حیدرآباد متحدہ قومی موومنٹ اورپیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری
11مئی کو ہونے والے انتخابات میںمتحدہ دینی محاذ اورسنی تحریک کے امیدواروں نے صاحبزادہ ابوالخیرمحمدزبیرکی کامیابی۔۔۔
حیدرآباد ضلع میں فی الحال قومی اسمبلی کی تین نشستیں این اے 219، 220 اور 221 ہیں یہ نشستیں ضلع کی چاروں تحصیل پر پھیلی ہوئی ہیں ۔
این اے 219 کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں پی ایس 48 اور پی ایس 49 ہیں جبکہ این اے 220 کے ساتھ پی ایس 45 اور پی ایس 46 ہیں اور این اے 221 کے ساتھ پی ایس 47 قاسم آباد اور پی ایس 50 ٹنڈو جام و دیہی علاقہ جات ہے۔
حیدرآباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 220 (تعلقہ سٹی) پر گذشتہ 43 سال کے دوران9 بار ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے چار بار، جمعیت علماء پاکستان نے مختلف اتحادوں میں شامل رہ کر تین بار، ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کر جانے کے باعث ایک بار مسلم لیگ نون کے امیدوار نے جبکہ سابق ڈکٹیٹر ضیا الحق مرحوم کے غیر جماعتی الیکشن میں یہاں سے مولانا سید وصی مظہر ندوی نے کامیابی حاصل کی جنہیں جماعت اسلامی کی حمایت حاصل تھی جبکہ تعلقہ سٹی کے اس نشست پر دسویں بار ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات برائے سال 2013ء کے لیے تمام ہی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں لیکن جس طرح 1988ء سے اس نشست پر ایم کیو ایم کا پلہ بھاری رہا ہے اس بار بھی اس نشست پر ایم کیو ایم کے امیدوار کے جیتنے کے امکانات ہیں کیونکہ ابھی تک حیدرآباد میں 2002 ء جیسا ماحول نہیں بن پایا جب تمام مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر تھیں اور
جمعیت علماء پاکستان کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابولخیر محمد زبیر نے متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار آفتاب احمد شیخ کو 610 ووٹوں سے شکست دے دی تھی۔ماضی گواہ ہے کہ حیدرآباد شہر سے قومی اسمبلی کی نشست جو اب این اے 220 ہے پر ماضی میں مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھاری اکثریت سے جیتا کرتی تھیں۔ 1970ء میں اس سیٹ پر جے یو پی کے چابی کا انتخابی نشان رکھنے والے مولانا محمد علی رضوی کامیاب ہوئے تھے۔ 1977 کو ہونے والے انتخابات میں جے یو پی کے سربراہ علامہ مولانا شاہ احمد نورانی56857 ووٹ لے کر جیتے ان کے مدمقابل پی پی پی کے الہی بخش خان قائم خانی نے21,685 ووٹ حاصل کیے۔1985میں سابق مئیر حیدرآباد مولانا سید وصی مظہر ندوی 23118 ووٹ لے کر کامیاب قرارپائے جبکہ این اے 169 لطیف آباد سے نواب محمد یامین نے 39168 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ۔اس نشست کے صوبائی حلقوں پی ایس 41 پر آزاد امیدوار ظفر راجپوت کو 6799 ووٹ کے ساتھ کامیاب قرار دیا گیا ۔
پی ایس 42 حیدرآباد چھ سے5411 ووٹ لے کر عبدالقیوم شیخ منتخب ہو گئے۔ پی ایس 43 جو پھلیلی پریٹ آباد و ملحقہ علاقوں پرمشتمل تھی سے میر حیدر علی خان تالپور 9460ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ پی ایس 44 پرنواب مظفر حسین خان کے صاحبزادے نواب راشد علی خان نے 14954 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔1988کے انتخابات میں میدان ایم کیو ایم نے مارلیا اوراین اے 168سے آفتاب احمد شیخ، 80,935ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تو ان کے خلاف پی پی پی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سیٹھ ہدایت اﷲ نے 15997 ووٹ حاصل کیے۔ این اے 169 پر ڈپٹی مئیر رشید احمد خان نے72315 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ان کے قریبی حریف پی پی پی کے حاجی محمد رشید تھے جنہوں نے 21108 ووٹ حاصل کیے ۔ 1990 کے انتخابات میں ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ نے این اے 168 اور این اے 169 کی نشستیں جیت لیں این اے 168 سے کنور نوید جمیل جبکہ این اے 169 سے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کامیاب ہوئے۔صوبائی سیٹیں بھی ایم کیوایم نے جیت لیں۔
میاں نواز شریف کی حکومت بھی 58 ٹو بی کا تیسرا شکار بنی تو 6 اکتوبر 1993کو عام انتخابات سے محض چار روز قبل ایم کیوایم نے اس کے خلاف آپریشن کوجوازبناکر الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کے صاحبزادہ شبیر حسن انصاری نے محض 18562 ووٹ لے کر این اے 168جیت لی جبکہ پی پی پی کے امان اﷲ سیال نے 9832 ووٹ حاصل کیے۔ اسلامی جمہوری محاذ کے علامہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی 4392 ووٹ لے سکے۔اسی طرح پی پی پی کے قاضی اسد عابد 17837 ووٹ لے کر این اے 169سے کامیاب ہو گئے۔ قومی اسمبلی کے الیکشن مکمل ہوتے ہی ایم کیو ایم نے الیکشن کا بائیکاٹ ختم کردیااور ایم کیو ایم نے چاروں روایتی نشستیں جیت لیں۔
1997 کے عام الیکشن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کا فیصلہ ہوا توایم کیوایم کے طارق جاوید کو این اے 168سے لڑایا گیا۔ جنہوں نے51226 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ نون کے صاحبزادہ شبیر انصاری نے 16243 ووٹ حاصل کیے جبکہ این اے 169 سے بھی ایک بار پھر ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے 54044 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جن کے مقابل مسلم لیگ نون کے رشید ناغڑ نے12388اور پی پی پی کے زاہد علی بھرگڑی نے8254 ووٹ حاصل کیے ۔سال 2002ء میں ہونے والے الیکشن میں حیدرآباد سے جے یو پی نے ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست جیت کر بہت ہی بڑا اپ سیٹ کر دیا ۔
این اے 168 حیدرآباد سٹی کی سیٹ اب این اے 220 ہو گئی ہے جبکہ این اے 169 لطیف آباد/سائٹ کی سیٹ، این اے 219 میں تبدیل ہو گئی اور قاسم آباد اور تعلقہ حیدرآباد ایٹ ٹنڈو جام پر مشتمل قومی اسمبلی کی نئی سیٹ کا نمبر این اے 221 تھا۔ 2008 ء کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے این اے 219 لطیف آباد کے لیے امریکہ سے آنے والے سید طیب حسین کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا جنہوں نے 168136 ووٹ حاصل کیے یہ لطیف آباد کی اس سیٹ پر اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے تھے اس پر سب سے زیادہ کسی بھی ایک امیدوار کی جانب سے لیے جانے والے ووٹ تھے ۔ اس سیٹ پراب متحدہ کے ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ہی کھڑے ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہو گا کہ آیا 2013 کے انتخابات میں ایم کیو ایم اس سیٹ سے اتنے ہی ووٹ لیتی ہے یا پھر اس کو کم ووٹ ملیں گے۔
اسی طرح این اے 220 حیدرآباد سٹی پر 2008ء کے انتخابات میں متحدہ کے صلاح الدین کھڑے تھے جو 147040ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جن کے مد مقابل جے یو پی کے صاحبزادہ ابولخیر محمد زبیر نے بائیکاٹ کے باعث الیکشن میں حصہ نہیں لیاتھا اس لیے قریبی حریف پی پی پی کے عرفان قریشی ہی رہے جنہوں نے 24108 ووٹ حاصل کیے ۔گیارہ مئی 2013 کو ہونے والے انتخابات میں پیش گوئی یہی ہے کہ حیدرآباد میں تین قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے دو نشستیں ایم کیو ایم اور ایک نشست پیپلز پارٹی حاصل کر لے گی۔این اے 219 کے لیے پندرہ امیدوار آمنے سامنے ہیں جن میں متحدہ قومی موومنٹ نے ایک بار پھر سابق ایم این اے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو لطیف آباد سے ٹکٹ دیا ہے جو یہاں سے 1990 اور1997 میں منتخب ہو چکے ہیں۔انھوں نے 1990میں 91373 اور 1997 میں 54044 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی لیکن 2008 میں ایم کیو ایم کے امیدوار سید طیب حسین نے اس نشست پر 168136ووٹ حاصل کیے۔
یہاں سے جماعت اسلامی نے اپنے ضلعی امیر شیخ شوکت علی کو میدان میں اتارا ہے جنہیں مذہبی، سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے دس جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے ماجد خان بھی اسی حلقے سے کھڑے ہیں لیکن لطیف آباد کے نو رہائشی یونٹس کے باعث جہاں متحدہ کے حامی ووٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہے یہ نشست سو فیصد متحدہ کے امیدوار کے لیے جیتنا بہت آسان ہے اگر یہاں ون ٹو ون بھی مقابلہ ہو تو بھی فی الحال ایم کیو ایم یہاں کافی مطمئن رہے گی۔این اے 220کا حلقہ ہیراآباد، ٹاور مارکیٹ، میمن محلہ، کالی موری، لیاقت کالونی، گئو شالہ، انصاری محلہ، رحمن ٹاون، زچہ خانہ، پریٹ آباد، تلک چاڑی، سرے گھاٹ، شاہی بازار، پکا قلعہ، آفندی ٹاون، اسلام آباد، پھلیلی، فقیر کا پڑ، حیدر چوک، اسٹیشن روڈ، کے کے ایف اسپتال، ریشم گلی، کوہ نور چوک، دو قبر اور گرونگر کے علاقوں پر مشتمل ہے۔
ان علاقوں میں قریشی، آرائیں، مارواڑی، قاضی، ملک، خلجی، دھوبی، سومرو، سموں، راجپوت، عباسی، میمن، انصاری، بلوچ، اجمیری، ہاشمی، سانھبری، چیھپہ، شیخ، جعفری، دیسوالی، کھوکھر، سید، غوری، ناغڑ، میو برداری بڑی برداریوں میں شمار ہوتی ہے۔ این اے 220 پر کل گیارہ امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ جن میں متحدہ قومی موومنٹ نے سابق ایم پی اے سید وسیم حسین امیدوار نامزد کر دیا ۔جے یو پی کے مرکزی صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر اس نشست پر امیدوار کھڑے ہیں جنہیں دس جماعتی اتحاد کی بھرپور حمایت حاصل ہے لیکن ایک اور مذہبی اتحاد، متحدہ دینی محاذ نے اپنا امیدوار کھڑا کر دیا اورساتھ ہی سنی تحریک نے بھی صاحبزادہ ابولخیر کے سامنے اپنا امیدوار رضوان قادری کو کھڑا کر دیا ہے پی پی پی کی جانب سے اس بار یہاں سے صغیر احمد قریشی کو کھڑا کیا گیا۔ جے یو پی کے امیدوار صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کو اس حلقے پر مسلم لیگ نون، مسلم لیگ فنکشنل، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام ف، این پی پی، سندھ ترقی پسند پارٹی، قومی عوامی تحریک اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔
این اے 221 تعلقہ قاسم آباد کی پانچ یونین کونسلز اور تعلقہ حیدرآباد کی گیارہ یونین کونسلز پر مشتمل ہے لیکن چند یونین کونسلز کا بڑا حصہ ٹنڈو محمد خان پر مشتمل این اے 222 میں دے دیا گیا ہے۔ یہاں شیخ، میمن، ابڑو، جمالی، پالاری، سومرو، چانڈیو، سولنگی، سید، جتوئی، رند، مگسی، دیتھو، قمبرانی، بروہی، ملاح، شورو، کیریو، چنہ، جاموٹ، راجپوت، تھیبو، خانزادہ، انڑ، نظامانی، پھوڑ، سموں، میر اور عباسی خاندان بڑی برادریاں ہیں۔ این اے 221 پر امید ہے کہ پی پی پی کے امیدوار سید امیر علی شاہ جاموٹ مسلسل تیسری بار جیت کر اپنی ہیٹ ٹرک مکمل کر لیں گے۔ایم کیو ایم نے ممتاز کالم نگار و دانشور غازی صلاح الدین کو نامزد کر دیا ہے، تحریک انصاف کے سید احمد رشید اور سندھ ترقی پسند پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر رجب علی میمن کھڑے ہیں جنہیں دس جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے اسی طرح یہاں متحدہ دینی محاذ کے مولانا سعید جدون لڑ رہے ہیں لیکن یہاں اصل مقابلہ پی پی پی، ایم کیو ایم اور دس جماعتی اتحاد کے امیدواروں کے درمیان ہی ہو گا۔
اسی طرح پی ایس 45 پر ایم کیو ایم نے نوجوان دلاور قریشی ایڈووکیٹ کو نامزدکیا ہے ،2002 ء میں یہاں سے فاروق قریشی اور 2008 ء میں اکرم عادل قریشی کو ٹکٹ دیا گیا تھا۔ پی پی پی کی جانب سے محبوب علی المعروف جیندو سومرو، مسلم لیگ فنکشنل کے چوہدری نظام الدین آرائیں، جے یو پی کے حسین بخش حسینی، مسلم لیگ نون کے راشد آرائیں، سنی تحریک کے سید ساجد علی کاظمی، آل پاکستان مسلم لیگ کے عبدالسلام شیخ، مسلم لیگ قاف کے محمد عارف شیخ، تحریک انصاف کے محمد عثمان کینڈی، اور متحدہ دینی محاذ کے مولانا محمد سعید جدون بھی امیدوار ہیں
پی ایس 46 پر ایم کیو ایم نے انجنئیر محمد راشد خلجی کو پارٹی ٹکٹ دیا ہے اس سے پہلے ان کے چچا ڈاکٹر عارف رزمی بھی پارٹی ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں۔ راشد خلجی کے مقابلے میں پی پی پی کے بابو عبداﷲ قاضی، جماعت اسلامی کے عبدالوحید قریشی، مسلم لیگ قاف کے محمد اورنگزیب عرف علی زیب، تحریک انصاف کے غوث بخش عرف پرویز گھانگھرو، سنی تحریک کے محمد عابد قادری اور متحدہ دینی محاذ کے حافظ ارمان احمد چوہان بھی امیدوار ہیں۔
پی ایس 47 پر پی پی پی نے ضلعی صدر زاہد علی بھرگڑی کو تیسری بار نامزد نہیں کیا،ان کے بجائے اس بار ٹکٹ جام خان شورو کو دیاگیا ہے جن کی اپنی برادری بڑی تعداد میں تعلقہ قاسم آباد میں رہائش پذیر ہے ان کے مقابل 40 دیگر امیدواروں میں یہاں سے دس جماعتی اتحاد کے حمایت یافتہ قومی عوامی تحریک کے صدرایاز لطیف پلیجو ایڈووکیٹ، متحدہ قومی موومنٹ کے علی احمد بروہی، تحریک تحفظ پاکستان کے ارباب علی چانڈیو، مسلم لیگ قاف کے عبدالطیف ابڑو، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے سینئر رہنماء مجید سیال،محبوب علی ابڑو، تحریک انصاف کے نور مرتضی تھیبو، ڈاکٹر ہادی بخش جتوئی و دیگر میدان میں ہیں۔
پی ایس 48 لطیف آباد پر ایم کیو ایم نے ایک بار پھر زبیر احمد خان زئی کو ٹکٹ دیا ہے جن کے مقابل پی پی پی کے رجب علی خاصخیلی، تحریک انصاف کے اشتیاق الدین خان، مسلم لیگ قاف کی سیدہ تسنیم زہرہ، آل پاکستان مسلم لیگ کی شہناز نعیم، پی پی پی ش ب کے عمران مغل، دس جماعتی اتحاد نے جے یو آئی کے ہمایوں خان مندوخیل کو کھڑا کر رکھا ہے۔
پی ایس 49 پر متحدہ نے اپنے انتہائی مضبوط امیدوار صابر حسین قائم خانی کو کھڑا کیا ہے ،ان کے مقابل پی پی پی کے عبدالجبار خان ، اے این پی کے جاوید احمد خان، دس جماعتی اتحاد کے حمایت یافتہ جماعت اسلامی کے ڈاکٹر سیف الرحمن، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سعید اکبر، متحدہ دینی محاذ کے غنی الرحمن امیدوار ہیں۔
پی ایس 50ٹنڈوجام پر کل امیدواروں کی تعداد 32 تھی جن میں سے تقریباً دس امیدوار پی پی پی شرجیل انعام میمن کے حق میں دستبردار ہو گیے ہیں جن میں یہاں سے دو بار منتخب ہونے والے پیر امجد حسین شاہ جیلانی بھی شامل ہیں تاہم اگر دیکھا جائے تو یہاں شرجیل انعام میمن کا مقابلہ پی پی پی ہی کے خاوند بخش جھیجو کر رہے ہیں ،فنکشنل لیگ کے حسینی شہاب الدین شاہ، دس جماعتی اتحاد کے امیدوار ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے اسلم شورو میدان میں ہیں۔
این اے 219 کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں پی ایس 48 اور پی ایس 49 ہیں جبکہ این اے 220 کے ساتھ پی ایس 45 اور پی ایس 46 ہیں اور این اے 221 کے ساتھ پی ایس 47 قاسم آباد اور پی ایس 50 ٹنڈو جام و دیہی علاقہ جات ہے۔
حیدرآباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 220 (تعلقہ سٹی) پر گذشتہ 43 سال کے دوران9 بار ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے چار بار، جمعیت علماء پاکستان نے مختلف اتحادوں میں شامل رہ کر تین بار، ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کر جانے کے باعث ایک بار مسلم لیگ نون کے امیدوار نے جبکہ سابق ڈکٹیٹر ضیا الحق مرحوم کے غیر جماعتی الیکشن میں یہاں سے مولانا سید وصی مظہر ندوی نے کامیابی حاصل کی جنہیں جماعت اسلامی کی حمایت حاصل تھی جبکہ تعلقہ سٹی کے اس نشست پر دسویں بار ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات برائے سال 2013ء کے لیے تمام ہی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں لیکن جس طرح 1988ء سے اس نشست پر ایم کیو ایم کا پلہ بھاری رہا ہے اس بار بھی اس نشست پر ایم کیو ایم کے امیدوار کے جیتنے کے امکانات ہیں کیونکہ ابھی تک حیدرآباد میں 2002 ء جیسا ماحول نہیں بن پایا جب تمام مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر تھیں اور
جمعیت علماء پاکستان کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابولخیر محمد زبیر نے متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار آفتاب احمد شیخ کو 610 ووٹوں سے شکست دے دی تھی۔ماضی گواہ ہے کہ حیدرآباد شہر سے قومی اسمبلی کی نشست جو اب این اے 220 ہے پر ماضی میں مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھاری اکثریت سے جیتا کرتی تھیں۔ 1970ء میں اس سیٹ پر جے یو پی کے چابی کا انتخابی نشان رکھنے والے مولانا محمد علی رضوی کامیاب ہوئے تھے۔ 1977 کو ہونے والے انتخابات میں جے یو پی کے سربراہ علامہ مولانا شاہ احمد نورانی56857 ووٹ لے کر جیتے ان کے مدمقابل پی پی پی کے الہی بخش خان قائم خانی نے21,685 ووٹ حاصل کیے۔1985میں سابق مئیر حیدرآباد مولانا سید وصی مظہر ندوی 23118 ووٹ لے کر کامیاب قرارپائے جبکہ این اے 169 لطیف آباد سے نواب محمد یامین نے 39168 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ۔اس نشست کے صوبائی حلقوں پی ایس 41 پر آزاد امیدوار ظفر راجپوت کو 6799 ووٹ کے ساتھ کامیاب قرار دیا گیا ۔
پی ایس 42 حیدرآباد چھ سے5411 ووٹ لے کر عبدالقیوم شیخ منتخب ہو گئے۔ پی ایس 43 جو پھلیلی پریٹ آباد و ملحقہ علاقوں پرمشتمل تھی سے میر حیدر علی خان تالپور 9460ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ پی ایس 44 پرنواب مظفر حسین خان کے صاحبزادے نواب راشد علی خان نے 14954 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔1988کے انتخابات میں میدان ایم کیو ایم نے مارلیا اوراین اے 168سے آفتاب احمد شیخ، 80,935ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تو ان کے خلاف پی پی پی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سیٹھ ہدایت اﷲ نے 15997 ووٹ حاصل کیے۔ این اے 169 پر ڈپٹی مئیر رشید احمد خان نے72315 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ان کے قریبی حریف پی پی پی کے حاجی محمد رشید تھے جنہوں نے 21108 ووٹ حاصل کیے ۔ 1990 کے انتخابات میں ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ نے این اے 168 اور این اے 169 کی نشستیں جیت لیں این اے 168 سے کنور نوید جمیل جبکہ این اے 169 سے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کامیاب ہوئے۔صوبائی سیٹیں بھی ایم کیوایم نے جیت لیں۔
میاں نواز شریف کی حکومت بھی 58 ٹو بی کا تیسرا شکار بنی تو 6 اکتوبر 1993کو عام انتخابات سے محض چار روز قبل ایم کیوایم نے اس کے خلاف آپریشن کوجوازبناکر الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کے صاحبزادہ شبیر حسن انصاری نے محض 18562 ووٹ لے کر این اے 168جیت لی جبکہ پی پی پی کے امان اﷲ سیال نے 9832 ووٹ حاصل کیے۔ اسلامی جمہوری محاذ کے علامہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی 4392 ووٹ لے سکے۔اسی طرح پی پی پی کے قاضی اسد عابد 17837 ووٹ لے کر این اے 169سے کامیاب ہو گئے۔ قومی اسمبلی کے الیکشن مکمل ہوتے ہی ایم کیو ایم نے الیکشن کا بائیکاٹ ختم کردیااور ایم کیو ایم نے چاروں روایتی نشستیں جیت لیں۔
1997 کے عام الیکشن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کا فیصلہ ہوا توایم کیوایم کے طارق جاوید کو این اے 168سے لڑایا گیا۔ جنہوں نے51226 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ نون کے صاحبزادہ شبیر انصاری نے 16243 ووٹ حاصل کیے جبکہ این اے 169 سے بھی ایک بار پھر ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے 54044 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جن کے مقابل مسلم لیگ نون کے رشید ناغڑ نے12388اور پی پی پی کے زاہد علی بھرگڑی نے8254 ووٹ حاصل کیے ۔سال 2002ء میں ہونے والے الیکشن میں حیدرآباد سے جے یو پی نے ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست جیت کر بہت ہی بڑا اپ سیٹ کر دیا ۔
این اے 168 حیدرآباد سٹی کی سیٹ اب این اے 220 ہو گئی ہے جبکہ این اے 169 لطیف آباد/سائٹ کی سیٹ، این اے 219 میں تبدیل ہو گئی اور قاسم آباد اور تعلقہ حیدرآباد ایٹ ٹنڈو جام پر مشتمل قومی اسمبلی کی نئی سیٹ کا نمبر این اے 221 تھا۔ 2008 ء کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے این اے 219 لطیف آباد کے لیے امریکہ سے آنے والے سید طیب حسین کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا جنہوں نے 168136 ووٹ حاصل کیے یہ لطیف آباد کی اس سیٹ پر اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے تھے اس پر سب سے زیادہ کسی بھی ایک امیدوار کی جانب سے لیے جانے والے ووٹ تھے ۔ اس سیٹ پراب متحدہ کے ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ہی کھڑے ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہو گا کہ آیا 2013 کے انتخابات میں ایم کیو ایم اس سیٹ سے اتنے ہی ووٹ لیتی ہے یا پھر اس کو کم ووٹ ملیں گے۔
اسی طرح این اے 220 حیدرآباد سٹی پر 2008ء کے انتخابات میں متحدہ کے صلاح الدین کھڑے تھے جو 147040ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جن کے مد مقابل جے یو پی کے صاحبزادہ ابولخیر محمد زبیر نے بائیکاٹ کے باعث الیکشن میں حصہ نہیں لیاتھا اس لیے قریبی حریف پی پی پی کے عرفان قریشی ہی رہے جنہوں نے 24108 ووٹ حاصل کیے ۔گیارہ مئی 2013 کو ہونے والے انتخابات میں پیش گوئی یہی ہے کہ حیدرآباد میں تین قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے دو نشستیں ایم کیو ایم اور ایک نشست پیپلز پارٹی حاصل کر لے گی۔این اے 219 کے لیے پندرہ امیدوار آمنے سامنے ہیں جن میں متحدہ قومی موومنٹ نے ایک بار پھر سابق ایم این اے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو لطیف آباد سے ٹکٹ دیا ہے جو یہاں سے 1990 اور1997 میں منتخب ہو چکے ہیں۔انھوں نے 1990میں 91373 اور 1997 میں 54044 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی لیکن 2008 میں ایم کیو ایم کے امیدوار سید طیب حسین نے اس نشست پر 168136ووٹ حاصل کیے۔
یہاں سے جماعت اسلامی نے اپنے ضلعی امیر شیخ شوکت علی کو میدان میں اتارا ہے جنہیں مذہبی، سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے دس جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے ماجد خان بھی اسی حلقے سے کھڑے ہیں لیکن لطیف آباد کے نو رہائشی یونٹس کے باعث جہاں متحدہ کے حامی ووٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہے یہ نشست سو فیصد متحدہ کے امیدوار کے لیے جیتنا بہت آسان ہے اگر یہاں ون ٹو ون بھی مقابلہ ہو تو بھی فی الحال ایم کیو ایم یہاں کافی مطمئن رہے گی۔این اے 220کا حلقہ ہیراآباد، ٹاور مارکیٹ، میمن محلہ، کالی موری، لیاقت کالونی، گئو شالہ، انصاری محلہ، رحمن ٹاون، زچہ خانہ، پریٹ آباد، تلک چاڑی، سرے گھاٹ، شاہی بازار، پکا قلعہ، آفندی ٹاون، اسلام آباد، پھلیلی، فقیر کا پڑ، حیدر چوک، اسٹیشن روڈ، کے کے ایف اسپتال، ریشم گلی، کوہ نور چوک، دو قبر اور گرونگر کے علاقوں پر مشتمل ہے۔
ان علاقوں میں قریشی، آرائیں، مارواڑی، قاضی، ملک، خلجی، دھوبی، سومرو، سموں، راجپوت، عباسی، میمن، انصاری، بلوچ، اجمیری، ہاشمی، سانھبری، چیھپہ، شیخ، جعفری، دیسوالی، کھوکھر، سید، غوری، ناغڑ، میو برداری بڑی برداریوں میں شمار ہوتی ہے۔ این اے 220 پر کل گیارہ امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ جن میں متحدہ قومی موومنٹ نے سابق ایم پی اے سید وسیم حسین امیدوار نامزد کر دیا ۔جے یو پی کے مرکزی صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر اس نشست پر امیدوار کھڑے ہیں جنہیں دس جماعتی اتحاد کی بھرپور حمایت حاصل ہے لیکن ایک اور مذہبی اتحاد، متحدہ دینی محاذ نے اپنا امیدوار کھڑا کر دیا اورساتھ ہی سنی تحریک نے بھی صاحبزادہ ابولخیر کے سامنے اپنا امیدوار رضوان قادری کو کھڑا کر دیا ہے پی پی پی کی جانب سے اس بار یہاں سے صغیر احمد قریشی کو کھڑا کیا گیا۔ جے یو پی کے امیدوار صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کو اس حلقے پر مسلم لیگ نون، مسلم لیگ فنکشنل، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام ف، این پی پی، سندھ ترقی پسند پارٹی، قومی عوامی تحریک اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔
این اے 221 تعلقہ قاسم آباد کی پانچ یونین کونسلز اور تعلقہ حیدرآباد کی گیارہ یونین کونسلز پر مشتمل ہے لیکن چند یونین کونسلز کا بڑا حصہ ٹنڈو محمد خان پر مشتمل این اے 222 میں دے دیا گیا ہے۔ یہاں شیخ، میمن، ابڑو، جمالی، پالاری، سومرو، چانڈیو، سولنگی، سید، جتوئی، رند، مگسی، دیتھو، قمبرانی، بروہی، ملاح، شورو، کیریو، چنہ، جاموٹ، راجپوت، تھیبو، خانزادہ، انڑ، نظامانی، پھوڑ، سموں، میر اور عباسی خاندان بڑی برادریاں ہیں۔ این اے 221 پر امید ہے کہ پی پی پی کے امیدوار سید امیر علی شاہ جاموٹ مسلسل تیسری بار جیت کر اپنی ہیٹ ٹرک مکمل کر لیں گے۔ایم کیو ایم نے ممتاز کالم نگار و دانشور غازی صلاح الدین کو نامزد کر دیا ہے، تحریک انصاف کے سید احمد رشید اور سندھ ترقی پسند پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر رجب علی میمن کھڑے ہیں جنہیں دس جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے اسی طرح یہاں متحدہ دینی محاذ کے مولانا سعید جدون لڑ رہے ہیں لیکن یہاں اصل مقابلہ پی پی پی، ایم کیو ایم اور دس جماعتی اتحاد کے امیدواروں کے درمیان ہی ہو گا۔
اسی طرح پی ایس 45 پر ایم کیو ایم نے نوجوان دلاور قریشی ایڈووکیٹ کو نامزدکیا ہے ،2002 ء میں یہاں سے فاروق قریشی اور 2008 ء میں اکرم عادل قریشی کو ٹکٹ دیا گیا تھا۔ پی پی پی کی جانب سے محبوب علی المعروف جیندو سومرو، مسلم لیگ فنکشنل کے چوہدری نظام الدین آرائیں، جے یو پی کے حسین بخش حسینی، مسلم لیگ نون کے راشد آرائیں، سنی تحریک کے سید ساجد علی کاظمی، آل پاکستان مسلم لیگ کے عبدالسلام شیخ، مسلم لیگ قاف کے محمد عارف شیخ، تحریک انصاف کے محمد عثمان کینڈی، اور متحدہ دینی محاذ کے مولانا محمد سعید جدون بھی امیدوار ہیں
پی ایس 46 پر ایم کیو ایم نے انجنئیر محمد راشد خلجی کو پارٹی ٹکٹ دیا ہے اس سے پہلے ان کے چچا ڈاکٹر عارف رزمی بھی پارٹی ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں۔ راشد خلجی کے مقابلے میں پی پی پی کے بابو عبداﷲ قاضی، جماعت اسلامی کے عبدالوحید قریشی، مسلم لیگ قاف کے محمد اورنگزیب عرف علی زیب، تحریک انصاف کے غوث بخش عرف پرویز گھانگھرو، سنی تحریک کے محمد عابد قادری اور متحدہ دینی محاذ کے حافظ ارمان احمد چوہان بھی امیدوار ہیں۔
پی ایس 47 پر پی پی پی نے ضلعی صدر زاہد علی بھرگڑی کو تیسری بار نامزد نہیں کیا،ان کے بجائے اس بار ٹکٹ جام خان شورو کو دیاگیا ہے جن کی اپنی برادری بڑی تعداد میں تعلقہ قاسم آباد میں رہائش پذیر ہے ان کے مقابل 40 دیگر امیدواروں میں یہاں سے دس جماعتی اتحاد کے حمایت یافتہ قومی عوامی تحریک کے صدرایاز لطیف پلیجو ایڈووکیٹ، متحدہ قومی موومنٹ کے علی احمد بروہی، تحریک تحفظ پاکستان کے ارباب علی چانڈیو، مسلم لیگ قاف کے عبدالطیف ابڑو، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے سینئر رہنماء مجید سیال،محبوب علی ابڑو، تحریک انصاف کے نور مرتضی تھیبو، ڈاکٹر ہادی بخش جتوئی و دیگر میدان میں ہیں۔
پی ایس 48 لطیف آباد پر ایم کیو ایم نے ایک بار پھر زبیر احمد خان زئی کو ٹکٹ دیا ہے جن کے مقابل پی پی پی کے رجب علی خاصخیلی، تحریک انصاف کے اشتیاق الدین خان، مسلم لیگ قاف کی سیدہ تسنیم زہرہ، آل پاکستان مسلم لیگ کی شہناز نعیم، پی پی پی ش ب کے عمران مغل، دس جماعتی اتحاد نے جے یو آئی کے ہمایوں خان مندوخیل کو کھڑا کر رکھا ہے۔
پی ایس 49 پر متحدہ نے اپنے انتہائی مضبوط امیدوار صابر حسین قائم خانی کو کھڑا کیا ہے ،ان کے مقابل پی پی پی کے عبدالجبار خان ، اے این پی کے جاوید احمد خان، دس جماعتی اتحاد کے حمایت یافتہ جماعت اسلامی کے ڈاکٹر سیف الرحمن، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سعید اکبر، متحدہ دینی محاذ کے غنی الرحمن امیدوار ہیں۔
پی ایس 50ٹنڈوجام پر کل امیدواروں کی تعداد 32 تھی جن میں سے تقریباً دس امیدوار پی پی پی شرجیل انعام میمن کے حق میں دستبردار ہو گیے ہیں جن میں یہاں سے دو بار منتخب ہونے والے پیر امجد حسین شاہ جیلانی بھی شامل ہیں تاہم اگر دیکھا جائے تو یہاں شرجیل انعام میمن کا مقابلہ پی پی پی ہی کے خاوند بخش جھیجو کر رہے ہیں ،فنکشنل لیگ کے حسینی شہاب الدین شاہ، دس جماعتی اتحاد کے امیدوار ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے اسلم شورو میدان میں ہیں۔