کیا الیکشن صرف پنجاب میں ہورہے ہیں

عام انتخابات کے انعقاد میں صرف چند دن رہ گئے ہیں لیکن پاکستان کے انتخابات میں جو جوش وخروش اور۔۔۔


Fazal Bazai May 05, 2013

عام انتخابات کے انعقاد میں صرف چند دن رہ گئے ہیں لیکن پاکستان کے انتخابات میں جو جوش وخروش اور گہما گہمی ہوا کرتی ہے وہ نظر نہیں آرہی۔ الیکشن کے حوالے سے اب تک جو شکوک وشبہات ظاہر کیے جارہے تھے اب ختم ہوتے جارہے ہیں اور اگرکوئی انہونی نہ ہوئی تو الیکشن بروقت ہونگے ۔ ٹی ایچ اسکیلے کا یہ قول ہم پر سو فیصد صادق آتا ہے کہ اکثر سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں ایسی تبدیلیاں آتی ہے جو ان تبدیلیوں کی حمایت کرنے والوں کے لیے حیران کن اور ان کی مخالفت کرنے والوں کے اندیشوں کے برعکس ہوتی ہیں۔چونکہ ملک میں سیاسی پارٹیوںکے علاوہ اتنی زیادہ بیرونی اوراندرونی قوتیں دلچسپی لے رہی ہیں اور وہ کھیل کے قواعد کا احترام بھی نہیں کرتیں اس لیے حتمی رائے دینا ناممکن ہے ۔

لیکن آرمی چیف جنرل کیانی کایومِ شہدا کی تقریب میں الیکشن بروقت کروانے کے عہد سے بھی یہی لگتا ہے کہ الیکشن وقت پر ہونگے ۔ پچھلے دنوں کے امریکن اور یورپین اخبارات وجرائد کے بیانات ، رپورٹوں اورتبصروں میں بھی الیکشن کے انعقاد کے بارے میں تیقن کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ یہ لوگ اپنے ملکوں کے پالیسی ساز افراد اور اداروں سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں پچھلے دنوں ہمارے سیکریٹری مالیات کا امریکی دورہ اور وہاں پر امریکی اور آئی ایم ایف حکام سے ملاقاتیں وغیرہ سے بھی یہی نظر آتا ہے کہ وہ لوگ انتخابات کے بروقت ہونے کے حق میں ہیں ۔ امریکی حکومت کا جون سے پہلے 1.8 بلین ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈز کے ریلیز کرنے اور آئی ایم ایف حکام کا آنے والی حکومت کو6/7 بلین ڈالر کا اسٹینڈ بائی قرضے کے لیے رضامندی کا اظہار بھی اسی کی نشاندہی کرتا ہے ورنہ سب کو پتہ ہے کہ امریکن اثرورسوخ کے بغیر اتنے بڑے قرضے کے لیے آئی ایم ایف کا راضی ہونا ممکن نہیں تھا۔

امریکا پاکستانی الیکشن کے لیے ایک مسلمان ملک کے چینل کو بھی بروئے کار لا رہا ہے پچھلے دنوں ایک مسلمان ملک کے سفارتخانے میںمسلمان ممالک کے سفیروںکی پاکستان کے ایک بڑے سیاسی رہنما سے خصوصی ملاقات کے تانے بانے بھی ہمارے الیکشن سے ملتے ہیں۔ اسی طرح برسلز میں امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری کی پاکستانی حکام اور افغان صدرکرزئی کے ساتھ ملاقات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ مفاہمت افغان مسئلے پر امریکا کی پاکستان سے ہوچکی ہے۔انگریزی محاورے کے تحت برف پگھل رہی ہے اور پاکستان میں انتخابات کے مسئلے پر پاکستان اور امریکا کسی حد تک ایک صفحے پر آرہے ہیں ( ہمارے انتخابات خطے کے نئے گریٹ گیم کے ساتھ جڑے ہوئے ہے) ۔جس سے پہلے والے خدشات کافی حد تک ختم ہوچکے ہیں ۔بعض حلقوں کے مطابق سابق صدر مشرف اپنی والدہ کی عیادت کے لیے کسی بھی وقت(11 مئی سے پہلے یا اس کے فوراً بعد) اچانک دبئی جاسکتے ہیںجس سے جنرل مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کی ذہانت، پیش گوئی کی صلاحیت اور دور اندیشی بھی ثابت ہوجائے گی ، جس نے پہلے ہی کہا تھا کہ جنرل ریٹائرڈ مشرف کوئی بوٹا ولد چراغ دین نہیںہے کہ اس سے ایسا ویساسلوک روا رکھا جائے۔ وہ جو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ اب وقت بدل چکا ہے ،اب ان کو بھی سمجھ آگئی ہوگی کہ وقت یقیناً بدلا ہے لیکن اتنا بھی نہیں جتنا ہمارے یہ دوست سمجھ رہے تھے۔

لیکن سوال وہی ہے جوکہ ملک کی اکثریت کے ذہنوں میں اُٹھ رہا ہے کہ کیا انتخابات صرف پنجاب میں ہو رہے ہیں؟ یا کیا صرف دائیں بازو کی جماعتوں کو الیکشن مہم چلانے کی اجازت اور باقیوں کو ہر طریقے سے روکا جارہا ہے، اس طرح کے الیکشن پرعوام کے ایک بہت بڑے حصے کی نمایندگی سے محرومیت اور اس کی افادیت پر سوالات نہیں اٹھیں گے؟،اگر ان تین صوبوں میںٹرن آوٹ 15 فیصد سے بھی کم ہوا تو اس کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کا قانونی جواز (Legitimacy) کیا ہوگا۔ جب آزاد، شفاف اور غیرجانبدار الیکشن کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد یہی ہے کہ ہر پارٹی اپنے پروگرام اور اپنے منشور کسی بھی مرئی اور غیر مرئی رکاوٹوں کے بغیر عوام تک پہنچائیں ،اس طرح ووٹرز بھی بغیر کسی خوف وخطر کے ان کی بات سُنیں اور بغیر کسی ڈرکے پولنگ اسٹیشن پر جاکر اپنا ووٹ ڈال سکے ۔

سندھ میں انتہا پسندوں کی جانب سے پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کو الیکشن کیمپین سے روکا جارہا ہے عوامی نیشنل پارٹی پر تو عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے الیکشن مہم سے پہلے بھی ان کے کارکنوں کو شہید کیا جا رہا تھا، عرصے سے ان کے دفاتر پر قبضے کیے جارہے تھے ۔اب الیکشن کے جلسے تو دور کی بات ہے کارنر میٹینگز پر بھی بموں سے حملے کیے جا رہے ہیں اب تو نوبت بہ ایں جا رسید کہ ان کے کارکنوں کا گھروں سے نکلنا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے جس سے ڈور ٹو ڈور الیکشن کیمپین کا سہارا بھی ختم ہوگیا ہے ۔ خیبر پختونخوا میں تو نوازشریف مانسہرہ میں بڑے جلسہ عام سے اپنے الیکشن مہم کا آغاز کرتے ہیں۔ عمران خان پشاور میں ، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی پورے پختونخوا میں بڑے جلسے کر رہے ہیں۔

لیکن باچا خان اور ولی خان کی پارٹی اپنے گھروں میں بھی کارنر میٹنگز نہیں کر سکتیں اگر کرے گی تو حشر غلام احمد بلور کے حالیہ کارنر میٹنگ جیسی ہوگی یہی پوزیشن وہاں پر پیپلز پارٹی کی ہے۔ بلوچستان میں بلوچ نیشنلسٹ پارٹیوں کے لیے بھی اسی طرز کی مشکلات کا سامنا ہے گو کہ وہاں پر ان کے لیے رکاوٹ وہ بلوچ علیحدگی پسندتنظیمیں ہیں جن کی سوچ کے مطابق انتخابات کا عمل بلوچ وسائل پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ مزید مضبوط کرے گا ۔ بلوچستان کی پشتون بیلٹ میں مذہبی جماعتوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے جب کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور اے این پی اسی دہشتگردی کی شکار ہے،جے یوآئی تو بڑے جلسے کر رہی ہیں لیکن محمود خان اچکزئی کو عملاً اپنے گھر تک محدود رکھاہے اس کے علاوہ قبائلی بنیادوں پر اتحاد بنواکر ان کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ فاٹا کی صورتحال تو سب پر عیاں ہے ۔

یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ نگراں حکومت اورآزاد الیکشن کمیشن کا آخر کام کیا ہے ؟ یہ سلیکشن کروا رہے ہیں یا الیکشن؟ جب بھی کوئی سیاسی پارٹی ان سے شکایت کرتی ہے تو طفلی تسلیوں سے انھیں بہلایا جاتا ہے عملاً کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا ۔ان قبل از انتخابات دھاندلی اور غیر ریاستی عناصر کو تفویض کردہ دہشت گردی (Outsourcing) سے عوام کا مینڈیٹ چُرا کر بننے والی حکومت ملک کو درپیش گمبھیر مسائل کو حل کرسکے گی؟ اسی طرح 2014 میں اور اس کے بعد جو جوہری تبدیلیاں اس خطے میں رونما ہورہی ہیں ان کا ساتھ دے سکے گی؟ہمارے خیال میں (گو کہ دیر ہوچکی ہے ) اب بھی ان پارٹیوں کو فول پروف سیکیورٹی کے ساتھ الیکشن کمپین کے مواقعے دے کر پرانی غلطیوں کا کسی حد تک ازالہ کیا جاسکتا ہے۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں