پبلک ہے یہ سب جانتی ہے
بھارتی فلم ’روٹی‘ کا ایک ڈائیلاگ اور گانا بہت ہٹ ہوا تھا، ’اے بابو، پبلک ہے یہ، سب جانتی ہے‘۔۔۔۔
BENGHAZI:
بھارتی فلم 'روٹی' کا ایک ڈائیلاگ اور گانا بہت ہٹ ہوا تھا، 'اے بابو، پبلک ہے یہ، سب جانتی ہے'۔ فلم کی کہانی ایک غریب نوجوان منگل سنگھ (راجیش کھنہ) کے گرد گھومتی ہے۔ منگل سنگھ ابھی بچہ ہے، جب اُس کی ماں بھوک سے مر جاتی ہے۔ ماں کو بے بسی کے عالم میں مرتے دیکھ کر، منگل سنگھ کا دماغ پھر جاتا ہے۔ وہ باغی ہو جاتا ہے اور مجرم بن جاتاہے۔ ایک روز غیر ارادی طور پر اُس کے ہاتھوں خون ہو جاتا ہے۔ منگل سنگھ پکڑا جاتا ہے اور اس کو سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے۔ لیکن، جیسا کہ فلموں میں ہوتا ہے، منگل سنگھ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور چھُپتا چھُپاتا ایک سرحدی گاؤں میں جا پہنچتا ہے۔ یہاں اُس کی ملاقات ایک الہڑ لڑکی بجلی (ممتاز) سے ہوتی ہے۔ منگل سنگھ کو بجلی سے پیار ہو جاتا ہے، اور وہ وہیں اسکول ٹیچر بن کر بچوں کو پڑھانا شروع کر دیتا ہے۔ 'روٹی' اپنے زمانے کی ہٹ فلم تھی، لیکن آج یہ فلم اور راجیش کھنہ کا یہ ہٹ ڈائیلاگ ' پبلک ہے یہ، سب جانتی ہے' ملکی انتخابی مہم کو دیکھ کر یاد آ رہا ہے۔ ہر سُو نعروں کی بہار ہے۔
اشتہارات کی بھر مار ہے۔ نوع بہ نوع نغمے اور ترانے ہیں۔پارٹی امیدوار روزانہ لوگوں کا ایک ریوڑ اکٹھا کرتے ہیں، پھر اُس کو جلسہ گاہ ہانک لے جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک ہیلی کاپٹر اُترتا ہے۔ اُس میں سے پارٹی لیڈر برآمد ہوتا ہے۔ 'میں نے یہ کیا، میں یہ کروں گا' پر مشتمل بھاشن دیتا ہے۔ زندہ باد، مردہ باد کے نعروں پر ہجوم جھومتا ہے۔ پھر لیڈر بھی تھک جاتا ہے اور ہجوم بھی۔ ہیلی کاپٹر پارٹی لیڈر کو لے کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ پیچھے رہ جانے والا ہجوم مُڑتا ہے، اور ایک بار پھر کچی پکی گلیوں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور نئے پرانے، چھوٹے بڑے مکانوں میں گم ہو جاتا ہے۔ جلسہ گاہ پہلے کی طرح بچوں کے لیے کھیل کا میدان بن جاتی ہے۔ لیکن یہ صرف جلسے جلوسوں پر موقوف نہیں، اخباری تجزیوں اور کالموں، ٹاک شوز اور انتخابی پروگراموں میں بھی آپا دھاپی کا عالم ہے۔ تعجب یہ ہے کہ وہ سروے کار ادارے، جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کی بنیاد صرف اور صرف تحقیق پر ہے، وہ بھی انتخابی میدان میں کود چُکے ہیں۔ ایک سروے، ایک پارٹی کی کامیابی کو امر مسلمہ، تو دوسرا سروے دوسری پارٹی کی کامیابی کو یقینی قرار دیتا ہے۔ گویا، تجزیوں، کالموں، ٹاک شوز، انٹرویوز اور مقبولیت سروے کی لُوٹ سیل لگی ہے۔
اخباری کالم نگاروں پر جائیں تو آپ پر 'انکشاف' ہو گا کہ پیپلز پارٹی، ق لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، اور جمعیت علمائے اسلام کا نام و نشان نہیں۔ تحریک ِانصاف، نوجوانوں کی مقبول ترین پارٹی بن چُکی، لیکن صرف اکا دکا کالم نگار ہیں، جو اُس کی انتخابی طاقت کو تسلیم کرنے پر تیار ہیں۔ کالموں میں صرف ن لیگ کا پھریرا لہرا رہا ہے۔ ٹی وی اینکروں کو سنیں تو یہاں بھی صرف چند پارٹیاں ہیں، ن لیگ، ایم کیو ایم، تحریک انصاف یا پھر 'شیخ رشید احمد' ۔ معلوم ہوتا ہے، صرف یہی چار پارٹیاں الیکشن لڑ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی، ق لیگ، اے این پی، جے یو آئی اور جماعت ِاسلامی کا تذکرہ برائے نام، یا پھر اُس وقت، جب ان کو بُرا بھلا کہنا مطلوب ہو۔
ملکی اور غیر ملکی سروے رپورٹیں ہوں، یا مکتوبات، مضحکہ خیز حد تک یکطرفہ ہیں۔ گیلپ کے ہر سروے میں ن لیگ کا گراف اوپر سے اوپر اور پیپلز پارٹی، ق لیگ اور تحریک انصاف کا گراف نیچے سے نیچے جا رہا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا نقصان ن لیگ کو پہنچے گا، لیکن سروے جاری ہوتا ہے کہ نہیں، تحریک انصاف کی مقبولیت کا نقصان پیپلز پارٹی کو ہو گا۔ لُطف یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں 'اکنامسٹ' کی رپورٹ میں ن لیگ کی کامیابی اور پیپلز پارٹی، ق لیگ اور تحریک ِ انصاف کی ناکامی کی 'پیش گوئی' کی گئی۔ مکتوب نگار، جو بہرحال یہیں کے ہیں، کی طرف سے 'پیپلز پارٹی حکومت' کے پا نچ سال پورے کرنے کا کریڈٹ بھی غیر منطقی طور پر ن لیگ کو دیا گیا، حالانکہ کون نہیں جانتا کہ ن لیگ نے 2011 ء کے آخر میں 'پیپلز پارٹی حکومت' کے خاتمہ کے لیے بھرپور کوشش کی، لیکن پیپلز پارٹی، ق لیگ اتحاد کے باعث حکومت آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گئی۔عام انتخابات میں ابھی چند دن ہیں، لہٰذا، اندازہ یہ ہے کہ سروے اور رپورٹوں کا یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔
وجوہات جو بھی ہوں، نظر بظاہر یہ آ رہا ہے کہ ملکی اور غیرملکی میڈیا کی تمام تر توجہ لاہور، کراچی اور راولپنڈی، اسلام آباد پر ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ یہی چار شہر، ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے مراکز ہیں۔ ان شہروں کی غیر معمولی اہمیت اپنی جگہ، لیکن پورا ملک بہرحال یہ نہیں ہیں۔ عملی طور پر صرف 15% انتخابی معرکہ ان شہروں میں ہوتا ہے۔ 85% انتخابی معرکہ ان ضلعوں میں برپا ہوتا ہے، جہاں کی شہری سیاست بھی، حقیقتاً وہاں کی دیہی سیاست کی وسعت پذیر صورت ہوتی ہے گجرات، چکوال، نواب شاہ، لاڑکانہ وغیرہ کی 'شہری سیاست' لاہور، کراچی اور راولپنڈی، اسلام آباد کی 'شہری سیاست' میں کوئی مماثلت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد کی بنیاد پر جاری ہونے والے انتخابی جائزے روزِ انتخاب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ہر طرف 'اپ سیٹ ہو گیا، اپ سیٹ ہو گیا' کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ حقیقتاً، یہ اپ سیٹ نہیں ہوتا۔ ہاں، ان تجزیہ کاروں کے لیے یہ ضرور اپ سیٹ ہوتا ہے، جو صرف لاہور، کراچی اور راولپنڈی، اسلام آباد کی انتخابی فضا میں سانس لے رہے ہوتے ہیں۔
حالانکہ، یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ انتخابی جنگ کا فیصلہ15% ایریا میں نہیں، 85% ایریا میں ہونا ہے۔ صرف چند مثالیں، 1988ء میں لاہور اور راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کی انتخابی مقبولیت نقطہ عروج پر تھی۔ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر 10 لاکھ لوگوں نے صوبائی دارالحکومت میں اُن کا استقبال کیا۔ لیکن، چونکہ پنجاب کی دیہی سیاست میں انتخابی اتحاد 'آئی جے آئی' کی گرفت مضبوط تھی۔ نتیجتاً، پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت نہ بنا سکی۔1993ء میں نواز شریف لاہور میں مقبولیت کی معراج پر تھے۔ لیکن، چونکہ پنجاب کی دیہی سیاست میں انتخابی 'پی ڈی ا ے' موثر ثابت ہوا۔ نتیجتاً، ن لیگ، پنجاب میں حکومت نہ بنا سکی۔2002ء میں ق لیگ، پنجاب کی دیہی سیاست میں سبقت لے گئی، نتیجتاً، لاہور میں ہار کے علی الرغم، پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔2008ء میں بھی دیہی سیاست میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ کا پلہ بھاری رہا تھا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اتحاد کے بعد ہی پنجاب میں حکومت بن سکی تھی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ن لیگ کی انتخابی طاقت سے انکار نہیں، لیکن جو لوگ، صرف لاہور، کراچی اور راولپنڈی کی بنیاد پر پیپلز پارٹی، ق لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کے خاتمہ اور آیندہ وزیر اعظم کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں، یہ خلاف ِ واقعہ ہیں۔ یہ پارٹیاں اور اُن کی لیڈرشپ، عوام میں گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ بعینہ، تحریک ِانصاف، اب صرف سوشل میڈیا پارٹی نہیں رہی۔ پیپلز پارٹی، ق لیگ، جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم کی طرح انتخابی طاقت ہے۔ میڈیا اور سروے پالیٹکس اپنی جگہ، لیکن عرض یہ ہے کہ کون جیتے گا، کون ہارے گا، یہ فیصلہ اخباری صفحات اور کالموں، یا ٹی وی اسکرین اور ٹاک شوز میں نہیں، بلکہ لاہور اور کراچی سے باہر حلقہ درحلقہ پھیلی انتخابی سیاست میں ہونا ہے، اور 'اے بابو، پبلک ہے یہ، سب جانتی ہے۔
بھارتی فلم 'روٹی' کا ایک ڈائیلاگ اور گانا بہت ہٹ ہوا تھا، 'اے بابو، پبلک ہے یہ، سب جانتی ہے'۔ فلم کی کہانی ایک غریب نوجوان منگل سنگھ (راجیش کھنہ) کے گرد گھومتی ہے۔ منگل سنگھ ابھی بچہ ہے، جب اُس کی ماں بھوک سے مر جاتی ہے۔ ماں کو بے بسی کے عالم میں مرتے دیکھ کر، منگل سنگھ کا دماغ پھر جاتا ہے۔ وہ باغی ہو جاتا ہے اور مجرم بن جاتاہے۔ ایک روز غیر ارادی طور پر اُس کے ہاتھوں خون ہو جاتا ہے۔ منگل سنگھ پکڑا جاتا ہے اور اس کو سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے۔ لیکن، جیسا کہ فلموں میں ہوتا ہے، منگل سنگھ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور چھُپتا چھُپاتا ایک سرحدی گاؤں میں جا پہنچتا ہے۔ یہاں اُس کی ملاقات ایک الہڑ لڑکی بجلی (ممتاز) سے ہوتی ہے۔ منگل سنگھ کو بجلی سے پیار ہو جاتا ہے، اور وہ وہیں اسکول ٹیچر بن کر بچوں کو پڑھانا شروع کر دیتا ہے۔ 'روٹی' اپنے زمانے کی ہٹ فلم تھی، لیکن آج یہ فلم اور راجیش کھنہ کا یہ ہٹ ڈائیلاگ ' پبلک ہے یہ، سب جانتی ہے' ملکی انتخابی مہم کو دیکھ کر یاد آ رہا ہے۔ ہر سُو نعروں کی بہار ہے۔
اشتہارات کی بھر مار ہے۔ نوع بہ نوع نغمے اور ترانے ہیں۔پارٹی امیدوار روزانہ لوگوں کا ایک ریوڑ اکٹھا کرتے ہیں، پھر اُس کو جلسہ گاہ ہانک لے جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک ہیلی کاپٹر اُترتا ہے۔ اُس میں سے پارٹی لیڈر برآمد ہوتا ہے۔ 'میں نے یہ کیا، میں یہ کروں گا' پر مشتمل بھاشن دیتا ہے۔ زندہ باد، مردہ باد کے نعروں پر ہجوم جھومتا ہے۔ پھر لیڈر بھی تھک جاتا ہے اور ہجوم بھی۔ ہیلی کاپٹر پارٹی لیڈر کو لے کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ پیچھے رہ جانے والا ہجوم مُڑتا ہے، اور ایک بار پھر کچی پکی گلیوں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور نئے پرانے، چھوٹے بڑے مکانوں میں گم ہو جاتا ہے۔ جلسہ گاہ پہلے کی طرح بچوں کے لیے کھیل کا میدان بن جاتی ہے۔ لیکن یہ صرف جلسے جلوسوں پر موقوف نہیں، اخباری تجزیوں اور کالموں، ٹاک شوز اور انتخابی پروگراموں میں بھی آپا دھاپی کا عالم ہے۔ تعجب یہ ہے کہ وہ سروے کار ادارے، جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کی بنیاد صرف اور صرف تحقیق پر ہے، وہ بھی انتخابی میدان میں کود چُکے ہیں۔ ایک سروے، ایک پارٹی کی کامیابی کو امر مسلمہ، تو دوسرا سروے دوسری پارٹی کی کامیابی کو یقینی قرار دیتا ہے۔ گویا، تجزیوں، کالموں، ٹاک شوز، انٹرویوز اور مقبولیت سروے کی لُوٹ سیل لگی ہے۔
اخباری کالم نگاروں پر جائیں تو آپ پر 'انکشاف' ہو گا کہ پیپلز پارٹی، ق لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، اور جمعیت علمائے اسلام کا نام و نشان نہیں۔ تحریک ِانصاف، نوجوانوں کی مقبول ترین پارٹی بن چُکی، لیکن صرف اکا دکا کالم نگار ہیں، جو اُس کی انتخابی طاقت کو تسلیم کرنے پر تیار ہیں۔ کالموں میں صرف ن لیگ کا پھریرا لہرا رہا ہے۔ ٹی وی اینکروں کو سنیں تو یہاں بھی صرف چند پارٹیاں ہیں، ن لیگ، ایم کیو ایم، تحریک انصاف یا پھر 'شیخ رشید احمد' ۔ معلوم ہوتا ہے، صرف یہی چار پارٹیاں الیکشن لڑ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی، ق لیگ، اے این پی، جے یو آئی اور جماعت ِاسلامی کا تذکرہ برائے نام، یا پھر اُس وقت، جب ان کو بُرا بھلا کہنا مطلوب ہو۔
ملکی اور غیر ملکی سروے رپورٹیں ہوں، یا مکتوبات، مضحکہ خیز حد تک یکطرفہ ہیں۔ گیلپ کے ہر سروے میں ن لیگ کا گراف اوپر سے اوپر اور پیپلز پارٹی، ق لیگ اور تحریک انصاف کا گراف نیچے سے نیچے جا رہا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کا نقصان ن لیگ کو پہنچے گا، لیکن سروے جاری ہوتا ہے کہ نہیں، تحریک انصاف کی مقبولیت کا نقصان پیپلز پارٹی کو ہو گا۔ لُطف یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں 'اکنامسٹ' کی رپورٹ میں ن لیگ کی کامیابی اور پیپلز پارٹی، ق لیگ اور تحریک ِ انصاف کی ناکامی کی 'پیش گوئی' کی گئی۔ مکتوب نگار، جو بہرحال یہیں کے ہیں، کی طرف سے 'پیپلز پارٹی حکومت' کے پا نچ سال پورے کرنے کا کریڈٹ بھی غیر منطقی طور پر ن لیگ کو دیا گیا، حالانکہ کون نہیں جانتا کہ ن لیگ نے 2011 ء کے آخر میں 'پیپلز پارٹی حکومت' کے خاتمہ کے لیے بھرپور کوشش کی، لیکن پیپلز پارٹی، ق لیگ اتحاد کے باعث حکومت آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گئی۔عام انتخابات میں ابھی چند دن ہیں، لہٰذا، اندازہ یہ ہے کہ سروے اور رپورٹوں کا یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔
وجوہات جو بھی ہوں، نظر بظاہر یہ آ رہا ہے کہ ملکی اور غیرملکی میڈیا کی تمام تر توجہ لاہور، کراچی اور راولپنڈی، اسلام آباد پر ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ یہی چار شہر، ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے مراکز ہیں۔ ان شہروں کی غیر معمولی اہمیت اپنی جگہ، لیکن پورا ملک بہرحال یہ نہیں ہیں۔ عملی طور پر صرف 15% انتخابی معرکہ ان شہروں میں ہوتا ہے۔ 85% انتخابی معرکہ ان ضلعوں میں برپا ہوتا ہے، جہاں کی شہری سیاست بھی، حقیقتاً وہاں کی دیہی سیاست کی وسعت پذیر صورت ہوتی ہے گجرات، چکوال، نواب شاہ، لاڑکانہ وغیرہ کی 'شہری سیاست' لاہور، کراچی اور راولپنڈی، اسلام آباد کی 'شہری سیاست' میں کوئی مماثلت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد کی بنیاد پر جاری ہونے والے انتخابی جائزے روزِ انتخاب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ہر طرف 'اپ سیٹ ہو گیا، اپ سیٹ ہو گیا' کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ حقیقتاً، یہ اپ سیٹ نہیں ہوتا۔ ہاں، ان تجزیہ کاروں کے لیے یہ ضرور اپ سیٹ ہوتا ہے، جو صرف لاہور، کراچی اور راولپنڈی، اسلام آباد کی انتخابی فضا میں سانس لے رہے ہوتے ہیں۔
حالانکہ، یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ انتخابی جنگ کا فیصلہ15% ایریا میں نہیں، 85% ایریا میں ہونا ہے۔ صرف چند مثالیں، 1988ء میں لاہور اور راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کی انتخابی مقبولیت نقطہ عروج پر تھی۔ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر 10 لاکھ لوگوں نے صوبائی دارالحکومت میں اُن کا استقبال کیا۔ لیکن، چونکہ پنجاب کی دیہی سیاست میں انتخابی اتحاد 'آئی جے آئی' کی گرفت مضبوط تھی۔ نتیجتاً، پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت نہ بنا سکی۔1993ء میں نواز شریف لاہور میں مقبولیت کی معراج پر تھے۔ لیکن، چونکہ پنجاب کی دیہی سیاست میں انتخابی 'پی ڈی ا ے' موثر ثابت ہوا۔ نتیجتاً، ن لیگ، پنجاب میں حکومت نہ بنا سکی۔2002ء میں ق لیگ، پنجاب کی دیہی سیاست میں سبقت لے گئی، نتیجتاً، لاہور میں ہار کے علی الرغم، پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔2008ء میں بھی دیہی سیاست میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ کا پلہ بھاری رہا تھا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اتحاد کے بعد ہی پنجاب میں حکومت بن سکی تھی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ن لیگ کی انتخابی طاقت سے انکار نہیں، لیکن جو لوگ، صرف لاہور، کراچی اور راولپنڈی کی بنیاد پر پیپلز پارٹی، ق لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کے خاتمہ اور آیندہ وزیر اعظم کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں، یہ خلاف ِ واقعہ ہیں۔ یہ پارٹیاں اور اُن کی لیڈرشپ، عوام میں گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ بعینہ، تحریک ِانصاف، اب صرف سوشل میڈیا پارٹی نہیں رہی۔ پیپلز پارٹی، ق لیگ، جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم کی طرح انتخابی طاقت ہے۔ میڈیا اور سروے پالیٹکس اپنی جگہ، لیکن عرض یہ ہے کہ کون جیتے گا، کون ہارے گا، یہ فیصلہ اخباری صفحات اور کالموں، یا ٹی وی اسکرین اور ٹاک شوز میں نہیں، بلکہ لاہور اور کراچی سے باہر حلقہ درحلقہ پھیلی انتخابی سیاست میں ہونا ہے، اور 'اے بابو، پبلک ہے یہ، سب جانتی ہے۔