انتخابات 2013 مائینس عمران خان
سوچیں کہ اگر 2013 کے انتخابات میں عمران خان نہ ہوتے؟ سیاست کے کیا رنگ ہوتے؟ انتخابی مہم کے کیا ڈھنگ ہوتے؟
ISLAMABAD:
سوچیں کہ اگر 2013 کے انتخابات میں عمران خان نہ ہوتے؟ سیاست کے کیا رنگ ہوتے؟ انتخابی مہم کے کیا ڈھنگ ہوتے؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ پھر عمران خان کہاں ہوتے؟ وہ غیرمقبول سیاست دان قرار پاکر تاریخ کا حصہ بن جاتے۔ اگر یہ ہوتا تو موجودہ انتخابات کس انداز کے ہوتے؟ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر عمران خان سماجی کارکن ہی رہتے تو آج کن موضوعات پر سیاست دان گفتگو کر رہے ہوتے۔ اس سوال کو یوں بھی رکھا جاسکتا ہے کہ اگر عمران خان کرکٹ سے 87 میں ریٹائرڈ ہوجاتے اور جنرل ضیاء انھیں کرکٹ میں واپس نہ لاتے؟ اگر یہ سب کچھ ہوجاتا تو آج کے انتخابات عمران خان کو مائینس کرکے ہورہے ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟
نواز شریف کو مناظرے کا چیلنج کوئی نہ دیتا۔ کوئی نہ کہتا کہ ''میاں صاحب جانے دو۔ ساڈی واری آنے دو''۔ مسلم لیگ (ن) واضح طور پر دو تہائی اکثریت لے جاتی۔ یہ کہا جاتا کہ پاکستان میں ایک شخص تیسری مرتبہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ حلف اٹھانے کی ہیٹ ٹرک مکمل کرتا۔ تحریک انصاف کی مقبولیت نے پاکستان کی سیاست میں یہ تبدیلی پیدا کردی ہے۔ اگر عمران خان میدان سیاست کے مقبول کھلاڑی نہ ہوتے تو مقابلہ واضح طور پر تیر اور شیر کے درمیان ہوتا۔ پھر مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کا اتحاد نوے کی تاریخ کو دہرا دیتا۔ اس طرح نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کا معاہدہ کسی نہ کسی طرح ہوجاتا کہ دائیں بازو کے ووٹ تقسیم نہ ہوجائیں۔ اب چونکہ واضح مقابلہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں دو لاہوریوں کے درمیان ہوگا لہٰذا دائیں بائیں بازو کی تفریق مٹ گئی ہے۔ عمران کے اس فیکٹر نے مسلم لیگ کو مذہبی پارٹیوں سے دور رکھا۔ اگر تحریک انصاف مقبولیت کے گھوڑے پر سوار نہ ہوتی تو واضح مقابلہ بھٹو اور اینٹی بھٹو قوتوں کے درمیان ہوتا اور مسلم لیگ ن جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کو اپنے ساتھ ملا لیتی۔ عمران کی 2013 کے انتخابات میں موجودگی نے سیاست کے اس انداز کو بدلا ہے۔
عمران اگر میدان سیاست میں مقبولیت کی فضا میں نہ ہوتے تو انداز کے علاوہ انداز گفتگو بھی مختلف ہوتا۔ پھر مسلم لیگی رہنمائوں کو نہ کہنا پڑتا کہ تیسری قوت کی بدولت مسلم لیگ کا ووٹ تقسیم ہورہا ہے۔ سیاست میں عمران نہ ہوتے تو واضح مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہوتا۔ عمران خان کی مقبولیت نے پاکستانی سیاست کو تین طرفہ لڑائی بنا دیا ہے۔ گویا موضوعات بدل گئے ہیں اور لڑنے والے دو سے تین ہوگئے ہیں۔ لیاقت علی خان کے دور میں مہاجرین کی بحالی اور کشمیر کے مسائل ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد آئین بنانے کی باتیں ہوئیں۔ ایوب کے دور حکومت میں پارلیمانی نظام، ون مین ووٹ اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کے حق کی باتیں ہوئیں۔ ستر کے عشرے میں سوشلزم کی پھلجھڑی چھوڑی گئی تو اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا گیا، نواز اور بے نظیر کے عشرے میں بھٹو، اینٹی بھٹو اور سیکیورٹی رسک کے معاملات ہوا کرتے تھے۔
عمران کی آمد نے موضوعات کو کس طرح بدل کر رکھ دیا ہے؟ اس سے قبل مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے بعض رہنمائوں پر کرپشن کے الزامات نہ لگائے جاتے تھے۔ بیرون ملک بینک اکاؤنٹس کا تذکرہ نئی صدی کی بات ہے۔ یکساں نظام تعلیم کا تصور ہی نہیں کیا جارہا تو بات کون کرتا۔ سبز پاسپورٹ کی عزت اور دوسرے ممالک کے لوگوں کا پاکستان میں نوکری کے لیے آنا خواب ہے تو یہ خوب صورت خواب ہے۔ نوجوانوں کی بات تحریک انصاف کی جانب سے آئی تو ہزاروں کو لیپ ٹاپ مل گئے۔ پولیس کو غیر سیاسی بنانا اور حلقوں کی سیاست اور تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات کی بات عمران کے منہ سے نکلی ہیں۔ کشکول توڑنے اور پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی بات نواز شریف کیا کرتے تھے۔
پیسہ کہاں سے آئے گا؟ اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے لینا اور ٹیکس کے نظام کو درست کرنا۔ ان سوالوں کا جواب عمران نے ہی دیا ہے۔ ''نہ خود کسی کے سامنے جھکوں گا نہ پاکستانیوں کو جھکنے دوں گا''۔ یہ حیرت انگیز بات بھی پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ کہی گئی ہے۔ طاقتور اور کمزور کو قانون کے سامنے برابر کر دینے کی بات اس سے پہلے پاکستانی سیاست میں کبھی نہیں کہی گئی تھی۔ یہ بات حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے موقع پر کہی تھی۔ ڈرون کے حوالے سے کسی لیڈر کے منہ سے کچھ نہ نکلا۔ صرف عمران خان نے کہا کہ یہ ہمارے حکمرانوں کی مرضی سے ہورہے ہیں، اگر یہ جاری رہے تو ہم ڈرون کو مار گرائیں گے۔ یہ درجن بھر باتیں پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ کہی جارہی ہیں۔ ان ہی باتوں نے ایک نئی چیز کو جنم دیا ہے۔
وہ کون سی چیز ہے جو نہ امریکا و بھارت نے دیکھی اور نہ برطانیہ اور فرانس نے؟ پاکستان پہلا ملک ہے جس کے ووٹرز اس کا نظارہ کر رہے ہیں۔ ٹرائی اینگل فائٹ۔ امریکا میں صدیوں سے ری پبلکن اور ڈیموکریٹس ہیں۔ برطانیہ میں لیبر اور کنزرویٹو ہیں تو بھارت میں کانگریس اور بی جے پی۔ عمران کی انوکھی باتوں نے پاکستان میں انوکھا انداز پیدا کیا ہے، ایک اور انوکھی بات جو اس سے قبل کسی مقبول پارٹی کے لیڈر نے نہ کہی تھی۔ یہاں تو صدر مشرف سے کالی پٹیاں باندھ کر حلف تک لے لیا گیا تھا۔
صدر زرداری سے حلف نہ لینے والا بیان بھی دھماکا خیز ہے۔ ایک منتخب اور بڑی پارٹی کے لیڈر سے جو آئینی سربراہ بھی ہے حلف نہ لینا کیا معنی رکھتا ہے؟ یار لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح بحران پیدا ہوجائے گا۔ عمران اور آصف کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ نیازی کو بے نیازی کی عادت ہو تو بھی معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ صدر زرداری دو دن کے لیے دبئی چلے جائیں تو سینیٹ کے چیئرمین قائم مقام صدر بن کر ''نامزد وزیراعظم عمران خان'' سے حلف لے سکتے ہیں۔ یوں ایک نیا انداز پاکستانی سیاست میں متعارف ہوسکتا ہے۔ یہ ہیں وہ نئے موضوعات، انوکھے انداز اور نت نئی باتیں۔ یہ پیدا نہ ہوتیں اگر 2013 کے انتخابات ہوتے عمران خان کو مائینس کرکے۔
سوچیں کہ اگر 2013 کے انتخابات میں عمران خان نہ ہوتے؟ سیاست کے کیا رنگ ہوتے؟ انتخابی مہم کے کیا ڈھنگ ہوتے؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ پھر عمران خان کہاں ہوتے؟ وہ غیرمقبول سیاست دان قرار پاکر تاریخ کا حصہ بن جاتے۔ اگر یہ ہوتا تو موجودہ انتخابات کس انداز کے ہوتے؟ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر عمران خان سماجی کارکن ہی رہتے تو آج کن موضوعات پر سیاست دان گفتگو کر رہے ہوتے۔ اس سوال کو یوں بھی رکھا جاسکتا ہے کہ اگر عمران خان کرکٹ سے 87 میں ریٹائرڈ ہوجاتے اور جنرل ضیاء انھیں کرکٹ میں واپس نہ لاتے؟ اگر یہ سب کچھ ہوجاتا تو آج کے انتخابات عمران خان کو مائینس کرکے ہورہے ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟
نواز شریف کو مناظرے کا چیلنج کوئی نہ دیتا۔ کوئی نہ کہتا کہ ''میاں صاحب جانے دو۔ ساڈی واری آنے دو''۔ مسلم لیگ (ن) واضح طور پر دو تہائی اکثریت لے جاتی۔ یہ کہا جاتا کہ پاکستان میں ایک شخص تیسری مرتبہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ حلف اٹھانے کی ہیٹ ٹرک مکمل کرتا۔ تحریک انصاف کی مقبولیت نے پاکستان کی سیاست میں یہ تبدیلی پیدا کردی ہے۔ اگر عمران خان میدان سیاست کے مقبول کھلاڑی نہ ہوتے تو مقابلہ واضح طور پر تیر اور شیر کے درمیان ہوتا۔ پھر مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کا اتحاد نوے کی تاریخ کو دہرا دیتا۔ اس طرح نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کا معاہدہ کسی نہ کسی طرح ہوجاتا کہ دائیں بازو کے ووٹ تقسیم نہ ہوجائیں۔ اب چونکہ واضح مقابلہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں دو لاہوریوں کے درمیان ہوگا لہٰذا دائیں بائیں بازو کی تفریق مٹ گئی ہے۔ عمران کے اس فیکٹر نے مسلم لیگ کو مذہبی پارٹیوں سے دور رکھا۔ اگر تحریک انصاف مقبولیت کے گھوڑے پر سوار نہ ہوتی تو واضح مقابلہ بھٹو اور اینٹی بھٹو قوتوں کے درمیان ہوتا اور مسلم لیگ ن جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کو اپنے ساتھ ملا لیتی۔ عمران کی 2013 کے انتخابات میں موجودگی نے سیاست کے اس انداز کو بدلا ہے۔
عمران اگر میدان سیاست میں مقبولیت کی فضا میں نہ ہوتے تو انداز کے علاوہ انداز گفتگو بھی مختلف ہوتا۔ پھر مسلم لیگی رہنمائوں کو نہ کہنا پڑتا کہ تیسری قوت کی بدولت مسلم لیگ کا ووٹ تقسیم ہورہا ہے۔ سیاست میں عمران نہ ہوتے تو واضح مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہوتا۔ عمران خان کی مقبولیت نے پاکستانی سیاست کو تین طرفہ لڑائی بنا دیا ہے۔ گویا موضوعات بدل گئے ہیں اور لڑنے والے دو سے تین ہوگئے ہیں۔ لیاقت علی خان کے دور میں مہاجرین کی بحالی اور کشمیر کے مسائل ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد آئین بنانے کی باتیں ہوئیں۔ ایوب کے دور حکومت میں پارلیمانی نظام، ون مین ووٹ اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کے حق کی باتیں ہوئیں۔ ستر کے عشرے میں سوشلزم کی پھلجھڑی چھوڑی گئی تو اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا گیا، نواز اور بے نظیر کے عشرے میں بھٹو، اینٹی بھٹو اور سیکیورٹی رسک کے معاملات ہوا کرتے تھے۔
عمران کی آمد نے موضوعات کو کس طرح بدل کر رکھ دیا ہے؟ اس سے قبل مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے بعض رہنمائوں پر کرپشن کے الزامات نہ لگائے جاتے تھے۔ بیرون ملک بینک اکاؤنٹس کا تذکرہ نئی صدی کی بات ہے۔ یکساں نظام تعلیم کا تصور ہی نہیں کیا جارہا تو بات کون کرتا۔ سبز پاسپورٹ کی عزت اور دوسرے ممالک کے لوگوں کا پاکستان میں نوکری کے لیے آنا خواب ہے تو یہ خوب صورت خواب ہے۔ نوجوانوں کی بات تحریک انصاف کی جانب سے آئی تو ہزاروں کو لیپ ٹاپ مل گئے۔ پولیس کو غیر سیاسی بنانا اور حلقوں کی سیاست اور تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات کی بات عمران کے منہ سے نکلی ہیں۔ کشکول توڑنے اور پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی بات نواز شریف کیا کرتے تھے۔
پیسہ کہاں سے آئے گا؟ اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے لینا اور ٹیکس کے نظام کو درست کرنا۔ ان سوالوں کا جواب عمران نے ہی دیا ہے۔ ''نہ خود کسی کے سامنے جھکوں گا نہ پاکستانیوں کو جھکنے دوں گا''۔ یہ حیرت انگیز بات بھی پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ کہی گئی ہے۔ طاقتور اور کمزور کو قانون کے سامنے برابر کر دینے کی بات اس سے پہلے پاکستانی سیاست میں کبھی نہیں کہی گئی تھی۔ یہ بات حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے موقع پر کہی تھی۔ ڈرون کے حوالے سے کسی لیڈر کے منہ سے کچھ نہ نکلا۔ صرف عمران خان نے کہا کہ یہ ہمارے حکمرانوں کی مرضی سے ہورہے ہیں، اگر یہ جاری رہے تو ہم ڈرون کو مار گرائیں گے۔ یہ درجن بھر باتیں پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ کہی جارہی ہیں۔ ان ہی باتوں نے ایک نئی چیز کو جنم دیا ہے۔
وہ کون سی چیز ہے جو نہ امریکا و بھارت نے دیکھی اور نہ برطانیہ اور فرانس نے؟ پاکستان پہلا ملک ہے جس کے ووٹرز اس کا نظارہ کر رہے ہیں۔ ٹرائی اینگل فائٹ۔ امریکا میں صدیوں سے ری پبلکن اور ڈیموکریٹس ہیں۔ برطانیہ میں لیبر اور کنزرویٹو ہیں تو بھارت میں کانگریس اور بی جے پی۔ عمران کی انوکھی باتوں نے پاکستان میں انوکھا انداز پیدا کیا ہے، ایک اور انوکھی بات جو اس سے قبل کسی مقبول پارٹی کے لیڈر نے نہ کہی تھی۔ یہاں تو صدر مشرف سے کالی پٹیاں باندھ کر حلف تک لے لیا گیا تھا۔
صدر زرداری سے حلف نہ لینے والا بیان بھی دھماکا خیز ہے۔ ایک منتخب اور بڑی پارٹی کے لیڈر سے جو آئینی سربراہ بھی ہے حلف نہ لینا کیا معنی رکھتا ہے؟ یار لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح بحران پیدا ہوجائے گا۔ عمران اور آصف کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ نیازی کو بے نیازی کی عادت ہو تو بھی معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ صدر زرداری دو دن کے لیے دبئی چلے جائیں تو سینیٹ کے چیئرمین قائم مقام صدر بن کر ''نامزد وزیراعظم عمران خان'' سے حلف لے سکتے ہیں۔ یوں ایک نیا انداز پاکستانی سیاست میں متعارف ہوسکتا ہے۔ یہ ہیں وہ نئے موضوعات، انوکھے انداز اور نت نئی باتیں۔ یہ پیدا نہ ہوتیں اگر 2013 کے انتخابات ہوتے عمران خان کو مائینس کرکے۔