کرپٹ نظام میں… ووٹ ڈالیں یا نہیں

دور کیوں جائیے، اپنے ہی ملک میں ماضی سے اب تک کا جائزہ لے لیں تو خود اپنے آپ سے سوال کرنا پڑے گا۔


Dr Naveed Iqbal Ansari July 09, 2018
[email protected]

امریکی اداکارہ اوپرا ونفرے نے چند روز پہلے اپنے ایک بیان میں امریکی صدارتی امیدوار بننے سے توبہ کرلی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خواہش مجھے 'قتل' کردے گی۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ صدارتی امیدوار بننے سے میں توبہ کرتی ہوں، سیاسی ڈھانچے میں ہر طرح کے جھوٹ سچ ہوتے ہیں، سفاکیت اور غلط کاریاں ہوتی ہیں، عقبی کمروں میں خفیہ لین دین ہوتا ہے۔

اس اداکارہ کی یہ بات کوئی انہونی نہیں، اگر امریکا میں طریقہ انتخاب کا جائزہ لیں تو بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہاں صرف پیسہ والا ہی انتخابی کھیل کا حصہ بن سکتا ہے، بے ایمانی اور دھاندلی کی تازہ مثال تو حالیہ امریکی صدر کے کامیاب ہونے پر احتجاجی مظاہروں کی بھرمار سے بھی ہے۔ جمہوریت کس قدر بڑا دھوکا ہے، اس پر خود مغرب کی 'ڈارک سائیڈ آف ڈیموکریسی' جیسی کئی کتابیں موجود ہیں۔

دور کیوں جائیے، اپنے ہی ملک میں ماضی سے اب تک کا جائزہ لے لیں تو خود اپنے آپ سے سوال کرنا پڑے گا کہ کیا اس ملک میں کبھی جمہور کی بات سنی گئی ہے؟ جس طرح دنیا بھر میں جمہوریت سرمایہ داروں کی 'باندی' ہے، ایسے ہی ہمارے ہاں طاقتوروں کی باندی رہی ہے۔ ہم جیسے بہت سے بھلے مانس سمجھتے ہیں کہ اس سے نہ صرف انقلاب آئے گا بلکہ 'اسلامی انقلاب' بھی آئے گا، حالانکہ یہ ناممکنات میں سے ہے، اس لیے کہ جمہوریت اور اس کا نظام جس معاشرے سے آیا ہے، نمبر ایک یہ کہ وہ لبرل اور غیر مذہبی معاشرہ ہے، نمبر دو، یہ سرمایہ داروں کے مفاد سے کشید کردہ ہے۔ چنانچہ اس سے کبھی خیر کی امید نہ رکھی جائے تو بہتر ہے۔

یہ ایک ایسا نظام ہے کہ جس میں شامل ہونے کے لیے آپ کو اپنے تمام اصولوں پر ایک ایک کرکے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ انتخابات کی مثال ہی لے لیجیے، پاکستان کے ماضی کے تمام انتخابات میں جے یو آئی اور جے آئی سمیت جے یو پی، پی این اے، اے این پی، پی پی پی وغیرہ یعنی سیکولر، لبرل اور مذہبی جماعتوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ صوبہ سرحد میں کوئی عورت ووٹ نہیں ڈالے گی، مگر اب سب متفق ہیں کہ خواتین ووٹ ڈالیں گی۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں کا موقف تھا کہ خواتین کو انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہیے مگر حالیہ انتخابات میں صورتحال یہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کو قانونی اعتبارسے ستائیس نشستوں کے ٹکٹ خواتین کے لیے مختص کرنا چاہیے تھے مگر اس جماعت نے مزید دس زائد نشستیں خواتین کے لیے وقف کردیں، اسی طرح ایم ایم اے نے مزید تین ٹکٹ زائد خواتین کو دیے۔ جب کہ عمران خان کو الیکشن کمیشن نے خواتین کی پانچ فیصد نشستیں کم مختص کرنے پر طلب کرلیا۔

یاد رہے کہ عمران خان خواتین کے حقوق کی اور روشن خیالی کی باتیں زیادہ کرتے ہیں مگر انھوں نے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے خواتین کو اتنی نشستیں بھی نہیں دیں جتنی کہ قانوناً دینی چاہیے تھیں۔ گویا یہ وہ جمہوری نظام ہے کہ جس میں انتخابات سے قبل ہی اپنے نظریات پر سمجھوتہ کرنا پڑ رہا ہے، تو بعد میں کیا ہوگا؟ اسی طرح اس عمل کی شفافیت کی بات کریں تو بھی بڑی تکلیف دہ صورتحال دکھائی دیتی ہے کہ ایک جانب تو کسی شریف کو اس بات پر سزا ہوجاتی ہے کہ کوئی کرپشن پکڑا نہیں گیا تو کیا ہوا، قیمتی جائیداد کہاں سے آئی؟

جب کہ دوسری طرف الیکشن کمیشن میں تحریری طور پر یہ لکھ کر دیا جاتا ہے کہ امیدوار کے پاس موجود جائیداد تو کوڑیوںکے مول کی ہے اور امیدوار تو خود کنگلا غریب قسم کا شہری ہے، تو اس پر کوئی نہیں پکڑتا کہ کیوں بھئی کراچی شہر کی مضافاتی بستی میں بھی اتنا سستا مکان و پلاٹ نہیں ہوتا جتنا کہ تم کلفٹن کے علاقے میں بیان کررہے ہو۔ ہمارے ایک دوست ہنس کر کہنے لگے کہ سیاست شریفوں کاکھیل نہیں، اگر شریف بھی ان اثاثوں کی قیمت پانچ یا دس لاکھ لکھ دیتا تو بچ جاتا، جیسے دوسرے بچے ہوئے ہیں۔

بہرکیف کہنے کا مقصد ہے کہ یہ سب جمہویت 'امپورٹیڈ' شے ہے اور اس کا شکار تو خود اس کو ایجاد کرنے والے بھی ہیں، تو ہم کیسے اس سے کوئی 'فیض' حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ کھیل ہے پیسے والوں کا، اس میں مذہب تو کیا معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کا بھی دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔ یہ باتیں صرف زبانی کلامی ہی ہوتی ہیں اور جو بھی ان میں ماہر ہو وہی سب سے آگے ہوتا ہے۔

کامیابی اس کے قدم چومتی ہے، بلے کی سیاست کرنے والی جماعت کو ہی لے لیں، جلسوں میں خواتین کو سب سے آگے آگے رکھا، مگر جب ٹکٹ دینے کی باری آئی تو خواتین کی نشستوں کو اس قدر کم کردیا کہ الیکشن کمیشن نے نوٹس پر لیڈر کو بلا لیا۔ اسی طرح جن جماعتوں کو رات دن کرپٹ اور غلط کہا پھر ان ہی کے بڑے 'دانوں' کو چن لیا کہ یہ تو خود ہی جیتے ہوئے ہیں، وزیراعظم بننے میں خوب مدد دیں گے۔ ان ہی خوبیوں کی بنا پر کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ بندہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گا چاہے کتنا ہی جوڑ توڑ کرنا پڑے۔

ان تمام معاملات کا ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ قارئین کو بددل کرکے انتخابات والے دن گھروں میں بیٹھ کر آرام کرنے کا مشورہ دیا جائے، بلکہ یہ گوش گزار کرنا ہے کہ اس سسٹم سے یہ امید نہ لگائیں کہ کوئی انقلاب آئے گا۔ البتہ ووٹ نہ ڈال کر میدان خالی چھوڑنے کی غلطی نہ کریں، کیونکہ آپ کے اس عمل سے بد سے بدترین لوگ منتخب ہو کر اقتدار میں آسکتے ہیں اور ہم سب کے ٹیکسوں کی رقم سے خوب کرپشن کرکے اس ملک کو بھی نقصان پہنچاسکتے ہیں، لہٰذا اپنا ووٹ ضرور ڈالیں مگر فیصلہ کرتے وقت رنگ، نسل، برادری، مسلک، دوست احباب وغیرہ کو نہ دیکھیں بلکہ صرف اور صرف کردار کو دیکھیں، جس کا کردار اچھا ہو اس کو ووٹ دیں، کیونکہ جس کا کردار غلط ہوتا ہے وہی کرپشن کرتا ہے، وہی آپ کے کام نہیں کرتا، اگر بطور ووٹر ایسا فیصلہ کریں گے تو آیندہ سیاسی جماعتیں بھی کرپٹ لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دیتے وقت کچھ سوچیں گی، ورنہ وہی بھیڑ چال چلتی رہے گی۔ لہٰذا ووٹ ڈالتے وقت اپنے اپنے امیدواروں کا ماضی ضرور دیکھ لیں، ان کی شہرت دیکھیں کس قسم کی ہے؟

یہ دیکھیں کہ گزشتہ دس برسوں میں ان کی مالی حالت کیا تھی، آج کیا ہے؟ اس کے ساتھ ان کا نظریہ بھی دیکھیں کہ کیا ہے؟ اچھی طرح چھان پھٹک کر اپنے امیدوار کو دیکھیں اور پھر بھی سو فیصد باکردار نہ ملے تو جس کا کردار سب سے کم خراب ہو اس کو ووٹ ڈالیں۔ اس لیے کہ اگر آپ ووٹ نہیں ڈالیں گے تو کوئی اور آپ کا ووٹ استعمال کرسکتا ہے، نیز جب اچھے لوگ فیصلہ نہیں کریں گے تو پھر برے لوگوں کے ووٹ سے برے ہی لوگ منتخب ہوں گے اور پھر کسی شکوے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آیئے غور کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔