اب کس کی باری ہے

ابھی ایک ’’شریف‘‘ خاندان پکڑ میں آیا ہے، ان سے کہیں زیادہ ’’شریف‘‘ خاندان ابھی باقی ہیں۔


Saeed Parvez July 09, 2018

یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔ پاناما کے 436 نام موجود ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں امیدواران مع اپنے اثاثوں کے سامنے ہیں۔ (انھی اثاثوں سے اصل اثاثے پھوٹیں گے) یوں بھی اس غربت مارے ملک کے رؤسا کون سے ڈھکے چھپے ہیں۔ جو الیکشن نہیں بھی لڑ رہے، وہ اربوں پتی بھی سب کے سامنے ہیں۔ یہ جو نواز شریف کے حال پر ہنس رہے ہیں، جشن منا رہے ہیں، ناچ گا رہے ہیں، یہ اربوں پتی بھی دھیان میں رہیں، ان کا بھی حساب ہونا چاہیے۔

بات انھی تک نہیں رہنی چاہیے۔ بات نکلی ہے تو پھر ''دور تلک'' جانی چاہیے۔ یہی ''لوگ'' ہیں جن کی وجہ سے ملک کنگال ہوا، اور اربوں کھربوں کا مقروض ہوا۔ یہ تو ابھی ایک ''شریف'' خاندان پکڑ میں آیا ہے، ان سے کہیں زیادہ ''شریف'' خاندان ابھی باقی ہیں۔ ذرا سامنے کے خاندانوں سے نمٹ لیں، چیف جسٹس صاحب! پھر باقیوں کو بھی دیکھ لیجیے گا۔

یہ جو اربوں کا قرضہ ملک پر چڑھا ہے۔ یہ سارا پیسہ انھی ظالموں، جابروں کے اثاثوں کی صورت پڑا ہے۔ یہ جو ہمارے غریب بچے تعلیم سے محروم، گلیوں میں رل رہے ہیں! یہ انھی درندوں کی وجہ سے ہے۔ یہ جو غریب بلا علاج، دوا دارو، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں، یہ انھی حیوانوں کا کیا دھرا ہے۔ یہ جو جھونپڑیاں اور کچے گھروندے پورے ملک میں نظر آتے ہیں ان غریبوں کا حق مار کر شیطانوں نے اپنے محل، فارم ہاؤس، اصطبل بنا رکھے ہیں۔ یہ اﷲ رسول کو نہیں مانتے۔ یہ شیطان کو مانتے ہیں، یہ اس کے چیلے ہیں ان کا دین دھرم ایمان صرف پیسہ ہے۔ پیسے کے حصول کے لیے یہ شیطان کچھ بھی کرگزرتے ہیں۔

ان ظالموں، خونخوار درندوں نے اپنے پنجے بڑی مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں۔ یہ عرصہ دراز ہوا ملک کی دولت بیرون ملک منتقل کرچکے ہیں۔ امریکا ، کینیڈا، فرانس، برطانیہ، دبئی وغیرہ میں ان کے مہنگے ترین گھر ہیں۔ باہر کے ملکوں میں ان کے بینک اکاؤنٹ ہیں، جن میں کروڑوں اربوں پاکستانی روپے جمع ہیں۔ یہی نہیں ان ملک دشمنوں نے غیر ملکی شہریت بھی لے رکھی ہے۔ یہ ''وہ'' ہیں جن میں انسانیت ذرہ برابر بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی ان کے گھر اتنے بڑے بڑے ہیں کہ جن کے اندر ہیلی کاپٹر اتارنے کے لیے ہیلی پیڈ بنے ہوئے ہیں۔ سوئمنگ پول ہیں اور غریبوں کو پینے کا پانی میسر نہیں۔ ان کے کتے مہنگی غیر ملکی خوراک کھاتے ہیں اور غریب بھوکے سوتے ہیں یا انھیں فلاحی اداروں کے دسترخوانوں پر چھوڑ رکھا ہے۔ یوں غریبوں کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے۔

قومی اسمبلی میں خواجہ آصف یہ الفاظ استعمال کرچکے ہیں ''کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے'' تو قومی اسمبلی سے پاس شدہ یہی الفاظ میں بھی استعمال کر رہا ہوں کہ ''کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے'' کہ غریبوں کے لیے اسپتالوں میں دوائیں نہیں اور یہ بے رحم باہر کے اعلیٰ ترین مہنگے اسپتالوں میں اپنا اور اپنے اہل و عیال کا علاج کرواتے ہیں۔ اور یہ ''حرکت'' علما، مولوی، مزارات کے مجاور، پیر، فقیر سبھی کرتے ہیں۔

یہ ظالم، یہ درندے انھیں نہ شرم، نہ حیا یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بعد ہمارے بچے اس غریب اور مقروض ملک کے حکمران بنیں گے۔ ان بے رحموں نے سیاست کو ''کاروبار'' بنا لیا ہے۔ ٹیکسوں کے بوجھ تلے عوام کو دبا کر مہنگی کاریں خریدتے ہیں، عیاشیاں کرتے ہیں اور انھی مہنگی گاڑیوں سے فائرنگ کرکے یہ انسانوں کا شکار کرتے ہیں اور پھر دھونس، دھن سے عدالتوں سے رہا ہوجاتے ہیں۔ فتح وکٹری کا نشان بناتے، ہنسے، ناچتے عدالتوں سے باہر نکلتے ہیں ،یہ اندھیرا کب تک! (یہ چوپٹ راج کب تک!) آخر کب تک۔

یہ محل سراؤں کے باسی، غریبوں کو ان کا حق بھی نہیں دیں گے۔ ان سے حق مانگنا بے کار ہے، ان سے حق چھیننا ہوگا۔ مجھے یاد آرہا ہے ایک احتساب ڈکٹیٹرجنرل ضیا الحق کے زمانے میں بھی ہوا تھا۔ جنرل ضیا نے 90 دن میں الیکشن کروانے کا وعدہ توڑ کر نام نہاد احتساب شروع کردیا جس کا سب سے پہلے احتساب ہونا چاہیے تھا اس نے احتساب بھلا کیا کرنا تھا۔ کچھ سیاستدان، جنرل ضیا کے جھانسے میں آگئے تھے اور انھوں نے بھی انتخاب سے پہلے احتساب کی بات کردی۔ جنرل ضیا کو ہلہ شیری مل گئی اور اس نے احتساب شروع کردیا، مگر کیا ہوا۔ کچھ بھی نہیں۔ جنرل ضیا کے بعد کتنی ہی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ ظالم، جابر اور لوٹ مار کرتے رہے، غریب مظلوم اور ظلم کا شکار ہوتے رہے۔

کہیں پھر وہی نہ ہو جائے کہ ''من پسند'' احتساب کرنے کے احتساب بند کردیا جائے، اگر اب ایسا ہوا تو غریب بپھرے ہوئے عوام کسی ظالم کو نہیں چھوڑیں گے۔ اب کے سارے کے سارے حساب بے باک کیے جائیں گے۔ اب عوام بول رہے ہیں، سوال کر رہے ہیں۔ حساب مانگ رہے ہیں۔ یقینا وہ عہد حسیں آنے والا ہے، دہلیز پر انقلاب کی دستک سنائی دے رہی ہے ۔

الیکشن 2018 یاد رہ جانے والا الیکشن ہوگا۔ اسی کی کوکھ سے عوامی انقلاب جنم لے گا۔ نظر آرہا ہے۔ خوب صاف نظر آرہا ہے۔ اصل کہانی الیکشن کے بعد شروع ہوگی۔ امید فاضلی کا مصرعہ یاد آگیا ہے ''بند بناکر سو مت جانا، دریا آخر دریا ہے'' تو الیکشن کے مرحلے سے گزر کر بیٹھ نہ جانا الیکشن محض الیکشن ہے۔ ہماری منزل عوامی انقلاب ہے کہ جب بقول جالب ''نہ رہے گا کوئی قاتل نہ رہیں گی قتل گاہیں'' بس ''کوئی دم کی بات ہے یہ، کوئی پل کی رات ہے یہ''

جاگتے رہنا

علم اٹھائے رکھنا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔