شام کا بحران
اخباری اطلاعات کے مطابق شام کے شہر بانیاس میں 62 افراد کی لاشیں ملی ہیں جنھیں قتل کرنے کے بعد وہیں گلیوں بازاروں...
اخباری اطلاعات کے مطابق شام کے شہر بانیاس میں 62 افراد کی لاشیں ملی ہیں جنھیں قتل کرنے کے بعد وہیں گلیوں بازاروں میں پھینک دیا گیا تھا۔ اس کا انکشاف فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے بیروت سے حقوق انسانی کی ایک مقامی تنظیم کے حوالے سے کیا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیم کے مطابق یہ ہلاکتیں شامی فوج کی کارروائی کا نتیجہ ہیں جب کہ قتل عام سے بچنے کی خاطر بانیاس شہر اور اس کے گردونواح سے لوگوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
ہلاک کیے جانے والوں میں کمسن لڑکوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے جب کہ علاقے کے درجنوں افراد لاپتہ بھی بتائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے بانیاس کے جنوب میں واقع بائضہ نامی ایک گائوں میں پچاس شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان میں بھی عورتیں اور بچے شامل تھے۔ بعض افراد کو فوج نے سرسری سماعت کے بعد گولی مارنے کا حکم دیا۔ بعض کو خنجر گھونپ کر ہلاک کیا گیا جب کہ کچھ کو زندہ جلا دیا گیا۔ مغربی ذرائغ ابلاغ کے مطابق ان آبادیوں کے لوگ بھاگ کر پہاڑی علاقوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ حال ہی میں شام میں جنم لینے والے انسانی المیے اس بدقسمت ملک کی حالت زار کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اس ملک میں امن کے قیام کے لیے عالمی سطح پر جو بھی کوششیں کی گئی ہیں' ان میں نیک نیتی اور مخلصی کا فقدان نظر آتا ہے' مغرب کے اپنے مفادات اور تحفظات ہیں جب کہ عرب ممالک اپنے مفادات اور تعصبات کے اسیر ہیں' اس صورت حال کا خمیازہ شام کے عوام بھگت رہے ہیں۔
شام کی صورت حال کے بارے میں لندن کے اخبار گارجین نے مشورہ دیا ہے کہ مغربی طاقتوں کو شام کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل تاریخ پر ضرور ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ گارجین کے مطابق 1919 میں مغربی طاقتیں جب مشرق وسطیٰ کی نئی حد بندیاں کر رہی تھیں تو پیرس میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں امریکا' برطانیہ اور فرانس کے لیڈر شریک تھے۔ اس موقع پر طانوی وزیراعظم لائیڈ جارج نے کہا تھا کہ میسوپوٹامیا (یعنی عراق) سے تو تیل کی نہریں نکالی جا سکتی ہیں جب کہ فلسطین مقدس علاقہ ہے بالخصوص صیہونیت کے لیے لیکن شام میں کیا ہے؟ چلو اسے فرانس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اور اس وقت سے دمشق پر فرانسیسی اجارہ داری قائم ہو گئی اور وہاں آج بھی عربی کے ساتھ فرنچ زبان بولی جاتی ہے، انگریزی نہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز اپنے شہرہ آفاق جاسوس لارنس آف عربیا کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔
گارجین کے مطابق اس وقت شام کے مسئلہ کا حل صرف اسی صورت نکل سکتا ہے اگر اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ ایلچی لخدر براہیمی وہاں ایک علاقائی کانفرنس منعقد کرائیں اور انھیں عرب لیگ کی نمایندگی بھی ترک کر دینی چاہیے تاکہ ان کی غیر جانبداری پر کوئی حرف نہ آ سکے۔ اس علاقائی کانفرنس میں تمام علاقائی ممالک عراق' ترکی' ایران' اسرائیل' لبنان مصر اور فلسطین شامل ہوں بلکہ ان میں مغربی کنارے اور غزہ کو بھی نمایندگی دی جائے۔ اس کانفرنس کا مقصد صرف علاقے میں امن قائم کراناہے۔اس صورت حال سے شام کے بارے میں یورپی ذہن کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔ یورپ اپنی پرانی ذہنیت کو سامنے رکھ کر شام کا بحران دیکھ رہا ہے۔ وہ یہاں امن کے قیام کے لیے اسرائیل کا کردار بھی چاہتا ہے جب کہ آج کے حالات میں ایسا کرنا اس بحران کو مزید پیچیدہ کرنے کے مترادف ہے۔ شام میں امن کے قیام کے لیے عرب لیگ کے ڈھلمل موقف کے باعث معاملہ انتہائی پیچیدہ ہو گیاہے' اس کا بہترین حل یہ ہے کہ شام میں امن کے لیے روس' امریکا اور چین اپنا کردار ادا کریں اور وہاں خون ریزی کو روکیں اور کوئی ایسا سیٹ اپ قائم کریں جس کے نتیجے میں شام میں سب دھڑوں کے لیے قابل قبول کوئی حکومت قائم ہو سکے۔
ہلاک کیے جانے والوں میں کمسن لڑکوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے جب کہ علاقے کے درجنوں افراد لاپتہ بھی بتائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے بانیاس کے جنوب میں واقع بائضہ نامی ایک گائوں میں پچاس شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان میں بھی عورتیں اور بچے شامل تھے۔ بعض افراد کو فوج نے سرسری سماعت کے بعد گولی مارنے کا حکم دیا۔ بعض کو خنجر گھونپ کر ہلاک کیا گیا جب کہ کچھ کو زندہ جلا دیا گیا۔ مغربی ذرائغ ابلاغ کے مطابق ان آبادیوں کے لوگ بھاگ کر پہاڑی علاقوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ حال ہی میں شام میں جنم لینے والے انسانی المیے اس بدقسمت ملک کی حالت زار کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اس ملک میں امن کے قیام کے لیے عالمی سطح پر جو بھی کوششیں کی گئی ہیں' ان میں نیک نیتی اور مخلصی کا فقدان نظر آتا ہے' مغرب کے اپنے مفادات اور تحفظات ہیں جب کہ عرب ممالک اپنے مفادات اور تعصبات کے اسیر ہیں' اس صورت حال کا خمیازہ شام کے عوام بھگت رہے ہیں۔
شام کی صورت حال کے بارے میں لندن کے اخبار گارجین نے مشورہ دیا ہے کہ مغربی طاقتوں کو شام کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل تاریخ پر ضرور ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ گارجین کے مطابق 1919 میں مغربی طاقتیں جب مشرق وسطیٰ کی نئی حد بندیاں کر رہی تھیں تو پیرس میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں امریکا' برطانیہ اور فرانس کے لیڈر شریک تھے۔ اس موقع پر طانوی وزیراعظم لائیڈ جارج نے کہا تھا کہ میسوپوٹامیا (یعنی عراق) سے تو تیل کی نہریں نکالی جا سکتی ہیں جب کہ فلسطین مقدس علاقہ ہے بالخصوص صیہونیت کے لیے لیکن شام میں کیا ہے؟ چلو اسے فرانس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اور اس وقت سے دمشق پر فرانسیسی اجارہ داری قائم ہو گئی اور وہاں آج بھی عربی کے ساتھ فرنچ زبان بولی جاتی ہے، انگریزی نہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز اپنے شہرہ آفاق جاسوس لارنس آف عربیا کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔
گارجین کے مطابق اس وقت شام کے مسئلہ کا حل صرف اسی صورت نکل سکتا ہے اگر اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ ایلچی لخدر براہیمی وہاں ایک علاقائی کانفرنس منعقد کرائیں اور انھیں عرب لیگ کی نمایندگی بھی ترک کر دینی چاہیے تاکہ ان کی غیر جانبداری پر کوئی حرف نہ آ سکے۔ اس علاقائی کانفرنس میں تمام علاقائی ممالک عراق' ترکی' ایران' اسرائیل' لبنان مصر اور فلسطین شامل ہوں بلکہ ان میں مغربی کنارے اور غزہ کو بھی نمایندگی دی جائے۔ اس کانفرنس کا مقصد صرف علاقے میں امن قائم کراناہے۔اس صورت حال سے شام کے بارے میں یورپی ذہن کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔ یورپ اپنی پرانی ذہنیت کو سامنے رکھ کر شام کا بحران دیکھ رہا ہے۔ وہ یہاں امن کے قیام کے لیے اسرائیل کا کردار بھی چاہتا ہے جب کہ آج کے حالات میں ایسا کرنا اس بحران کو مزید پیچیدہ کرنے کے مترادف ہے۔ شام میں امن کے قیام کے لیے عرب لیگ کے ڈھلمل موقف کے باعث معاملہ انتہائی پیچیدہ ہو گیاہے' اس کا بہترین حل یہ ہے کہ شام میں امن کے لیے روس' امریکا اور چین اپنا کردار ادا کریں اور وہاں خون ریزی کو روکیں اور کوئی ایسا سیٹ اپ قائم کریں جس کے نتیجے میں شام میں سب دھڑوں کے لیے قابل قبول کوئی حکومت قائم ہو سکے۔