اپنے بچوں کا ماحول بدلیں
بچوں کو بیرونی سرگرمیوں کی طرف مائل کریں۔
ماحول بچے کی ذہنی اور جسمانی نمو پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں والدین کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار ماحول بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
ماحول کی یکسانیت سے بہت سے نفسیاتی مسائل بچے کے دل و دماغ پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ والدین اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہو جاتے ہیں اور بچوں کو تنہائی اور ڈیپریشن کے ماحول میں قید کر دیتے ہیں جس کے منفی نتائج بھی سامنے آتے ہیں اور یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت وڈیو گیمز اور انٹرنیٹ پر گزارنے لگتے ہیں۔ ان وڈیو گیمز کے استعمال سے ان کا آئی کیو لیول آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوتے پھر ختم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ ان کی قوت سماعت اور بصارت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
والدین کا ان سب مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ بچوں کی اچھی تربیت اور جسمانی نشوونما کے لیے والدین کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مناسب وقت دیں۔ ان کے اسکول کے اوقات کا خاص خیال رکھیں اور ان کی واپسی تک گھر کی خوشگواریت میں مزید اضافہ کریں، تاکہ وہ گھر پہنچ کر یہاں کے ماحول میں خود کو تروتازہ محسوس کریں۔
طبی ماہرین کے نزدیک وڈیو گیمز اور سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے بچے زیادہ تر ڈیپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی قدرتی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں بھی ناکام رہتے ہیں اور ان کی ذہنی بڑھوتری کا عمل بھی رک جاتا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جو بچے اپنا زیادہ وقت وڈیو گیمز میں صرف کرتے ہیں، ان کی پریشانی کی کیفیت بھی بڑھ جاتی ہے اور وہ دوسروں سے میل جول کو قطعاً پسند نہیں کرتے، بلکہ تنہائی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اعصابی بیماریاں بھی ان کو جکڑ لیتی ہیں اور وہ اپنے جذبات پر بھی قابو نہیں رکھ سکتے۔ ان میں قوت مدافعت بھی کم ہو جاتی ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھنٹوں سوچتے رہتے ہیں اور بلا وجہ کسی نہ کسی بات پر ایک دوسرے سے الجھتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے بچے والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں، اس لیے ان سے نمٹنے کا بہتر حل یہی ہے کہ ابتدا سے ہی بچوں کواچھا ماحول دیا جائے، تاکہ وہ کسی طرح کے احساس کم تری کا شکار نہ ہوں۔بچوں کی متوازن اور اچھی تربیت کے لیے ان کو صحت مندانہ ماحول فراہم کرنما بے حد ضروری ہے، جس کے لیے والدین کو اپنی بہت ساری سرگرمیاں معطل کرنا ہوں گی،تاکہ ان کے بچوں کی شخصیت پر مثبت اثرات مرتب ہوسکیں اور وہ مفید اور کار آمد شہری کی حیثیت سے معاشرے میں زندگی بسر کریں۔
بچوں کو گھر کے ماحول سے باہر نکالیں اور ان کے اندر کچھ نہ کچھ کر دکھانے کاجذبہ پیدا کریں۔ آؤٹ ڈور کھیل بچوں کی ذہنی اور جسمانی تعمیر و مرمت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ آپ کے بچوں کو نئے ماحول سے آشنا کراتے ہیں اور دوسرے ان کی قدرتی صلاحیتوں کی نشوونما میں بھی مدد کرتے ہیں۔
فٹ بال، ہاکی اور کرکٹ ایسے کھیل ہیں جو نہ صرف جسمانی توانائی فراہم کرتے ہیں، بلکہ منفی رویوں کو بھی دبانے کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ ان آؤٹ ڈور گیمز کے ذریعے زندگی کے بہت سے حقائق سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے ۔وہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں اور اپنا زیادہ وقت تخلیاتی سوچ میں گزارتے ہیں جس سے وہ خاطر خواہ فائد ہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں اور یہی ان کی کامیابی کی پہلی منزل ہوتی ہے۔
'جمپنگ ' چھوٹے بچوں کے لیے انرجی سے بھرپور گیم ہے۔ اکثر پارکوں میں اس کے لیے مخصوص جگہیں ہوتی ہیں، تاکہ بچے لطف اندوز ہو سکیں۔ اس کھیل میں بچوں کا جسم مکمل طور پر حرکت کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کی ورزش بھی ہوتی ہے۔آپ اپنے اوقات میں سے کچھ وقت چاہے صبح کا ہو یا شام کا ضرور نکالیں تاکہ بچوں کو اپنے گھر کے نزدیکی پارک میں لے جائیں اور وہ اس طرح کے کھیلوں میں حصہ لے سکیں۔
باسکٹ بال بھی ایک انرجی والا کھیل ہے۔ یہ بچوں کے اعصاب کو نہ صرف مضبوطی دیتا ہے، بلکہ ان میں برداشت اور افہام و تفہیم کی فضا بھی قائم کرتا ہے۔ بچیوں کو فارغ اوقات میں مختلف فلاحی اداروں کا وزٹ کرائیں تاکہ ان میں سوشل سرگرمیوں کا شوق پیدا ہواور وہ مستقبل میں ایک اچھی اور مثبت سوچ رکھنے والے سوشل آرگنائزر کا روپ دھار لیں۔
آرٹ اور ڈرائنگ کے فن سے اپنے بچوں کا مستقبل روشن بنائیں۔ انھیں رنگوں سے آشنائی کرائیں اور زندگی کے نشیب و فراز کی مختلف تبدیلیوں سے بھی گزاریں، تاکہ وہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھیں۔ بچوں پر بے جا پابندیاں نہ لگائیں، کیوں کہ ایسا کرنے سے وہ زندگی سے اچھے انداز سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔
تعلیمی ٹورز سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں، اس لیے کوشش کریں کہ سال میں ایک بار ضرور اپنے بچوں کو کسی مفید اور نصاب سے متعلقہ جگہوں کا وزٹ کرائیں، تاکہ تفریح کے ساتھ ساتھ وہ اپنے تعلیمی موضوعات کو بھی ڈسکس کرلیں اور ان کے متعلق اچھی طرح چھان بین بھی کرلیں۔ ہفتے میں ایک دن بچوں کو گھر سے باہر گھمانے ضرور لے جائیں اور ان کے پسندیدہ کھیلوں میں انھیں بھرپور انداز سے حصہ لینے دیں، تاکہ انھیں ذہنی تسکین ملے اور وہ اپنے دوستوں کو حسرت بھرے انداز سے نہ دیکھیں۔
بچوں کی خوراک کا خاص خیال رکھیں، تاکہ ان کی جسمانی تربیت میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے اور وہ پرجوش انداز سے اپنی تعلیمی اور تفریحی سرگرمیوں کی طرف مائل ہوں۔والدین کے لیے سب سے قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ماحول کو ہر لحاظ سے بہتر سے بہترین بنائیں، تاکہ وہ کسی کشمکش اور ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں۔ اچھے دوستوں کی طرح ان سے ہر معاملے پر بحث و مباحثہ کریں اور ان کی سوچ کو جتنا ہو سکیں مثبت انداز سے پروان چڑھائیں۔
ماحول کی یکسانیت سے بہت سے نفسیاتی مسائل بچے کے دل و دماغ پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ والدین اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہو جاتے ہیں اور بچوں کو تنہائی اور ڈیپریشن کے ماحول میں قید کر دیتے ہیں جس کے منفی نتائج بھی سامنے آتے ہیں اور یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت وڈیو گیمز اور انٹرنیٹ پر گزارنے لگتے ہیں۔ ان وڈیو گیمز کے استعمال سے ان کا آئی کیو لیول آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوتے پھر ختم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ ان کی قوت سماعت اور بصارت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
والدین کا ان سب مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ بچوں کی اچھی تربیت اور جسمانی نشوونما کے لیے والدین کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مناسب وقت دیں۔ ان کے اسکول کے اوقات کا خاص خیال رکھیں اور ان کی واپسی تک گھر کی خوشگواریت میں مزید اضافہ کریں، تاکہ وہ گھر پہنچ کر یہاں کے ماحول میں خود کو تروتازہ محسوس کریں۔
طبی ماہرین کے نزدیک وڈیو گیمز اور سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے بچے زیادہ تر ڈیپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی قدرتی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں بھی ناکام رہتے ہیں اور ان کی ذہنی بڑھوتری کا عمل بھی رک جاتا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جو بچے اپنا زیادہ وقت وڈیو گیمز میں صرف کرتے ہیں، ان کی پریشانی کی کیفیت بھی بڑھ جاتی ہے اور وہ دوسروں سے میل جول کو قطعاً پسند نہیں کرتے، بلکہ تنہائی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اعصابی بیماریاں بھی ان کو جکڑ لیتی ہیں اور وہ اپنے جذبات پر بھی قابو نہیں رکھ سکتے۔ ان میں قوت مدافعت بھی کم ہو جاتی ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھنٹوں سوچتے رہتے ہیں اور بلا وجہ کسی نہ کسی بات پر ایک دوسرے سے الجھتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے بچے والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں، اس لیے ان سے نمٹنے کا بہتر حل یہی ہے کہ ابتدا سے ہی بچوں کواچھا ماحول دیا جائے، تاکہ وہ کسی طرح کے احساس کم تری کا شکار نہ ہوں۔بچوں کی متوازن اور اچھی تربیت کے لیے ان کو صحت مندانہ ماحول فراہم کرنما بے حد ضروری ہے، جس کے لیے والدین کو اپنی بہت ساری سرگرمیاں معطل کرنا ہوں گی،تاکہ ان کے بچوں کی شخصیت پر مثبت اثرات مرتب ہوسکیں اور وہ مفید اور کار آمد شہری کی حیثیت سے معاشرے میں زندگی بسر کریں۔
بچوں کو گھر کے ماحول سے باہر نکالیں اور ان کے اندر کچھ نہ کچھ کر دکھانے کاجذبہ پیدا کریں۔ آؤٹ ڈور کھیل بچوں کی ذہنی اور جسمانی تعمیر و مرمت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ آپ کے بچوں کو نئے ماحول سے آشنا کراتے ہیں اور دوسرے ان کی قدرتی صلاحیتوں کی نشوونما میں بھی مدد کرتے ہیں۔
فٹ بال، ہاکی اور کرکٹ ایسے کھیل ہیں جو نہ صرف جسمانی توانائی فراہم کرتے ہیں، بلکہ منفی رویوں کو بھی دبانے کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ ان آؤٹ ڈور گیمز کے ذریعے زندگی کے بہت سے حقائق سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے ۔وہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں اور اپنا زیادہ وقت تخلیاتی سوچ میں گزارتے ہیں جس سے وہ خاطر خواہ فائد ہ اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں اور یہی ان کی کامیابی کی پہلی منزل ہوتی ہے۔
'جمپنگ ' چھوٹے بچوں کے لیے انرجی سے بھرپور گیم ہے۔ اکثر پارکوں میں اس کے لیے مخصوص جگہیں ہوتی ہیں، تاکہ بچے لطف اندوز ہو سکیں۔ اس کھیل میں بچوں کا جسم مکمل طور پر حرکت کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کی ورزش بھی ہوتی ہے۔آپ اپنے اوقات میں سے کچھ وقت چاہے صبح کا ہو یا شام کا ضرور نکالیں تاکہ بچوں کو اپنے گھر کے نزدیکی پارک میں لے جائیں اور وہ اس طرح کے کھیلوں میں حصہ لے سکیں۔
باسکٹ بال بھی ایک انرجی والا کھیل ہے۔ یہ بچوں کے اعصاب کو نہ صرف مضبوطی دیتا ہے، بلکہ ان میں برداشت اور افہام و تفہیم کی فضا بھی قائم کرتا ہے۔ بچیوں کو فارغ اوقات میں مختلف فلاحی اداروں کا وزٹ کرائیں تاکہ ان میں سوشل سرگرمیوں کا شوق پیدا ہواور وہ مستقبل میں ایک اچھی اور مثبت سوچ رکھنے والے سوشل آرگنائزر کا روپ دھار لیں۔
آرٹ اور ڈرائنگ کے فن سے اپنے بچوں کا مستقبل روشن بنائیں۔ انھیں رنگوں سے آشنائی کرائیں اور زندگی کے نشیب و فراز کی مختلف تبدیلیوں سے بھی گزاریں، تاکہ وہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھیں۔ بچوں پر بے جا پابندیاں نہ لگائیں، کیوں کہ ایسا کرنے سے وہ زندگی سے اچھے انداز سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔
تعلیمی ٹورز سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں، اس لیے کوشش کریں کہ سال میں ایک بار ضرور اپنے بچوں کو کسی مفید اور نصاب سے متعلقہ جگہوں کا وزٹ کرائیں، تاکہ تفریح کے ساتھ ساتھ وہ اپنے تعلیمی موضوعات کو بھی ڈسکس کرلیں اور ان کے متعلق اچھی طرح چھان بین بھی کرلیں۔ ہفتے میں ایک دن بچوں کو گھر سے باہر گھمانے ضرور لے جائیں اور ان کے پسندیدہ کھیلوں میں انھیں بھرپور انداز سے حصہ لینے دیں، تاکہ انھیں ذہنی تسکین ملے اور وہ اپنے دوستوں کو حسرت بھرے انداز سے نہ دیکھیں۔
بچوں کی خوراک کا خاص خیال رکھیں، تاکہ ان کی جسمانی تربیت میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے اور وہ پرجوش انداز سے اپنی تعلیمی اور تفریحی سرگرمیوں کی طرف مائل ہوں۔والدین کے لیے سب سے قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ماحول کو ہر لحاظ سے بہتر سے بہترین بنائیں، تاکہ وہ کسی کشمکش اور ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہوں۔ اچھے دوستوں کی طرح ان سے ہر معاملے پر بحث و مباحثہ کریں اور ان کی سوچ کو جتنا ہو سکیں مثبت انداز سے پروان چڑھائیں۔