شکریہ بھارت اے مرد مجاہد جاگ ذرا

ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمیں وسیع ترملکی مفاد کا خیال اس وقت آتا ہے جب ہمارے ذاتی مفاد کو گزند پہنچتی ہے

ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمیں وسیع ترملکی مفاد کا خیال اس وقت آتا ہے جب ہمارے ذاتی مفاد کو گزند پہنچتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمیں بہرحال یہ حقیقت ماننا ہوگی کہ بھارت ہمارا بہترین دوست ہے۔ ہماری ترقی کے زیادہ تر سنگ ہائے میل بھارت ہی کے مرہون منت ہیں۔ مثلاً پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ہمارے ہاں کوئلے سے ٹرین چلتی تھی اور یہ کوئلہ بھارت سے آتا تھا۔ مگر پھر بھارت نے مہربانی فرمائی اور ہمیں کوئلہ دینے سے انکار کردیا اور یوں ہم بھارت کی وجہ سےترقی کرنے پر مجبور ہوئے۔ پھر اس کے بعد تربیلا ڈیم، ایٹم بم اور دیگر کئی شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھارت نے پہل کرکے ہمیں ترقی کرنے پر مجبور کیا۔ اور اب بھارت نے کشن گنگا ڈیم کے ذریعےایک بار پھر ہمیں خواب غفلت سے جگایا ہے۔

بھارت کی اس مہربانی پر آئی ایس پی آر کے ترجمان نے ''اگلی جنگ پانی پر ہوگی'' کے الفاظ سے مہر ثبت کی۔ اس کے بعد وقتی طور ایک طوفان برپا ہوا، مگر اب اس میدان میں چیف جسٹس صاحب کی صورت میں صرف ایک مرد مجاہد باقی بچا ہوا ہے۔ عوام اور سیاستدانوں کی اکثریت کی حالت یہ ہے کہ

روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا


بدقسمتی سے ہمارا یہ قومی المیہ رہا ہے کہ ہمیں وسیع تر ملکی مفاد کا خیال اس وقت آتا ہے جب ہمارے ذاتی مفاد کو گزند پہنچتی ہے۔ اس سے پہلے کہ چیف جسٹس صاحب تھک ہار کر بیٹھ جائیں، عوام اور خواص کو ان کے اس ملک بچاؤ مشن میں ساتھ دینا ہوگا۔ خواص میں سے بالخصوص آرمی چیف صاحب اگر کچھ ایسا کردار ادکریں جیسا اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے تو ہم منزل بہ آسانی حاصل کرسکتے ہیں۔


واقفان حال کا کہنا ہے کہ تربیلا ڈیم بنانے کے فیصلے کی بھی ایسی ہی مخالفت ہوئی جیسے آج اس جدید دور میں کالا باغ ڈیم کی ہو رہی ہے۔ محترم جناب صدر ایوب صاحب نے مخالفین کے بارے میں حقائق جاننے کےلیے خفیہ سروے کروایا تاکہ حقیقت حال معلوم کی جاسکے تو جو باتیں سامنے آئیں وہ حقیقت کے برعکس تھیں۔ مخالفین میں سے کچھ لوگ اقتدار کی، کچھ پیسے کی، کچھ عہدے کی اور کچھ صرف شہرت کی خاطر تربیلا ڈیم کی مخالفت کررہے تھے۔ صدر صاحب نے حکمت اور بصیرت سے کام لیا۔ جنہیں اقتدار چاہیے تھا ان کو اقتدار، جو عہدے کے طالب تھے انہیں عہدے، جنہیں مال و زر اور شہرت دھرتی ماں کے مقابلے میں عزیز تھی ان کا بندوبست کیا اور یوں تربیلا ڈیم کی تکمیل ہوئی۔

اس نازک موقعے پر عوام الناس کوبھی بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، خاص طور پر ووٹر حضرات کو جن کا اقتدار اس وقت سوا نیزے پر ہے۔ ماضی و مستقبل کے وزیر اور مشیر اس وقت ووٹر کی طرف پوری طرح متوجہ ہیں۔ یہی وقت ہے جب ووٹر دور اندیشی کا مظاہر کرتے ہوئے اپنے گھر پر آنے والے معزز مہمانوں سے ڈیموں کی تعمیر کا مطالبہ منواسکتا ہے۔ ووٹر کےلیے اس صورتحال کا بروقت ادراک کرنا اس لیے بھی ضروری کہ ڈیموں کی تعمیر نہ ہونے سے سب سے زیادہ یہ ووٹر ہی متاثر ہوگا کیونکہ کل خدانخواستہ اگر پاکستان میں پانی کی قلت بحرانی صورت اختیار کرجائے تو تو میرے وطن کے لیڈران کو تو ایسے ہی استثنا حاصل ہوگا جیسے اب بجلی کی لوڈشیڈنگ کے موقع پر ہوتا ہے۔ اس لیے یہی موقع ہے کہ جب ووٹروں کو دور اندیشی سے کام لینا ہوگا اور اپنے در پر سوالی بن کر آنے والے اپنے معزز لیڈروں کے سامنے پرزور انداز میں ڈیموں کی تعمیر کا مطالبہ رکھنا ہوگا۔ یہ مطالبہ کالا باغ ڈیم کا بھی ہوسکتا ہے اور اگر یہ نام اور جگہ پسند نہیں تو کسی اور جگہ پر اتنی ہی گنجائش کا ڈیم ہو، جیسے زرکٹ ڈیم وغیرہ۔ اگر ہم نے حقیقت کو جانتے ہوئے بھی آنے والوں کے سامنے یہ مطالبہ نہ رکھاتو یاد رکھیے اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

(مفہوم:) ''خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا۔''


مگر ہم پر ایسی آیا ت کا اثر شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کیونکہ ہم قرآن کو صرف ثواب کےلیے پڑھتے ہیں، عمل کی نیت سے نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story