دہشت گردوں کے خلاف قوم کو متحد ہونا پڑے گا

کراچی میں ایم کیو ایم کے انتخابی دفتر پر حملہ دہشت گردوں کے ان حملوں کی کڑی ہے جو وہ ملک بھر میں لبرل اورروشن خیال۔۔۔


Editorial May 05, 2013
ہفتے کی شب ایم کیو ایم کے انتخابی دفتر کے باہر دو بم دھماکوں میں تین افراد جاں بحق ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی

کراچی کے علاقے عزیز آباد میں ہفتے کی شب متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی دفتر کے باہر یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے۔ جن میں تین افراد جاں بحق جب کہ چالیس سے پچاس کے درمیان زخمی ہو گئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ دھماکے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو کے عین عقب میں قائم ان کے انتخابی دفتر پر ہوئے۔ دہشت گردوں نے سخت چیکنگ اور حفاظتی انتظامات کے باوجود بیس منٹ کے وقفے سے دو دھماکے کر کے حفاظتی اقدامات کی قلعی کھول دی۔ کراچی پولیس حکام کے مطابق پہلا دھماکا لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے لیے کیا گیا اور ہجوم کے جمع ہو جانے پر دوسرا دھماکا کر دیا گیا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کا شکار بنایا جا سکے۔

کالعدم تحریک طالبان نے دھماکوں کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ صدر آصف علی زرداری، نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو، نگراں وزیر داخلہ ملک حبیب،متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین اور ملک کے تمام سیاسی لیڈروں نے ان دھماکوں کی شدید مذمت کی ہے۔ اتوار کو کراچی سمیت سندھ بھر میں یوم سوگ منایا گیا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے لیڈروں نے ان بم دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی نے ملک کی بنیادیں ہلا دی ہیں، مشترکہ ٹھوس موقف نہ اپنایا گیا تو کسی کا گھر بھی محفوظ نہیں ہو گا۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے بھی بم دھماکوں کی مذمت کی۔

کراچی میں ایم کیو ایم کے انتخابی دفتر پر حملہ دہشت گردوں کے ان حملوں کی کڑی ہے جو وہ ملک بھر میں لبرل اور روشن خیال جماعتوں کے امیدواروں پر کر رہے ہیں۔ ان حملوں میں کئی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں تاہم عزیز آباد میں جو حملہ ہوا ہے' وہ اس بات کا بھی اعلان ہے کہ دہشت گرد بلا روک ٹوک کہیں بھی اپنی کارروائی کر سکتے ہیں اور کسی کا کوئی خوف نہیں ہے۔ اس وقت پورے ملک میں انتخابی مہم جاری ہے لیکن اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں رہی کہ پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی کے امیدواروں کو دہشت گرد نشانہ بنا رہے ہیں۔ بلاشبہ بلوچستان میں میر ثناء اللہ زہری کے انتخابی قافلے پر حملہ ہوا ہے' جس میں ان کے صاحبزادے، بھائی اور بھتیجے جاں بحق ہوئے۔

اگلے روز خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی ریلی پر بھی حملہ ہوا ہے لیکن ایم کیو ایم اور اے این پی پر جس طرح مسلسل حملے ہو رہے ہیں' اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ دہشت گردوں کا خصوصی ٹارگٹ ایم کیو ایم اور اے این پی ہیں جب کہ پیپلز پارٹی بھی ان کے ہدف میں شامل ہے۔ حالیہ دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد کالعدم تحریک طالبان نے اس کی ذمے داری قبول کرنے کا اعلان کررہی ہے۔ یوں اس کالعدم تنظیم نے تین جماعتوں کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے جو اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھولنے کے کافی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات ہونا جمہوری روح کے مطابق ہے۔ پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی کے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے اختلافات ہیں تو یہ سیاسی نوعیت کے ہیں' اس میں دشمنی کا عنصر شامل نہیں ہے۔آج کوئی جماعت کسی کی مخالف ہے تو کل اتحادی بھی ہوسکتی ہے۔

اس لیے اگر ایم کیو ایم' اے این پی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں اور ان کے انتخابی دفاتر پر حملے ہو رہے ہیں تو دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ کھل کر اور بغیر اگر مگر کے ان حملوں کی مذمت کرنی چاہیے۔ عزیز آباد میں حملے کے ردعمل میں اگر ایم کیو ایم نے کراچی اور سندھ میں سوگ کا اعلان کیا تھا توملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس کا ساتھ دیتے ہوئے ملک بھر میں یوم سوگ اور یوم احتجاج کی کال دینی چاہیے تھی۔اس طرح دہشت گرد وں اور ان کی حامی قوتوں کو پیغام ملتا کہ قوم ان کے ایجنڈے کے خلاف متحد ہے۔ دہشت گرد بڑی چالاکی سے اپنا کھیل کھیل رہے ہیں' وہ تین جماعتوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں' ان کی اس چال سے دوسری جماعتیں سمجھ رہی ہیں کہ شاید وہ محفوظ ہیں لیکن انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ قاتل کا کوئی نظریہ ہے نہ اس کا کوئی دوست' وہ صرف اپنے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے' جو گروہ معصوم بچوں کے سینے میں گولیاں مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتا' اس سے کسی نظریے کی پیروی کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے' نگراں حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ اس کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے' بیورو کریسی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے' اس رویے نے ریاستی مشینری کو مفلوج کر دیا ہے' اس صورتحال کا فائدہ کالعدم تحریک طالبان اٹھا رہی ہے' اس کے لیے کہیں بھی کارروائیاں کرنا انتہائی آسان ہو گیا ہے۔ ویسے بھی انتخابی مہم کے دوران سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے' ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی ذمے داریاں بھی بہت بڑھ گئی ہیں' دہشت گرد تنظیمیں بغیر کسی خوف کے اپنے جرائم کا اعتراف کر رہی ہیں' وہ ایسا اس لیے کر رہی ہیں کہ انھیں سزا کا خوف نہیں ہے' الیکشن ہو جائیں گے اور نئی حکومت بھی بن جائے گی لیکن کسی کو لبرل جماعتوں پر دہشت گردوں کے حملوں سے خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو بھی حکومت برسراقتدار آئے گی' اسے دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنا پڑے گی' چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی گزشتہ دنوں کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اب وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف قومی سطح پر اتفاق رائے ہو' سیاسی جماعتیں ہوں یا دانشور یا کاروباری طبقہ انھیں یہ طے کر لینا چاہیے کہ اگر دہشت گردوں کا قلع قمع نہ کیا گیا تو پھر خاکم بدہن کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں