصد ہیں، کو ملتا ہے۔ باقی نوے فیصد سے زیادہ مزدوروں کو 6 ہزارروپے تا 12 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ملتا ہے۔ جن میں سب سے زیادہ استحصال ہونے والوں کی تعداد گارمنٹ، ہوزری، ٹیلر اور دھاگا بنانے والے مزدوروں کی ہے۔ اب بھی ہماری کل صنعتی پیداوار کا40 فیصد ٹیکسٹائل کا ہے۔ ان مزدوروں میں تقریباً 50 فیصد مزدور ٹھیکیداری نظام کے ماتحت غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں۔
اس ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کو صنعتی مزدور طنزیہ ''خرکاروں کا کیمپ'' کہتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ یہ مزدور ساری قانونی اور اخلاقی سہولتوں، حقوق اور مراعات سے محروم ہیں۔ یہ بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ٹیکسٹائل، ہوزری، گارمنٹ اور دھاگا بنانے والی ملوں میں 8 گھنٹے کام کا تصور ہی نہیں ہے،یہاں 10 سے 12 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، ورنہ کان پکڑ کر دوسرے دن نکال دیے جاتے ہیں۔
اگر کوئی مزدور اپنے قانونی اور آئینی حقوق کے لیے ذرا سا ٹس مس کرتا ہے تو اسے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ اس کے بعد شیشہ بنانے والے، صابن بنانے والے، دیگر کاسمیٹک بنانے والے، جوتے بنانے والے، پلاسٹک فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کا بھی یہی حشر ہے۔ انھیں بھی 8 سے 10 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔ پاور لومز، پٹرول پمپس پر کام کرنے والے، سیکیورٹی گارڈز، چوڑی بنانے والے، ٹائلز بنانے والے، سرامک اور اسٹیل ملوں میں کام کرنے والے، سڑک بنانے والے اور تعمیراتی مزدور ان سب کے ساتھ مالکان غلاموں جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔
بلوچستان اور کے پی کے میں کوئلہ، سونا، تانبا، اونیکس اور دیگر قیمتی پتھروں کے کان کنان تو دور قدیم کے غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں۔ اکثر زمین دھنس جانے سے کان کے اندر ہی مزدور دب جاتے ہیں۔ ان کے کام کی جگہ پر ان کا کوئی تحفظ کا نظام ہی نہیں ہے۔ سارا سارا دن ہزاروں فٹ زمین دوز کانوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال پنجاب کے بھٹہ مزدوروں کی ہے۔ یہ قطعی غلاموں کی طرح کام کرنے پر مجبور ہیں۔
دنیا میں تین بڑے شپ یارڈ ہیں۔ ایک انڈیا، دوسرا بنگلہ دیش اور تیسرا پاکستان۔ گڈانی شپ یارڈ کراچی میں شپ بریکنگ ہوتی ہے، یہاں بھی مزدوروں کے تحفظات کاکوئی انتظام نہیں ہے۔ آئل اور کیمیائی مادوں کی صفائی کیے بغیر مزدوروں کو کام پہ جوت دیا جاتا ہے۔نتیجتاً آگ لگنے سے اکثر مزدور جھلس کر جان سے جاتے رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور انڈیا کی صورتحال، پاکستان سے بہتر ہے۔ پھر شہروں میں شاپ، گوداموں میں کام کرنے والے مزدور، ڈاکٹروں اوروکیلوں کے پاس کام کرنے والے منشیوں اور اس طرح کے لاکھوں مزدور دس بارہ گھنٹے کام کرتے ہیںاور انھیں چھ سے دس ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔
فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ویٹرز کی تنخواہیں سات آٹھ ہزار روپے ہیں، جب کہ ان کے سپر وائزرز کی تنخواہیں پندرہ ہزار روپے سے زیادہ نہیں۔بڑی اور مشہور فاسٹ فوڈ چینز کے ملازمین کی تنخواہیں بھی آٹھ سے دس ہزار روپے ہیںاور انھیں کھانے کے لیے اپنی ہی پروڈکٹ کا ایک ٹکڑا بھی نصیب نہیں۔
کھیت مزدوروں اور کسانوں کی تو اور ہی بدترین صورتحال ہے۔ کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کی روز کی دیہاڑی تین سے چار سو روپے ہوتی ہے اور کام بھی صبح سے شام تک کرنے ہوتے ہیں۔ جاگیردار انھیں دن کا کھانا کھلا کر احسان کرتا ہے۔ سندھ میں تو زیادہ تر ہاری دلت، کولہی، بھیل اور میگھواڑ ہوتے ہیں، جنھیں مزدوری کا معاوضہ تو انتہائی کم ملتا ہی ہے اور انھیں قرض دے کر دگنا کام لیا جاتا ہے اور پیسے واپس کرنے میں دیر کرنے پر نجی جیلوں میں قید کرکے تشدد کیا جاتا ہے اور صرف ایک وقت کی روٹی دی جاتی ہے۔
جب کوئی بمشکل عدالت پہنچتا ہے تو انھیں رہائی تو کبھی کبھی مل جاتی ہے لیکن قید کرنے والے وڈیرے کو سزا نہیں ہوتی۔ تھرپارکر اور چولستان کے کسان تو پانی کی قلت کی وجہ سے بھوک اور عدم علاج سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ شہروں میں پٹرول پمپس پر کام کرنے والے مزدوروں کو چوبیس گھنٹے کام کرنے پر کہیں پندرہ ہزار اور کہیں آٹھ ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ اسی طرح سیکیورٹی گارڈز کو صرف چھ سے دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہیں ملتی ہیں، جب کہ ٹھیکے دار فی گارڈ کمپنی سے پندرہ بیس ہزار روپے وصول کرتا ہے۔
مچھیروں اور جنگلات میں کام کرنے والے مزدوروں کو بمشکل روز کی تین چار سو روپے کی دیہاڑی ملتی ہے۔ ساری رقم کشتی کے مالکان اور ٹھیکیدار لے جاتا ہے۔ اگر کوئی ماہی گیر وڈیرے کے بجائے الگ سے کہیں مچھلی فروخت کرتا ہے تو اسے مچھلی پکڑنے کی مزدوری سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ لاکھوں بچے جو پڑھنے کے بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان سب زیادتیوں کا ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟
ریاست صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہے، اس لیے انتخابات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ایک مزدور جس کی تنخواہ آٹھ ہزار روپے ہے، کہاں سے انتخابات لڑ سکتا ہے۔ اس لیے جب ریاست، جائیداد، ملکیت، میڈیا، فوج، عدالتیں، عقیدے، سرحدیں، ختم ہوجائیں گی، تب لوگ جینے لگیں گے۔ یہی امداد باہمی کا آزاد سماج ہوگا، جسے آپ کمیونزم یا پنچایتی نظام کہہ سکتے ہیں۔
اس کی حمایت میں نیویارک سے نیوزی لینڈ تک دنیا کے 88 ملکوں کے 900 شہروں میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ مگر آج پاکستان میں ہمارا نعرہ ہونا چا ہیے کہ ''we are 90 percent'' ہم نوے فیصد ہیں۔ وہ اس لیے کہ اس کمر توڑ مہنگائی میں ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ کم از کم 30 ہزار روپے ہونی چاہیے۔ مگر حکومت نے 15 ہزار روپے کا اعلان کیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نوے فیصد مزدوروں اور کسانوں کو 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے ساتھ نہیں ملتی ہے۔
یہ استحصال کا بدترین نمونہ ہے۔ صرف سرکاری ملازمین جو کل مزدور، کسان اور کھیت مزدور میں بمشکل 6 فیصد ہیں، کو ملتا ہے۔ باقی نوے فیصد سے زیادہ مزدوروں کو 6 ہزارروپے تا 12 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ملتا ہے۔ جن میں سب سے زیادہ استحصال ہونے والوں کی تعداد گارمنٹ، ہوزری، ٹیلر اور دھاگا بنانے والے مزدوروں کی ہے۔ اب بھی ہماری کل صنعتی پیداوار کا40 فیصد ٹیکسٹائل کا ہے۔ ان مزدوروں میں تقریباً 50 فیصد مزدور ٹھیکیداری نظام کے ماتحت غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں۔
اس ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کو صنعتی مزدور طنزیہ ''خرکاروں کا کیمپ'' کہتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ یہ مزدور ساری قانونی اور اخلاقی سہولتوں، حقوق اور مراعات سے محروم ہیں۔ یہ بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ٹیکسٹائل، ہوزری، گارمنٹ اور دھاگا بنانے والی ملوں میں 8 گھنٹے کام کا تصور ہی نہیں ہے،یہاں 10 سے 12 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، ورنہ کان پکڑ کر دوسرے دن نکال دیے جاتے ہیں۔
اگر کوئی مزدور اپنے قانونی اور آئینی حقوق کے لیے ذرا سا ٹس مس کرتا ہے تو اسے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ اس کے بعد شیشہ بنانے والے، صابن بنانے والے، دیگر کاسمیٹک بنانے والے، جوتے بنانے والے، پلاسٹک فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کا بھی یہی حشر ہے۔ انھیں بھی 8 سے 10 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔ پاور لومز، پٹرول پمپس پر کام کرنے والے، سیکیورٹی گارڈز، چوڑی بنانے والے، ٹائلز بنانے والے، سرامک اور اسٹیل ملوں میں کام کرنے والے، سڑک بنانے والے اور تعمیراتی مزدور ان سب کے ساتھ مالکان غلاموں جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔
بلوچستان اور کے پی کے میں کوئلہ، سونا، تانبا، اونیکس اور دیگر قیمتی پتھروں کے کان کنان تو دور قدیم کے غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں۔ اکثر زمین دھنس جانے سے کان کے اندر ہی مزدور دب جاتے ہیں۔ ان کے کام کی جگہ پر ان کا کوئی تحفظ کا نظام ہی نہیں ہے۔ سارا سارا دن ہزاروں فٹ زمین دوز کانوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال پنجاب کے بھٹہ مزدوروں کی ہے۔ یہ قطعی غلاموں کی طرح کام کرنے پر مجبور ہیں۔
دنیا میں تین بڑے شپ یارڈ ہیں۔ ایک انڈیا، دوسرا بنگلہ دیش اور تیسرا پاکستان۔ گڈانی شپ یارڈ کراچی میں شپ بریکنگ ہوتی ہے، یہاں بھی مزدوروں کے تحفظات کاکوئی انتظام نہیں ہے۔ آئل اور کیمیائی مادوں کی صفائی کیے بغیر مزدوروں کو کام پہ جوت دیا جاتا ہے۔نتیجتاً آگ لگنے سے اکثر مزدور جھلس کر جان سے جاتے رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور انڈیا کی صورتحال، پاکستان سے بہتر ہے۔ پھر شہروں میں شاپ، گوداموں میں کام کرنے والے مزدور، ڈاکٹروں اوروکیلوں کے پاس کام کرنے والے منشیوں اور اس طرح کے لاکھوں مزدور دس بارہ گھنٹے کام کرتے ہیںاور انھیں چھ سے دس ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں۔
فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ویٹرز کی تنخواہیں سات آٹھ ہزار روپے ہیں، جب کہ ان کے سپر وائزرز کی تنخواہیں پندرہ ہزار روپے سے زیادہ نہیں۔بڑی اور مشہور فاسٹ فوڈ چینز کے ملازمین کی تنخواہیں بھی آٹھ سے دس ہزار روپے ہیںاور انھیں کھانے کے لیے اپنی ہی پروڈکٹ کا ایک ٹکڑا بھی نصیب نہیں۔
کھیت مزدوروں اور کسانوں کی تو اور ہی بدترین صورتحال ہے۔ کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کی روز کی دیہاڑی تین سے چار سو روپے ہوتی ہے اور کام بھی صبح سے شام تک کرنے ہوتے ہیں۔ جاگیردار انھیں دن کا کھانا کھلا کر احسان کرتا ہے۔ سندھ میں تو زیادہ تر ہاری دلت، کولہی، بھیل اور میگھواڑ ہوتے ہیں، جنھیں مزدوری کا معاوضہ تو انتہائی کم ملتا ہی ہے اور انھیں قرض دے کر دگنا کام لیا جاتا ہے اور پیسے واپس کرنے میں دیر کرنے پر نجی جیلوں میں قید کرکے تشدد کیا جاتا ہے اور صرف ایک وقت کی روٹی دی جاتی ہے۔
جب کوئی بمشکل عدالت پہنچتا ہے تو انھیں رہائی تو کبھی کبھی مل جاتی ہے لیکن قید کرنے والے وڈیرے کو سزا نہیں ہوتی۔ تھرپارکر اور چولستان کے کسان تو پانی کی قلت کی وجہ سے بھوک اور عدم علاج سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ شہروں میں پٹرول پمپس پر کام کرنے والے مزدوروں کو چوبیس گھنٹے کام کرنے پر کہیں پندرہ ہزار اور کہیں آٹھ ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ اسی طرح سیکیورٹی گارڈز کو صرف چھ سے دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہیں ملتی ہیں، جب کہ ٹھیکے دار فی گارڈ کمپنی سے پندرہ بیس ہزار روپے وصول کرتا ہے۔
مچھیروں اور جنگلات میں کام کرنے والے مزدوروں کو بمشکل روز کی تین چار سو روپے کی دیہاڑی ملتی ہے۔ ساری رقم کشتی کے مالکان اور ٹھیکیدار لے جاتا ہے۔ اگر کوئی ماہی گیر وڈیرے کے بجائے الگ سے کہیں مچھلی فروخت کرتا ہے تو اسے مچھلی پکڑنے کی مزدوری سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ لاکھوں بچے جو پڑھنے کے بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان سب زیادتیوں کا ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟
ریاست صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہے، اس لیے انتخابات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ایک مزدور جس کی تنخواہ آٹھ ہزار روپے ہے، کہاں سے انتخابات لڑ سکتا ہے۔ اس لیے جب ریاست، جائیداد، ملکیت، میڈیا، فوج، عدالتیں، عقیدے، سرحدیں، ختم ہوجائیں گی، تب لوگ جینے لگیں گے۔ یہی امداد باہمی کا آزاد سماج ہوگا، جسے آپ کمیونزم یا پنچایتی نظام کہہ سکتے ہیں۔