زندگی گیت ہے

برصغیر میں جن دنوں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی، فلمی دنیا بھی اپنے عروج پر تھی۔

برصغیر میں گیت، بھجن اور دوہے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ میرا بائی، کبیر داس، تلسی داس، سورداس، رحیم، رس خان، بہاری لال، بابا فرید اور حضرت امیر خسرو کا کلام صدیوں سے صوفیاء کے آستانوں اور مذہبی تہواروں پر گایا اور سنا جاتا رہا۔ ان دوہوں، گیتوں اور بھجنوں میں تصوف بھی موجود ہے اور عشق حقیقی کے ساتھ عشق مجازی کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔

بہت سارے روایتی گیتوں کی طرح میرا بائی کا بھجن ''گھونگٹ کا پٹ کھول رے توہے پیا ملیں گے'' گیتا دت نے آج سے لگ بھگ ستر سال قبل فلم ''جوگن'' کے لیے گایا تھا۔ اس بھجن کو گیت کے انداز میں نرگس نے اپنی اداکاری سے وہ تکریم بخشی کہ دیکھنے اور سننے والے الفاظ کے زیر و بم میں ڈوب گئے۔ ہم جس زمانے کی بات کریں گے اس میں برصغیر کی فلم انڈسٹری گیت کاری کی منازل طے کرتی ہوئے اس مقام تک پہنچ چکی تھی جہاں ایک سے ایک معروف شاعر اس کی آبیاری کے لیے موجود تھا۔

اس سے قبل فلمی موسیقی اپنی روایتی پختگی کے ساتھ تو موجود تھی مگر گیت کاری میں محض تک بندی سے ہی کام چلایا جارہا تھا، ہاں چند شاعر ایسے بھی تھے جو اپنے ہم عصر گیت کاروں کی نسبت بہتر گیت تحریر کر رہے تھے۔ 1913 میں ریلیز ہونے والی فلم ''راجا ہریش چندر'' میں چار گیت کاروں بھرت ویاس، رمیش گپتا، گلشن جلال آبادی اور قمر جلال آبادی نے گیت تحریر کیے، جس کے بعد 1932 میں ریلیز ہونے والی فلم ''پورن بھگت'' تک یہ سلسلہ جاری رہا، جس کا ایک ناقابل فراموش گیت ''جاؤ جاؤ رے میرے سادھو رہو گرو کے سنگ'' آج تک بہت سارے فلم بینوں کے ذہن میں محفوظ ہے۔

یاد رہے کہ یہ گیت معروف گائیک اور اداکار کے سی ڈے نے گایا تھا اور انھی پر فلمایا گیا تھا۔ کے سی ڈے اپنے عروج کے زمانے میں نابینا ہوگئے تھے اور وہ رشتے میں معروف گلوکار مناڈے کے چچا تھے۔ کے ایل سہگل کولکتہ کی فلم انڈسٹری سے منہ موڑ کر ممبئی آئے تو اپنے دور کے معروف گیت کار آرزو لکھنوی فلمی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے اور 1935 میں بننے والی فلم ''دیوداس'' میں ان کا لکھا ہوا گیت ''بالم آئے بسو مورے من میں'' مقبولیت کی تمام حدیں پار کرچکا تھا۔

کے ایل سہگل کے گائے ہوئے گیتوں میں خمار بارہ بنکوی کا لکھا ہوا فلم ''شاہ جہان'' کا گیت ''اے دل بے قرار جھوم'' بھی اپنی مثال آپ تھا، مگر یہ سہگل کے چل چلاؤ کا زمانہ تھا۔ اس گیت کے علاوہ شاہ جہاں کے زیادہ تر گیت معروف شاعر مجروح سلطان پوری نے ہی لکھے تھے۔ مجروح سلطان پوری کا لکھا ہوا ایک گیت ''جب دل ہی ٹوٹ گیا'' تو اس زمانے میں اتنا مشہور ہوا کہ موسیقی کا ہر متوالا اسے گنگناتا پھر رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ گانا کے ایل سہگل کی ارتھی کے ساتھ بھی بجایا گیا تھا، اس لیے کہ یہ ان کی آخری خواہش تھی۔

اسی زمانے میں معروف گیت کار اور گلوکار کوی پردیپ بھی اپنے گیتوں کی مالا لے کر فلمی دنیا میں قدم جما چکے تھے۔ یہ وہی پردیپ تھے جن کا ایک گیت ''دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان، رے کتنا بدل گیا انسان'' مقبولیت کی انتہا تک پہنچا تھا۔

برصغیر میں جن دنوں آزادی کی تحریک زوروں پر تھی، فلمی دنیا بھی اپنے عروج پر تھی اور اس سے دو تین سال قبل اور تین چار سال بعد ہی فلمی گیت نگاری میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب برصغیر کی فلم انڈسٹری کو کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی، جانثار اختر، شیلندر، راجا مہدی علی خان، بھرت ویاس، پی ایل سنتوشی، تنویر نقوی، ڈاکٹر صفدر آہ سیتا پوری، ڈی این مدھوک، راجندر کرشن، سرور بارہ بنکوی، قتیل شفائی، احمد راہی، سیف الدین سیف، شیون رضوی اور ان جیسے بیسیوں گیت کاروں کے گیت برصغیر کے چپے چپے میں گونج رہے تھے۔

اس زمانے میں بنگالی اور پنجابی فلموں کے گیت کاروں نے بھی ایسے گیت تحریر کیے جو آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی لوگوں کے دل و دماغ پر نقش ہیں۔ ایف ڈی شرف، بابا عالم سیاہ پوش، جی اے چشتی، خواجہ پرویز اور وارث لدھیانوی کے علاوہ پنجابی کے کئی گیت کار اس میدان میں آئے اور اپنے فن کا کمال دکھا کر چلے گئے۔

ماضی کی فلمیں نہ صرف موسیقی اور گیت کاری بلکہ کہانی اور ہدایت کاری کا بھی اعلیٰ نمونہ تھیں۔ چونکہ اس دور کے زیادہ تر گیت کاروں کا شمار غزل اور نظم کے بہترین شاعروں میں ہوتا تھا اس لیے ان کے تحریرکردہ گیتوں میں ادبی چاشنی بھی پائی جاتی، جس کی بنا پر نئے لکھنے والے ان گیتوں سے شعر و ادب کا ذوق بھی حاصل کرتے اور لکھنے کی طرف بھی راغب ہوتے۔ ایسے ہی لکھنے والوں میں مشتاق عاجز کا نام بھی شامل ہے، جو نہ صرف ماہر تعلیم کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں بلکہ ان کا شمار اردو اور پنجابی کے بہترین شاعروں میں بھی ہوتا ہے۔

غزل، نظم اور دوہے میں کمال حاصل کرنے کے بعد جب وہ گیت کار ی کی طرف آئے تو انھوں نے اپنے قارئین کو حیران کردیا۔ ان کی تازہ کتاب ''زندگی گیت ہے'' میں درج گیت اس کی واضح مثال ہیں کہ انھوں نے برصغیر کی روایتی اور جدید فلمی گیت گاری سے متاثر ہو کر جو گیت لکھے ان میں ادبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ وہ زبان بھی موجود ہے جو گیت، بھجن اور دوہے کی روایت سے جڑی ہوئی ہے۔


زندگی آتما کا مدھر گیت ہے

زندگی پریم ہے زندگی پریت ہے

زندگی گیت ہے

دھن کوئی گنگنائے تو اس کی بھی جے

کوئی سر لے میں گائے تو اس کی بھی جے

کوئی رو رو سنائے تو اس کی بھی جے

ہار نفرت کو ہے پیار کی جیت ہے

زندگی پریم ہے زندگی پریت ہے

زندگی گیت ہے

مشتاق عاجز نے شاعری میں نہ کسی کے شاگردی اختیار کی اور نہ ہی کسی سے اصلاح لی، بلکہ فلمی گیت سن کر شاعری کے جن محاسن کو اپنے ذوق کا حصہ بنایا زندگی بھر وہی ان کے کام آئے۔ یہ سمجھنا زیادہ آسان ہوگا کہ میرا بائی سے ساحر لدھیانوی تک اور امیر خسرو سے شکیل بدایونی تک گیتوں اور دوہوں کے جو نمایندہ شاعر گزرے ہیں وہ سب ہی مشتاق عاجز کے استاد ہیں اور ان کا کلام وبیان ہی مشتاق عاجز کی فکری اور فنی اساس ہے۔ ایک بات تو ہم آپ کو بتانا بھول ہی گئے کہ مشتاق عاجز گائیکی اور مصوری میں بھی منفرد انداز کے حامل ہیں جو انھیں اپنے ہم عصر تخلیق کاروں سے ممتاز بناتا ہے۔
Load Next Story