ون ڈش پارٹی
اس رواج کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کم خرچ بالا نشین والا طریقہ اختیار کیا جائے۔
آج ہم ٹیکنالوجی کے دور میں زندہ ہیں۔ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جس میں لندن میں رہنے والے چچا کے ڈرائنگ روم کے پردوں کا رنگ پتا ہوگا، مگر پڑوس میں بیمار چچا کا کچھ اتا پتا نہیں ہوتا۔
اسی کو دیکھتے ہوئے اگر ہم آج سے پانچ دس سال پیچھے چلے جائے تو میل ملاپ اور مل جل کر پکنک پر جانے اور دعوتوں میں اکٹھے بیٹھنے کا رواج تھا، مگر اب وقت بدل گیا ہے جس کے پس پردہ کئی وجوہ ہیں جن میں منہگائی بھی سرفہرست ہے جس کے باعث اب دعوتوں کا رجحان کم ہوتا چلا جارہا ہے، کیوں کہ اگر چائے کی دعوت کا بھی اہتمام کیا جائے تو دس سے پندرہ ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور اس کا پتا بھی نہیں چلتا، اس لیے اب حالات کچھ ایسے ہوگئے ہیں کہ دعوتوں کا اہتمام کم ہورہا ہے اور میل ملاپ اور اکٹھے مل بیٹھنے کا رواج دم توڑ رہاہے۔
اس رواج کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کم خرچ بالا نشین والا طریقہ اختیار کیا جائے اور منہگائی کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے ون ڈش کا اہتمام کیاجائے۔
اس کے لیے یہ کیا جاسکتا ہے کہ سب خالاؤں اور پھوپھیوں کے نام کی پرچیاں ڈالی جائیں اور قرعہ اندازی کر لی جائے جس کے نام کا قرعہ نکلے، اس کے گھر پر مہینے کے ہر ایک ہفتے ون ڈش کا اہتمام کرلیاجائے اور سب مختلف ڈشز جن میں میٹھا اور نمکین شامل ہو، یہ چیزیں اپنے ساتھ لے کر ان کے گھر جایا جائے، اس طرح کسی ایک پر دعوت کا خرچ بھی نہیں پڑے گا اور نہ ہی کھانے کا انتظام کرنے کے لیے لمبی چوڑی محنت کرنی پڑے گی ۔ ایسے میں مل بیٹھ کر بات چیت کرنے اور حال احوال پوچھنے کا بھی موقع مل جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ہاتھوں کے مزے دار کھانے کھانے سے دعوت کا مزہ بھی دوبالا ہوجائے گا۔
ان دعوتوں میں اس بات کی بھی کوشش کی جائے کہ بچوں کے ساتھ وہ تمام پرانے کھیل کھیلے جائے جنھیں کھیل کر ہم بڑے ہوئے ہیں جیسے برف پانی،چھپن چھپائی، کھو کھو، لوٹو، جب یہ سارے کھیل آپ ان کے ساتھ کھیلیں گی تو انھیں احساس ہوگا کہ وہ پورا دن موبائل پر کارٹون دیکھنے کے علاوہ بھی یہ دل چسپ کھیل کھیل سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ انھیں کلر بکس دے کر کلرنگ کرنے کی بھی ترغیب دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے کزنز کے ساتھ مل کر ڈر ا ئنگ کریں تاکہ ان کی ڈرائنگ میں نکھار پیدا ہو۔
اس ون ڈش کا اہتمام کرنا تو یقیناً آسان ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ جس گھر میں اہتمام کیا جاتا ہے، ان کے گھر کے برتن اور ہر چیز استعمال کی جاتی ہے، اس لیے بہتر یہ ہے دعوت کے بعد اس بات کی کوشش کی جائے کہ سب مہمان مل کر استعمال شدہ برتن دھلوادیں، اس کے ساتھ ساتھ دسترخوان بھی سمیٹا جائے اور شام ہی ساتھ بتائی جائے، تاکہ ون ڈش کا سلسلہ چلتا رہے۔
جن کے گھر میں دعوت کی جائے۔ ان پر بھی بوجھ نہ ہو، وہ بھی یہ محسوس نہ کریں کہ بہتر تھا کہ ان کا نام قرعہ میں نہیں نکلتا اور جب ایک کو اچھا لگے گا تو پھر دوسرا خود آگے بڑھ کر کہے گا کہ قرعہ کی کوئی ضرورت نہیں، ہمارا گھر ون ڈش پارٹی کے لیے حاضر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب بچوں کے ساتھ مختلف کھیل کھیلے جائیں گے اور انھیں ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملے گا تو وہ بھی ون ڈش کے لیے پر جوش ہوں گے اور انھیں بھی سب کے ساتھ مل جل کر رہنے کی عادت ہوگی۔
اس کے علاوہ موبائل سے ان کی دوستی اور تعلق کم ہوجائے گا، کیوں کہ یہ موبائل کا بے تحاشا ہی استعمال ہے جس کے باعث دن بدن بچے غصہ کے تیز ہورہے ہیں، مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور ساتھ ساتھ تنہائی کا بھی شکار ہورہے ہیں، اس لیے ہمیں ون ڈش کو اپنی زندگی میں اس لیے بھی شامل کرنا ہوگا، تاکہ ہمارے بچے ذہنی اور جسمانی طور پر تن درست اور توانا ہوں اور اس کے لیے اتنی تو قربانی دینی ہی پڑے گی کہ ون ڈش پارٹی کے منصوبے کو تیار کرکے اپنے طور پر جس گھر میں اہتمام کیا گیا ہے، اس گھر والوں کی بھی مدد کی جائے، کیوں کہ اچھی زندگی کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔
تو پھر کیا خیال ہے؟ شروع کر رہی ہیں آپ سب ناں ون ڈش؟
اسی کو دیکھتے ہوئے اگر ہم آج سے پانچ دس سال پیچھے چلے جائے تو میل ملاپ اور مل جل کر پکنک پر جانے اور دعوتوں میں اکٹھے بیٹھنے کا رواج تھا، مگر اب وقت بدل گیا ہے جس کے پس پردہ کئی وجوہ ہیں جن میں منہگائی بھی سرفہرست ہے جس کے باعث اب دعوتوں کا رجحان کم ہوتا چلا جارہا ہے، کیوں کہ اگر چائے کی دعوت کا بھی اہتمام کیا جائے تو دس سے پندرہ ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں اور اس کا پتا بھی نہیں چلتا، اس لیے اب حالات کچھ ایسے ہوگئے ہیں کہ دعوتوں کا اہتمام کم ہورہا ہے اور میل ملاپ اور اکٹھے مل بیٹھنے کا رواج دم توڑ رہاہے۔
اس رواج کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کم خرچ بالا نشین والا طریقہ اختیار کیا جائے اور منہگائی کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے ون ڈش کا اہتمام کیاجائے۔
اس کے لیے یہ کیا جاسکتا ہے کہ سب خالاؤں اور پھوپھیوں کے نام کی پرچیاں ڈالی جائیں اور قرعہ اندازی کر لی جائے جس کے نام کا قرعہ نکلے، اس کے گھر پر مہینے کے ہر ایک ہفتے ون ڈش کا اہتمام کرلیاجائے اور سب مختلف ڈشز جن میں میٹھا اور نمکین شامل ہو، یہ چیزیں اپنے ساتھ لے کر ان کے گھر جایا جائے، اس طرح کسی ایک پر دعوت کا خرچ بھی نہیں پڑے گا اور نہ ہی کھانے کا انتظام کرنے کے لیے لمبی چوڑی محنت کرنی پڑے گی ۔ ایسے میں مل بیٹھ کر بات چیت کرنے اور حال احوال پوچھنے کا بھی موقع مل جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ہاتھوں کے مزے دار کھانے کھانے سے دعوت کا مزہ بھی دوبالا ہوجائے گا۔
ان دعوتوں میں اس بات کی بھی کوشش کی جائے کہ بچوں کے ساتھ وہ تمام پرانے کھیل کھیلے جائے جنھیں کھیل کر ہم بڑے ہوئے ہیں جیسے برف پانی،چھپن چھپائی، کھو کھو، لوٹو، جب یہ سارے کھیل آپ ان کے ساتھ کھیلیں گی تو انھیں احساس ہوگا کہ وہ پورا دن موبائل پر کارٹون دیکھنے کے علاوہ بھی یہ دل چسپ کھیل کھیل سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ انھیں کلر بکس دے کر کلرنگ کرنے کی بھی ترغیب دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے کزنز کے ساتھ مل کر ڈر ا ئنگ کریں تاکہ ان کی ڈرائنگ میں نکھار پیدا ہو۔
اس ون ڈش کا اہتمام کرنا تو یقیناً آسان ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ جس گھر میں اہتمام کیا جاتا ہے، ان کے گھر کے برتن اور ہر چیز استعمال کی جاتی ہے، اس لیے بہتر یہ ہے دعوت کے بعد اس بات کی کوشش کی جائے کہ سب مہمان مل کر استعمال شدہ برتن دھلوادیں، اس کے ساتھ ساتھ دسترخوان بھی سمیٹا جائے اور شام ہی ساتھ بتائی جائے، تاکہ ون ڈش کا سلسلہ چلتا رہے۔
جن کے گھر میں دعوت کی جائے۔ ان پر بھی بوجھ نہ ہو، وہ بھی یہ محسوس نہ کریں کہ بہتر تھا کہ ان کا نام قرعہ میں نہیں نکلتا اور جب ایک کو اچھا لگے گا تو پھر دوسرا خود آگے بڑھ کر کہے گا کہ قرعہ کی کوئی ضرورت نہیں، ہمارا گھر ون ڈش پارٹی کے لیے حاضر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب بچوں کے ساتھ مختلف کھیل کھیلے جائیں گے اور انھیں ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملے گا تو وہ بھی ون ڈش کے لیے پر جوش ہوں گے اور انھیں بھی سب کے ساتھ مل جل کر رہنے کی عادت ہوگی۔
اس کے علاوہ موبائل سے ان کی دوستی اور تعلق کم ہوجائے گا، کیوں کہ یہ موبائل کا بے تحاشا ہی استعمال ہے جس کے باعث دن بدن بچے غصہ کے تیز ہورہے ہیں، مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں اور ساتھ ساتھ تنہائی کا بھی شکار ہورہے ہیں، اس لیے ہمیں ون ڈش کو اپنی زندگی میں اس لیے بھی شامل کرنا ہوگا، تاکہ ہمارے بچے ذہنی اور جسمانی طور پر تن درست اور توانا ہوں اور اس کے لیے اتنی تو قربانی دینی ہی پڑے گی کہ ون ڈش پارٹی کے منصوبے کو تیار کرکے اپنے طور پر جس گھر میں اہتمام کیا گیا ہے، اس گھر والوں کی بھی مدد کی جائے، کیوں کہ اچھی زندگی کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔
تو پھر کیا خیال ہے؟ شروع کر رہی ہیں آپ سب ناں ون ڈش؟