12 مئی کی تیاریاں
12 مئی کو الیکشن ہارنے والی تمام جماعتیں یک جاں اور یک آواز ہوکر احتجاجی پریس کانفرنس کرتی دکھائی دیں گی۔۔۔
الیکشن کون جیتے گا اور اگلے پانچ سال کے لیے کس کے سر اقتدار کا ہما بیٹھے گا، یہ تو ابھی تک کسی کو معلوم نہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ 12 مئی کو الیکشن ہارنے والی تمام جماعتیں یک جاں اور یک آواز ہوکر احتجاجی پریس کانفرنس کرتی دکھائی دیں گی۔ ان میں سے ایک آواز اس پارٹی کی بھی ہو سکتی ہے جسے مکمل پانچ سالہ اقتدار نصیب ہوا لیکن وہ عوام کے لیے سکھ و چین فراہم کرنے کے بجائے انھیں مزید عذاب میں مبتلا کرتی رہی اور لوگوں کی فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ پیش نہ کرسکی۔ اپنے پورے دور میں صرف ایک اہم کام بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہ کرسکی بلکہ اس میں کئی گنا اضافے کا ضرور سبب بنی رہی۔
پارٹی رہنماؤں اور خود حکومت کے دعوؤں کے برعکس یہ لوڈ شیڈنگ 2012 میں بھی ختم نہ ہو پائی اور قوم 11 مئی کو جب ووٹ ڈالنے سخت گرمی میں پولنگ اسٹیشن کا رخ کرے گی تو اپنے ان محسنوں کو ضرور یا د رکھے گی جنھوں نے پورے پانچ سال ضایع کردیے اور کوئی قابلِ ذکر منصوبہ نہ پیش کرسکے۔ تمام عرصہ خود ساختہ بحرانوں میں مبتلا رہے اور اپنے خلاف تخیلاتی سازشوں کا شور ڈالتے رہے۔ ابھی چند دن پہلے صوبہ سند ھ کے تمام سابقہ اتحادی ایک بار پھر متحد اور یکجا ہو کر مشترکہ پریس کانفرنس کرتے اپنے خلاف نامعلوم سازشوں کا بڑا شور کررہے تھے اور ملک کے اندر طالبان حمایتی وزیراعظم کی آمد کی پیش گوئیاں کررہے تھے۔ سب سے سرگرم ان میں سابقہ وفاقی وزیر داخلہ تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی آج کل کوئی بڑا سیاسی مجمع لگانے سے کچھ زیادہ ہی خوفزدہ ہے، اس لیے اس کے بعض رہنمائوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ایم کیو ایم کے جانبازوں کے حفاظتی دستوں کے سائے میں اس سے بہتر موقع کوئی اور مل بھی نہیں سکتا تھا، جہاں ان کے پانچ سالہ کارناموں پر کوئی سوال کرنے والا نہ تھا اور کوئی بے چین و مضطرب مجمع بھی موجود نہ تھا۔ لہٰذا انھوں نے بڑے آرام سے اپنا مدعا بیان کردیا۔ اگلے انتخابات میں اپنی ممکنہ شکست کو بھانپتے ہوئے بڑی ہوشیاری اور دانشمندی سے انھوں نے سارا الزام ملک کی ایجنسیوں پر ڈال دیا کہ وہ ایک ایسا وزیراعظم لانا چاہتے ہیں جو طالبان کا ساتھی اور دوست ہو۔ یہی بات ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی بڑے پرزور انداز میں کہی اور وہ یقیناً یہ بات اپنے قائد کی مرضی و منشا کے بغیر نہیں کررہے ہوں گے، کیونکہ ایم کیو ایم میں کوئی بھی شخص اپنے طور پر اتنا اہم پالیسی بیان نہیں دے سکتا۔
اپنے ملک کی ایجنسیوں پر الزام لگانا کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہے کہ جسے محض زبان پھسل گئی یا جوش خطابت میں بپھرے ہوئے جذباتی نوجوان کی سحر انگیزی سمجھ لیا جائے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم، اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اس مشترکہ پریس کانفرنس کو ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے پاکستان کی فوج کے ساتھ اپنے مکمل تعاون اور حمایت کا یقین دلاتے ہوئے چیف آف آرمی کے ایک روز قبل کی جانے والی تقریر کو بہت اہم اور خوش آیند قرار دے رہے تھے اور ان کی تقریر کے اندر چھپے ہوئے خفیہ پیغام کو قوم کے لیے ایک پیشگی وارننگ اور تنبیہہ کے معنی پہنا رہے تھے۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ الطاف حسین کے بیان کو پارٹی پالیسی بیان سمجھا جائے یا ایک روز قبل ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کے پریس کانفرنس میں ایجنسیوں پر لگائے گئے الزامات کو۔
الیکشن کا معرکہ جوں جوں قریب آتا جارہا ہے سیاسی جوش و خروش اتنا ہی بڑھتا جارہا ہے۔ چاروں صوبوں میں پنجاب ہی ایک ایسا صوبہ ہے جہاں انتخابی سرگرمیاں اپنے عروج پر معلوم ہورہی ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے عمران خان کی تمام تر دلچسپیاں اور امیدیں اسی صوبے سے وابستہ ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) پہلے سے ایک مضبوط حریف کی حیثیت سے موجود تھی، شاید اسی لیے انھوں نے اپنی سیاسی لڑائی میں اصل ہدف مسلم لیگ (ن) ہی کو بنالیا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی تمام پانچ سالہ کارکردگی کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف میاں برادران ہی کو اپنی سیاسی تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
عمران خان کو ملک کے اندر جس انقلابی تبدیلی کی لہر گزشتہ دو سال سے دکھائی دے رہی ہے اور جس سونامی کی آمد کی توقع انھیں تمام ملکی اور غیر ملکی سروے اور اندازوں کے برخلاف تاحال قائم ہے اگر وہ پوری نہ ہوسکیں تو12 مئی کو وہ بھی اسی ایک گروپ کے فریق بن کر الیکشن میں مبینہ دھاندلی کا شور مچا رہے ہوں گے جس گروپ نے ابھی سے یہ شوشا چھوڑنا شروع کردیا ہے اور خفیہ سازشوں کا ذکر بڑے شد و مد کے ساتھ کرنے لگے ہیں۔ 11 مئی کو اپنی ممکنہ شکست کے تمام امیدوار انتخابات میں بھرپور سیاسی مہم چلانے، جلسے کرنے اور عوام کے سامنے جانے کے بجائے روزانہ پریس کانفرسوں میں مشغول ہیں، لگتا ہے وہ 12 مئی کو اپنے پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے لیے اس دن کا سورج کون سی خوش خبری لاتا ہے اور وہ اپنی نئی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے اپنے مخالفوں کا کام تمام کردیتے ہیں یا اپنی پیدا کردہ سونامی کی تباہ کاریوں کا خود ہی شکار ہو کر شام غریباں میں اپنے ہمنواؤں کے ساتھ آہ و فغاںکرتے دکھائی دیتے ہیں؟