سخت ضابطہ اخلاق کے باعث امیدواروں کی الیکشن مہم ماند پڑ گئی
تشہیری قانون کیخلاف لگائے جانیوالے بینرزاوراسٹیمرزانتظامیہ فوراً اتاردیتی ہے
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے عوامی، تشہیری اور انتخابی رابطہ مہم کا ضابطہ اخلاق''سخت'' ہونے کے سبب کراچی میں سیاسی مذہبی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی الیکشن مہم اور سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں۔
2002 ، 2008 اور 2013 کے کراچی میں ہونے والے عام انتخابات کی الیکشن مہم کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان انتخابات کی الیکشن مہم کا انتخابی اور تشہیری ضابطہ اخلاق الیکشن کمیشن کی جانب سے اتنا سخت نہیں تھا جو 2018 کے عام انتخابات کے لیے ہے عام انتخابات 25 جولائی کو ہوں گے انتخابات کے آغاز میں 3 ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے کراچی میں انتخابی سرگرمیاں مکمل طور پر ماند پڑی ہوئی ہیں۔
شہر کے بیشتر علاقوں میں سیاسی مذہبی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی بھرپور انتخابی اور اشتہاری مہم نظر نہیں آرہی، شہر کے بیشتر علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور امیدواروں کی معلومات کے حوالے سے پوسٹرز ، بینرز اور اسٹیمرز نظر نہیں آرہے جس کی وجہ سے اشتہاری مہم کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کام شدید متاثر ہوا ہے الیکشن کمیشن کا انتخابی اور تشہیری ضابطہ اخلاق سخت ہونے اور انتظامیہ کی جانب سے اس پر موثر عمل درآمد کرانے کے سبب کراچی میں انتخابات کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑی ہیں۔
سیاسی اور مذہبی جماعتوں سمیت آزاد امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے اور عوام سے رابطوں میں مشکلات کا سامنا ہے شہر میں بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اپنے امیدواروں کے حلقوں میں موثر انتخابی مہم اس اند از میں نہیں چلائی جارہی ہے جس طرح ماضی میں ہوا کرتی تھی شہر کی سڑکوں اور اہم مقامات پر تشہیری مہم کے تحت ہوڈنگز ، پینا فلیکس اور جھنڈے لگانے پر پابندی کے سبب کراچی میں عام انتخابات کا ماحول نظر نہیں آرہا ہے۔
اس حوالے سے سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کررہی ہیں، پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی نے ایکسپریس کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اس بار عام انتخابات کے لیے عوامی ، تشہیری اور انتخابی رابطہ مہم کا ضابطہ اخلاق اتنا سخت مرتب کیا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی اور انتظامیہ اس پر مکمل عمل درآمد کرارہی ہے انھوں نے کہا کہ جب سیاسی جماعتوں کو جھنڈے اپنے امیدواروں کے کوائف سامنے لانے کے لیے تشہیری مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو پھر شہریوں کو کیسے معلوم ہو گا کہ کس حلقے میں کون سا امیدوار ہے اور کس جماعت کی حلقے میں پوزیشن واضح ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان پابندیو ں کی وجہ سے کراچی میں الیکشن کی سرگرمیاں ماند پڑی ہیں الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق پر نظرثانی کرے ، ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان امین الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ ایم کیو ایم کو تو انتخابی چلانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے رابطہ اور تشہیری مہم کا ضابطہ اخلاق سخت ہونے کی وجہ سے کراچی میں الیکشن کی سرگرمیاں ماضی کی بنسبت کم دکھائی دے رہی ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی کے رہنما وسیم آفتاب نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق سخت تو ہے لیکن اس سے فائدہ یہ ہوا ہے کہ غریب آدمی اور جماعتوں کو الیکشن کے لیے رابطہ مہم چلانے میں آسانی ہوگئی ہے انھوں نے کہا کہ وہی جماعت کامیاب ہو گی جو ووٹرز سے گھر گھر جاکر رابطے کرے گی، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے ایکسپریس کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی ضابطہ اخلاق سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بنانا چاہیے انھوں نے کہا کہ کراچی میں وہی جماعت کامیاب ہو گی جو عوام سے رابطے میں ہو گی۔
مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ اور لیگی رہنما عبدالحمید بٹ نے ایکسپریس کو بتایا کہ انتخابی ضابطہ اخلاق سے ایسا لگ رہا ہے کہ الیکشن نہیں سلیکشن ہوگا انھوں نے الزام عائد کیا کہ شہر میں صرف پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے کئی جماعتوں کو انتخابات لڑنے سے روکا جا رہا ہے، اے این پی سندھ کے جنرل سیکریٹری نے ایکسپریس کو بتایا کہ ضابطہ اخلاق سخت ہونے کی وجہ سے کراچی میں الیکشن کا ماحول نظر نہیں آرہا دعا گو ہیں کہ الیکشن شفاف اور میرٹ پر ہوں۔
تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس الزام کی تردید کی کہ صرف ہمیں شہر قائد میں الیکشن مہم چلانے کی اجازت ہے انھوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق سب کے لیے ہے انھوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق پر نظر ثانی کی ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا دعوی ہے کہ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق جو بھی ہو ہم کراچی سے الیکشن میں کامیابی حاصل کریں گے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ انتظامیہ ہمیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت نہیں دے رہی جس علاقے میں تشہیری مہم کے تحت قانون کے مطابق بینرز یا اسٹیمرز لگائے جاتے ہیں انتظامیہ انہیں ہٹادیتی ہے۔
سیاسی جماعتیں تجربہ کار پولنگ ایجنٹ تلاش کرنے لگیں
کراچی میں ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد ہونے والے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو پہلی بار قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں موجود پولنگ اسٹیشنوں کے لیے بڑے پیمانے پر پولنگ ایجنٹس کی ضرورت ہوگی پولنگ ایجنٹس کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان ، پی ایس پی ، متحدہ مجلس عمل اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اپنی حکمت عملی بنالی ہے تاہم آزاد امیدواروں کو پہلی بار بڑے پیمانے پر پولنگ ایجنٹس کے حصول کے لیے محنت کرنا پڑرہی ہے اور اس کے لیے یہ جماعتیں اور آزاد امیدوار پڑھے لکھے نوجوانوں کو ایک روز ( 25 جولائی ) کے لیے تلاش کررہے ہیں پولنگ ایجنٹس کے لیے وہ نوجوان انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جو ماضی میں الیکشن کے کام کا تجربہ رکھتے ہیں ان نوجوانوں کو بطور پولنگ ایجنٹ ایک روز کا معاوضہ 3 سے 5 ہزار روپے تک دیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ خواتین پولنگ ایجنٹس کے حصول کے لیے تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہیں اور سیاسی جماعتوں کی کوشش ہے کہ انتخابی عمل کا تجربہ رکھنے والی خواتین سمیت ان طالبات کی خدمات حاصل کی جائیں جو منظم انداز میں پولنگ ایجنٹ کا کام کر سکیں خواتین پولنگ ایجنٹس کو تین سے چھ ہزار روپے تک دیا جا سکتا ہے۔
مختلف قومیتوں سمیت پختون برادری والے مضافاتی علاقوں میں پولنگ ایجنٹس کا کام کرنے والی خواتین کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ ان حلقوں میں الیکشن کے کام کا تجربہ پڑھی لکھی خواتین کا ملنا مشکل ہے۔
الیکشن سرگرمیوں کیلیے سیاسی جماعتوں نے متبادل حکمت عملی اختیارکرلی
لیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کی رابطہ اور تشہیری مہم کا ضابطہ اخلاق سخت اور اس پر موثر عمل درآمد ہونے کے سبب شہر میں الیکشن سرگرمیوں کے لیے سیاسی جماعتوں نے متبادل حکمت عملی اختیارکرلی ہے اس متبادل حکمت عملی کے تحت سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے شہر میں تشہیری مہم کے بجائے حلقوں میں مقامی سطح پر عمائدین علاقہ سے رجوع کر لیا ہے۔
اس متبادل حکمت عملی کے تحت سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں علاقوں کی اہم مذہبی اور سماجی شخصیات کے علاوہ مختلف برادریوں کے عمائدین سے رابطے کررہے ہیں اور ان سے ووٹ کے حصول کے لیے درخواست کی جارہی ہے اس کے لیے ان امیدواروں کی جانب سے عمائدین علاقہ اور اہم شخصیات کے مہمان خانوں اوطاق ، بیٹھک ، حجرہ ، ڈرائنگ رومز میں انتخابی مہم کے لیے عوام سے رابطے کیے جارہے ہیں۔
انتخابی امیدواروں نے تشہیری ٹرک حاصل کر لیے
سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے انتخابی مہم کا ضابطہ اخلاق سخت ہونے کے سبب حلقوں میں اپنی سیاسی پوزیشن واضح کرنے کے لیے خصوصی تشہیری گاڑیاں متعارف کرا دی ہیں یہ خصوصی تشہیری گاڑیاں چھوٹے لوڈنگ ٹرکس پر بنائی گئی ہیں ان گاڑیوں کے پچھلے حصے پر خصوصی ہوڈنگز رکھے گئے ہیں جن پر سیاسی امیدواروں کے اور انتخابی منشور کو اجاگر کیا گیا ہے یہ گاڑیاں رات کے اوقات میں مختلف حلقوں میںگھوم کر امیدواروں کی انتخابی مہم چلانے میں معاون ثابت ہورہی ہیں یہ گاڑیاں الکرم اسکوائر لیاقت آباد پر خصوصی طور پر تیار کی جارہی ہیں ان کا الیکشن مہم کا کرایہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے۔
دوسری جانب سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے اپنی انتخابی رابطہ مہم کے لیے بڑے پیمانے پر ضابطہ اخلاق کے مطابق چھوٹے بینرز، پمفلٹ اور ہینڈ بل تیار کرالیے ہیں اور مزید تیار کرائے جارہے ہیں یہ ہینڈ بل گھر گھر جاکر تقسیم کیے جارہے ہیں ہینڈ بل پر سیاسی جماعتوں کا منشور، امیدواروںکا تعارف اور انتخابی مواد کو اجاگر کیا گیا ہے۔
پولنگ کارڈز کی چھپائی شروع ہوگئی 20 جولائی سے گھر گھر تقسیم ہونگے
سیاسی اور مذہبی جماعتوں سمیت آزاد امیدواروں نے پولنگ کارڈز کی پرنٹنگ کے لیے آرڈرز دے دیے ہیں ان پولنگ کارڈز کی تیاری کے بعد پولنگ اسٹیشنوں کے مطابق ان کو بھرنے کا کام شروع کر دیا جائے گا یہ کارڈ 20 جولائی کے بعد گھر گھر تقسیم کیے جائیں گے ان پولنگ کارڈز پر ووٹر کا نام اور دیگر معلومات درج ہوں گی ان پولنگ کارڈز کی تیاری کے لیے کارکنوں کو ذمے داریاں تفویض کردی گئی ہیں جبکہ آزاد امیدوار پڑھے لکھے نوجوانوں کی خدمات حاصل کررہے ہیں تاہم یہ مرحلہ تمام جماعتوں کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
حلقوں کے مقامی کارکن اور رہنما اہمیت اختیار کرگئے
الیکشن مہم کا ضابطہ اخلاق سخت ہونے کے سبب انتخابی رابطوں کے لیے سیاسی جماعتوںکے مقامی کارکن اہمیت اختیار کرگئے ہیں اہم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت اور امیدوار مختلف حلقوں میں اپنی سیاسی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے یونین کمیٹی یا کونسل کی سطح کے ذمے داروں اور کارکنوں سے رابطوں میں ہیں ان مقامی رہنماؤں او رکارکنوں کے ذریعہ گھر گھر انتخابی مہم چلانے کیلیے سربراہوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں حلقے میں جس علاقائی ذمے دار رہنما اور کارکن کی سیاسی اہمیت ہے وہ سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ان کے امیدواروں کا منظور نظر ہے۔
انتخابی مہم : چائے خانوں اور ریستورانوں کا کاروبار بڑھ گیا
کراچی میں الیکشن قریب آتے ہی مختلف حلقوں میں چائے خانوں، ریسٹورینٹس اور دیگر پیشوں سے منسلک افراد کا کاروبار چمک اٹھا ہے حلقوں میں عوامی رابطہ مہم کے لیے سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو سب سے زیادہ ضرورت ڈیکوریشن والوں کی ہے علاقائی سطح پر الیکشن دفاتر میں کرسیاں اور ٹیبلیں کرائے پر حاصل کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ڈیکوریشن والوں نے کرسیوں اور ٹیبلوں کے کرایوں میں 20 سے 30 روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔
حلقوں میں الیکشن سرگرمیوں کے سبب رات کے وقت چائے خانے، ریستورانوں اور کھانے پینے کی اشیا کے اسٹالوں پر بھی رش دیکھنے میں آرہا ہے سب سے زیادہ رش چائے خانوں پر ہوتا ہے چائے خانے انتخابی بحث کے مراکز بن گئے ہیں اور ہر کوئی یہ گفتگو کر رہا ہوتا ہے کہ ان کے حلقے سے کون جیتے گا اور کراچی میں کون سی جماعت کامیاب ہو گی۔
2002 ، 2008 اور 2013 کے کراچی میں ہونے والے عام انتخابات کی الیکشن مہم کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان انتخابات کی الیکشن مہم کا انتخابی اور تشہیری ضابطہ اخلاق الیکشن کمیشن کی جانب سے اتنا سخت نہیں تھا جو 2018 کے عام انتخابات کے لیے ہے عام انتخابات 25 جولائی کو ہوں گے انتخابات کے آغاز میں 3 ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے کراچی میں انتخابی سرگرمیاں مکمل طور پر ماند پڑی ہوئی ہیں۔
شہر کے بیشتر علاقوں میں سیاسی مذہبی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی بھرپور انتخابی اور اشتہاری مہم نظر نہیں آرہی، شہر کے بیشتر علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور امیدواروں کی معلومات کے حوالے سے پوسٹرز ، بینرز اور اسٹیمرز نظر نہیں آرہے جس کی وجہ سے اشتہاری مہم کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کام شدید متاثر ہوا ہے الیکشن کمیشن کا انتخابی اور تشہیری ضابطہ اخلاق سخت ہونے اور انتظامیہ کی جانب سے اس پر موثر عمل درآمد کرانے کے سبب کراچی میں انتخابات کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑی ہیں۔
سیاسی اور مذہبی جماعتوں سمیت آزاد امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے اور عوام سے رابطوں میں مشکلات کا سامنا ہے شہر میں بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اپنے امیدواروں کے حلقوں میں موثر انتخابی مہم اس اند از میں نہیں چلائی جارہی ہے جس طرح ماضی میں ہوا کرتی تھی شہر کی سڑکوں اور اہم مقامات پر تشہیری مہم کے تحت ہوڈنگز ، پینا فلیکس اور جھنڈے لگانے پر پابندی کے سبب کراچی میں عام انتخابات کا ماحول نظر نہیں آرہا ہے۔
اس حوالے سے سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کررہی ہیں، پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی نے ایکسپریس کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اس بار عام انتخابات کے لیے عوامی ، تشہیری اور انتخابی رابطہ مہم کا ضابطہ اخلاق اتنا سخت مرتب کیا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی اور انتظامیہ اس پر مکمل عمل درآمد کرارہی ہے انھوں نے کہا کہ جب سیاسی جماعتوں کو جھنڈے اپنے امیدواروں کے کوائف سامنے لانے کے لیے تشہیری مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو پھر شہریوں کو کیسے معلوم ہو گا کہ کس حلقے میں کون سا امیدوار ہے اور کس جماعت کی حلقے میں پوزیشن واضح ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان پابندیو ں کی وجہ سے کراچی میں الیکشن کی سرگرمیاں ماند پڑی ہیں الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق پر نظرثانی کرے ، ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان امین الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ ایم کیو ایم کو تو انتخابی چلانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے رابطہ اور تشہیری مہم کا ضابطہ اخلاق سخت ہونے کی وجہ سے کراچی میں الیکشن کی سرگرمیاں ماضی کی بنسبت کم دکھائی دے رہی ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی کے رہنما وسیم آفتاب نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق سخت تو ہے لیکن اس سے فائدہ یہ ہوا ہے کہ غریب آدمی اور جماعتوں کو الیکشن کے لیے رابطہ مہم چلانے میں آسانی ہوگئی ہے انھوں نے کہا کہ وہی جماعت کامیاب ہو گی جو ووٹرز سے گھر گھر جاکر رابطے کرے گی، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے ایکسپریس کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی ضابطہ اخلاق سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بنانا چاہیے انھوں نے کہا کہ کراچی میں وہی جماعت کامیاب ہو گی جو عوام سے رابطے میں ہو گی۔
مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ اور لیگی رہنما عبدالحمید بٹ نے ایکسپریس کو بتایا کہ انتخابی ضابطہ اخلاق سے ایسا لگ رہا ہے کہ الیکشن نہیں سلیکشن ہوگا انھوں نے الزام عائد کیا کہ شہر میں صرف پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہے کئی جماعتوں کو انتخابات لڑنے سے روکا جا رہا ہے، اے این پی سندھ کے جنرل سیکریٹری نے ایکسپریس کو بتایا کہ ضابطہ اخلاق سخت ہونے کی وجہ سے کراچی میں الیکشن کا ماحول نظر نہیں آرہا دعا گو ہیں کہ الیکشن شفاف اور میرٹ پر ہوں۔
تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس الزام کی تردید کی کہ صرف ہمیں شہر قائد میں الیکشن مہم چلانے کی اجازت ہے انھوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق سب کے لیے ہے انھوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق پر نظر ثانی کی ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا دعوی ہے کہ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق جو بھی ہو ہم کراچی سے الیکشن میں کامیابی حاصل کریں گے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا ہے کہ انتظامیہ ہمیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت نہیں دے رہی جس علاقے میں تشہیری مہم کے تحت قانون کے مطابق بینرز یا اسٹیمرز لگائے جاتے ہیں انتظامیہ انہیں ہٹادیتی ہے۔
سیاسی جماعتیں تجربہ کار پولنگ ایجنٹ تلاش کرنے لگیں
کراچی میں ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد ہونے والے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو پہلی بار قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں موجود پولنگ اسٹیشنوں کے لیے بڑے پیمانے پر پولنگ ایجنٹس کی ضرورت ہوگی پولنگ ایجنٹس کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان ، پی ایس پی ، متحدہ مجلس عمل اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اپنی حکمت عملی بنالی ہے تاہم آزاد امیدواروں کو پہلی بار بڑے پیمانے پر پولنگ ایجنٹس کے حصول کے لیے محنت کرنا پڑرہی ہے اور اس کے لیے یہ جماعتیں اور آزاد امیدوار پڑھے لکھے نوجوانوں کو ایک روز ( 25 جولائی ) کے لیے تلاش کررہے ہیں پولنگ ایجنٹس کے لیے وہ نوجوان انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جو ماضی میں الیکشن کے کام کا تجربہ رکھتے ہیں ان نوجوانوں کو بطور پولنگ ایجنٹ ایک روز کا معاوضہ 3 سے 5 ہزار روپے تک دیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ خواتین پولنگ ایجنٹس کے حصول کے لیے تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہیں اور سیاسی جماعتوں کی کوشش ہے کہ انتخابی عمل کا تجربہ رکھنے والی خواتین سمیت ان طالبات کی خدمات حاصل کی جائیں جو منظم انداز میں پولنگ ایجنٹ کا کام کر سکیں خواتین پولنگ ایجنٹس کو تین سے چھ ہزار روپے تک دیا جا سکتا ہے۔
مختلف قومیتوں سمیت پختون برادری والے مضافاتی علاقوں میں پولنگ ایجنٹس کا کام کرنے والی خواتین کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ ان حلقوں میں الیکشن کے کام کا تجربہ پڑھی لکھی خواتین کا ملنا مشکل ہے۔
الیکشن سرگرمیوں کیلیے سیاسی جماعتوں نے متبادل حکمت عملی اختیارکرلی
لیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کی رابطہ اور تشہیری مہم کا ضابطہ اخلاق سخت اور اس پر موثر عمل درآمد ہونے کے سبب شہر میں الیکشن سرگرمیوں کے لیے سیاسی جماعتوں نے متبادل حکمت عملی اختیارکرلی ہے اس متبادل حکمت عملی کے تحت سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے شہر میں تشہیری مہم کے بجائے حلقوں میں مقامی سطح پر عمائدین علاقہ سے رجوع کر لیا ہے۔
اس متبادل حکمت عملی کے تحت سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں علاقوں کی اہم مذہبی اور سماجی شخصیات کے علاوہ مختلف برادریوں کے عمائدین سے رابطے کررہے ہیں اور ان سے ووٹ کے حصول کے لیے درخواست کی جارہی ہے اس کے لیے ان امیدواروں کی جانب سے عمائدین علاقہ اور اہم شخصیات کے مہمان خانوں اوطاق ، بیٹھک ، حجرہ ، ڈرائنگ رومز میں انتخابی مہم کے لیے عوام سے رابطے کیے جارہے ہیں۔
انتخابی امیدواروں نے تشہیری ٹرک حاصل کر لیے
سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے انتخابی مہم کا ضابطہ اخلاق سخت ہونے کے سبب حلقوں میں اپنی سیاسی پوزیشن واضح کرنے کے لیے خصوصی تشہیری گاڑیاں متعارف کرا دی ہیں یہ خصوصی تشہیری گاڑیاں چھوٹے لوڈنگ ٹرکس پر بنائی گئی ہیں ان گاڑیوں کے پچھلے حصے پر خصوصی ہوڈنگز رکھے گئے ہیں جن پر سیاسی امیدواروں کے اور انتخابی منشور کو اجاگر کیا گیا ہے یہ گاڑیاں رات کے اوقات میں مختلف حلقوں میںگھوم کر امیدواروں کی انتخابی مہم چلانے میں معاون ثابت ہورہی ہیں یہ گاڑیاں الکرم اسکوائر لیاقت آباد پر خصوصی طور پر تیار کی جارہی ہیں ان کا الیکشن مہم کا کرایہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے۔
دوسری جانب سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے اپنی انتخابی رابطہ مہم کے لیے بڑے پیمانے پر ضابطہ اخلاق کے مطابق چھوٹے بینرز، پمفلٹ اور ہینڈ بل تیار کرالیے ہیں اور مزید تیار کرائے جارہے ہیں یہ ہینڈ بل گھر گھر جاکر تقسیم کیے جارہے ہیں ہینڈ بل پر سیاسی جماعتوں کا منشور، امیدواروںکا تعارف اور انتخابی مواد کو اجاگر کیا گیا ہے۔
پولنگ کارڈز کی چھپائی شروع ہوگئی 20 جولائی سے گھر گھر تقسیم ہونگے
سیاسی اور مذہبی جماعتوں سمیت آزاد امیدواروں نے پولنگ کارڈز کی پرنٹنگ کے لیے آرڈرز دے دیے ہیں ان پولنگ کارڈز کی تیاری کے بعد پولنگ اسٹیشنوں کے مطابق ان کو بھرنے کا کام شروع کر دیا جائے گا یہ کارڈ 20 جولائی کے بعد گھر گھر تقسیم کیے جائیں گے ان پولنگ کارڈز پر ووٹر کا نام اور دیگر معلومات درج ہوں گی ان پولنگ کارڈز کی تیاری کے لیے کارکنوں کو ذمے داریاں تفویض کردی گئی ہیں جبکہ آزاد امیدوار پڑھے لکھے نوجوانوں کی خدمات حاصل کررہے ہیں تاہم یہ مرحلہ تمام جماعتوں کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
حلقوں کے مقامی کارکن اور رہنما اہمیت اختیار کرگئے
الیکشن مہم کا ضابطہ اخلاق سخت ہونے کے سبب انتخابی رابطوں کے لیے سیاسی جماعتوںکے مقامی کارکن اہمیت اختیار کرگئے ہیں اہم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت اور امیدوار مختلف حلقوں میں اپنی سیاسی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے یونین کمیٹی یا کونسل کی سطح کے ذمے داروں اور کارکنوں سے رابطوں میں ہیں ان مقامی رہنماؤں او رکارکنوں کے ذریعہ گھر گھر انتخابی مہم چلانے کیلیے سربراہوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں حلقے میں جس علاقائی ذمے دار رہنما اور کارکن کی سیاسی اہمیت ہے وہ سیاسی جماعتوں کی قیادت اور ان کے امیدواروں کا منظور نظر ہے۔
انتخابی مہم : چائے خانوں اور ریستورانوں کا کاروبار بڑھ گیا
کراچی میں الیکشن قریب آتے ہی مختلف حلقوں میں چائے خانوں، ریسٹورینٹس اور دیگر پیشوں سے منسلک افراد کا کاروبار چمک اٹھا ہے حلقوں میں عوامی رابطہ مہم کے لیے سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو سب سے زیادہ ضرورت ڈیکوریشن والوں کی ہے علاقائی سطح پر الیکشن دفاتر میں کرسیاں اور ٹیبلیں کرائے پر حاصل کی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ڈیکوریشن والوں نے کرسیوں اور ٹیبلوں کے کرایوں میں 20 سے 30 روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔
حلقوں میں الیکشن سرگرمیوں کے سبب رات کے وقت چائے خانے، ریستورانوں اور کھانے پینے کی اشیا کے اسٹالوں پر بھی رش دیکھنے میں آرہا ہے سب سے زیادہ رش چائے خانوں پر ہوتا ہے چائے خانے انتخابی بحث کے مراکز بن گئے ہیں اور ہر کوئی یہ گفتگو کر رہا ہوتا ہے کہ ان کے حلقے سے کون جیتے گا اور کراچی میں کون سی جماعت کامیاب ہو گی۔