خیرپورپیپلزپارٹی اورفنکشنل لیگ میں سخت مقابلے

ضلع خیرپور تین قومی اور 6 صوبائی نشستوں پر مشتمل ہے۔این اے 215 پر مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر۔۔۔


Ashraf Mughal 1 May 05, 2013
ضلع خیرپور تین قومی اور 6 صوبائی نشستوں پر مشتمل ہے۔ فوٹو: فائل

کھجور کے باغات کے حوالے سے ملکی و غیر ملکی شہرت کے حامل ضلع خیرپور میں 11 مئی کو ہونیوالے عام انتخابات کے سلسلے میں سیاسی دنگل کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔

یکم مئی کے بعد امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم میں تیزی آگئی ہے، ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے صوبائی صدور مسلم لیگ فنکشنل کے صوبائی صدر پیر سید صدرالدین شاہ، مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر سید غوث علی شاہ، پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر سید قائم علی شاہ اور ان کی اولاد انتخابات لڑرہی ہے، اس کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی اکثریت کا تعلق سید برادری سے ہے،دو سابق وزراء اعلیٰ، تین سابق صوبائی وزراء، ایک سابق وفاقی وزیر، چار سابق اراکین قومی اسمبلی اور پانچ سابق اراکین صوبائی اسمبلی انتخابی دنگل میں شامل ہیں۔

ضلع خیرپور تین قومی اور 6 صوبائی نشستوں پر مشتمل ہے۔این اے 215 پر مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ، پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی حاجی نواب خان وسان، مجلس وحدت مسلمین کے خیر محمد شیخ، متحدہ دینی محاذ کے ایڈووکیٹ قدرت اللہ راجپوت، متحدہ قومی موومنٹ کے اصغر رند، امام علی بروہی، سید اسد اقبال زیدی، سید بابر رضا، سید سرکار حسین، شفقت حسین بھیو، عبدالجبار شیخ، انجینئر شیر محمد پھلپوٹو کے علاوہ 20 سے زائد امیدوار حصہ لے رہے ہیں، اس حلقے پر اصل مقابلہ سید غوث علی شاہ اور حاجی نواب خان وسان میں ہے۔

این اے 216 ریگستانی صحرائی تحصیل نارا، ٹھری میرواہ سمیت دیگر علاقوں پر مشتمل ہے جس کی سرحد بھارت کے ساتھ بھی لگتی ہے، وہاں مسلم لیگ فنکشنل کے صوبائی صدر پیر سید صدرالدین شاہ پیپلزپارٹی کے رئیس ساجد حسین بھانبھن سے مقابلہ کرینگے، ماضی میں اس حلقے سے پیر سید صدرالدین شاہ تین بار جیت کر ہیٹرک کرچکے ہیں کیونکہ اس حلقے میں پیر پگارا کے مریدوں اور حر جماعت کی کثیر تعداد موجود ہے جو ہمیشہ لیگی امیدوار کو ہی کامیاب کراتے ہیں اور اس بار بھی لگ رہا ہے کہ پیر سید صدرالدین شاہ بہت آسانی کے ساتھ اس حلقے سے جیت جائینگے۔

این اے 217 اس بار بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے اور اس حلقے پر پیپلزپارٹی کے امیدوار اور پیر آف رانی پور ماضی میں کامیاب ہوتے رہے ہیں، اس بارپی پی پی قیادت نے انہیں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا ہے اور قومی اسمبلی کا ٹکٹ سید قائم علی شاہ کے بھانجے سید جاوید علی شاہ کو دیا گیاہے جس کے مدمقابل مسلم لیگ فنکشنل کے سید کاظم علی شاہ مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ سید جاوید علی شاہ اس حلقے میں نئے اور غیرمقامی ہیں جنہیں اپنی انتخابی مہم کیلیے بہت محنت کرنا پڑرہی ہے، اس کے علاوہ گزشتہ دور میں رکن صوبائی اسمبلی رہنے والے پیپلزپارٹی کے امیدواروں نعیم احمد کھرل اور پیر بچل شاہ کی حلقے میں بڑی مخالفت ہورہی ہے جس پر سید جاوید علی شاہ کوسخت مشکلات پیش آرہی ہیں۔

مسلم لیگ فنکشنل کے امیدوار سید کاظم علی شاہ کی پوزیشن کافی اچھی ہے ، وہ سابق وزیر خارجہ اور پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کے خلیفہ بھی ہیں، انہیں فنکشنل لیگ، عزیز و اقارب، مختلف برادریوں کے علاوہ پیر پگارا اور مخدوم شاہ محمود کے مریدوں کی بڑی تعداد بھی ووٹ دیگی۔ان کی انتخابی مہم کافی اچھی جارہی ہے، گزشتہ انتخابات میں وہ پیپلزپارٹی کے امیدوار سے شکست کھاگئے تھے، اس کے علاوہ 6 صوبائی حلقوں میں پی ایس 29 پر دو سابق وزراء اعلیٰ پی پی کے سید قائم علی شاہ اور مسلم لیگ (ن) سمیت دس جماعتی اتحاد کے سید غوث علی شاہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، دونوں اپنی اپنی پارٹیوں میں اہم حیثیت رکھتے ہیں اور مختلف ادوار میں مختلف حکومتی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔



ان کے علاوہ اس حلقے سے آصف زرداری رہائی کمیٹی کے صدر آزاد امیدوار مبین احمد خان پھلپوٹو، متحدہ قومی موومنٹ کی خاتون امیدوار سیدہ طلعت زہرہ، شیخ برادری کے عبدالجبار شیخ، امداد خمیسانی، معروف صنعتکار سکندر جتوئی کے بھائی دیدار جتوئی، آزاد امیدواروں میں جہانگیر بشیر مغل، سارنگ سومرو کے علاوہ 30 سے زائد امیدوار الیکشن لڑرہے ہیں، 2002ء کے انتخابات میں سید قائم علی شاہ نے 26 ہزار 9 سو 87 ووٹ لیکر مسلم لیگ فنکشنل کے طاہر امتیاز پھلپوٹو کو شکست دی تھی، طاہر امتیاز نے 8 ہزار 8 سو 13 ووٹ حاصل کیے تھے، 2008 میں بھی سید قائم علی شاہ نے فنکشنل لیگ کے ظفر اقبال بلال کو شکست دی تھی، سید قائم علی شاہ نے 46 ہزار 6 سو 56 ووٹ لیے جبکہ ظفر اقبال بلال نے 10 ہزار 9 سو ووٹ لیے تھے، اسی طرح اس حلقے میں سید قائم علی شاہ کی پوزیشن اچھی ہے، خیرپور میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرانے پر وہ اس حلقے سے کامیاب ہوکر ہیٹرک کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ صوبائی حلقہ پی ایس 30 کنگری تحصیل پر مشتمل ہے۔

اس حلقے سے حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا کے بڑے فرزند پیر سید محمد راشد علی شاہ پہلی بار فنکشنل لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں، وہ مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے نائب صدر اور ذہین نوجوان قیادت کے طور پر منظر عام پر آئے ہیں، ان کے مدمقابل پیپلزپارٹی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی اور درگاہ ڈرب مہر شاہ کے سجادہ نشین پیر سید بچل شاہ، ایم کیو ایم کے عارف مسیح، تحریک انصاف کے خرم شکیل، آزاد امیدوار بیرسٹر ضمیر گھمرو الیکشن لڑرہے ہیں، اس حلقے سے گزشتہ الیکشن میں پی پی امیدوار پیر سید بچل شاہ فنکشنل لیگ کے شفقت مہیسر کو شکست دیکر رکن صوبائی اسمبلی بنے تھے مگر اس بار ان کا مقابلہ پیر سید محمد راشد علی شاہ کے ساتھ ہوگا۔

صوبائی حلقہ پی ایس 31 ٹھری میرواہ پر مشتمل ہے جس پر پیپلزپارٹی کے پیر آف رانی پور پیر فضل شاہ مسلم لیگ (ف) کے پیر سید معشوق علی شاہ کے مدمقابل ہیں، اس حلقے سے 2008 ء کے انتخابات میں پیر فضل شاہ کے بھائی پیر پیار علی شاہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے مگر اب پیر فضل شاہ سے قومی ٹکٹ لیکرانہیں اس حلقے سے صوبائی ٹکٹ دیا گیا ہے۔



صوبائی حلقہ پی ایس 32 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار منظور حسین وسان، مسلم لیگ فنکشنل کے میر شاہنواز تالپور، غازی برڑو سمیت دس سے زائد پارٹیوں اور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، اس حلقے میں 1988 ء سے لے کراب تک ہر الیکشن میں منظور حسین وسان کامیاب ہوتے رہے ہیں، منظور حسین وسان سندھ کے وزیر داخلہ، ورکس، معدنیات، جیل خانہ جات رہ چکے ہیں، ان کی پارٹی اور اپنے حلقے میں بڑی گرفت ہے اور وہ ایک منجھے ہوئے سیاسی رہنما ہیں جن کا مقابلہ کرنا فنکشنل لیگ کے امیدوار شاہ نواز کے بس کی بات نہیں کیونکہ 2008 ء کے انتخابات میں بھی منظور حسین وسان اسی حلقے سے فنکشنل لیگ سندھ کے صدر پیر سید صدرالدین شاہ کو شکست دے چکے ہیں، سندھ سمیت پورے ملک میں پیپلزپارٹی کے امیداروں کیخلاف لوگوں کی شکایات کے بعد منظور حسین وسان جو اپنے حلقے سے آسانی کے ساتھ کامیاب ہوتے تھے اب انہیں کافی محنت کرنا پڑرہی ہے اور وہ دن رات اپنے حلقے میں طوفانی انتخابی مہم چلارہے ہیں، ان کے انتخابی قافلے میں قیمتی گاڑیاں شامل ہوتی ہیں مگر حلقے میں انہیں بہت دشواریاں پیش آرہی ہیں پھربھی لگتاہے کہ اس حلقے میں منظور وسان سخت مقابلے کے بعد کامیاب ہوجائینگے۔

صوبائی حلقہ پی ایس 33 فیض گنج اور نارا تحصیلوں پر مشتمل ہے، اس حلقے میں مسلم لیگ فنکشنل کے امیدوار سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر رفیق بھانبھن اپنی ہی برادری کے پیپلزپارٹی کے امیدوار زاہد بھانبھن کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں، وہ دونوں آپس میں سالا بہنوئی بھی ہیں، ان کے علاوہ دیگر دس سے زائد امیدوار بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، 2008ء کے انتخابات میں اس حلقے سے ڈاکٹر رفیق بھانبھن کامیاب ہوئے تھے، اس بار بھی ڈاکٹر رفیق بھانبھن کا پلڑا بھاری معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان کو نواز لیگ سمیت دس جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے۔

صوبائی حلقہ پی ایس 34 پر پیپلزپارٹی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی نعیم احمد کھرل فنکشنل لیگی امیدوار اور پیر سید صدرالدین شاہ کے بیٹے پیر سید اسماعیل شاہ، اسد کھوڑو کے علاوہ دیگر 15 سے زائد آزاد امیدوار مدمقابل ہیں۔ اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے نعیم احمد کھرل اور مسلم لیگ (ف) کے پیر اسماعیل شاہ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے کیونکہ اس حلقے کا زیادہ تر علاقہ دریائے سندھ کے کچے کا علاقہ ہے، یہاں پر مختلف برادریاں انتخابات کے دوران اہم کردار ادا کرتی ہیں، وہ جس امیدوار کی بھی حمایت کرتی ہیں وہ آسانی کے ساتھ کامیاب ہوتا ہے، اس کے علاوہ گمبٹ شہر کی شیخ برادری بھی بھاری اکثریت رکھتی ہے، 2008 ء کے انتخابات میں نعیم احمد کھرل نے فنکشنل لیگ سندھ کے جنرل سیکریٹری امتیاز علی شیخ کو شکست دیکر کامیابی حاصل کی تھی مگر دیگر پی پی پی امیدواروں کی طرح نعیم احمد کھرل کیلیے بھی اس بارانتخابی مہم چلانا دشوار ہوگیا ہے اور ہر کارنر میٹنگ میں پی پی پی کے جیالے شکوے شکایات، نظرانداز کرنے، ملازمتیں فروخت کرنے سمیت دیگر الزامات کے انبار لگادیتے ہیں۔



اس کے باوجود نعیم کھرل کے مدمقابل امیدوار پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کے والد پیر سید صدرالدین شاہ اپنے قومی حلقہ 216 پر انتخابی مہم چلانے کے بجائے اپنے اکلوتے بیٹے کی کامیابی کیلیے دن رات انتخابی مہم چلارہے ہیں، خیرپور میں پگارا خاندان کے دو نئے چہرے اگر انتخابات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سیاسی تبدیلی اور نئے چہروں کی آمد سے عوام کی پرانے چہروں سے جان چھوٹ جائیگی۔خیرپور کی سیاست کے اثرات سندھ اور ملکی سیاست پر نمایاں ہوتے ہیں، خیرپور سے قد آور سیاسی شخصیات کا تعلق ہے جو ہر دور میں کسی نہ کسی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہ کر خدمات سرانجام دیتی ہیں، بار بار کے انتخابات اور پی پی پی حکومت کا پانچ سالہ دور مکمل ہونے کے بعد اس بار عوام میں سیاسی شعور بڑھنے اور پی پی پی حکومت میں کی ناقص پالیسیوں، اپنوں کو نوازنے، ملازمتیں و ٹھیکے فروخت کرنے کی شکایات و الزامات عوام کی زبان پر عام ہیں اور سابقہ دور میں رہنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی جنہیں اب بھی پارٹی قیادت نے ٹکٹ دیا ہے ان کیلیے انتخابی مہم چلانا بہت مشکل ہوگیا ہے اور کارنر میٹنگز میں بھی پی پی پی امیدواروں کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور گندے انڈے و ٹماٹر پھینکنے اور جوتے دکھانے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

ایسی صورتحال سے آزاد امیدوار اور 10 جماعتی اتحاد کے امیدوار بچ گئے ہیں اور وہ بہت آسانی سے اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں مگر جن پی پی پی امیدواروں نے سابقہ حکومت میں کرپشن کی ہے وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر لفافے دیکر ووٹروں کومنانے میں لگ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ناراض اور نظرانداز کارکنوں اور کچھ بلیک میلروں کی جانب سے بھی علیحدہ علیحدہ برادری اتحاد بناکر امیدواروں کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ ماضی میں سندھی روایت تھی کہ گھر پر چل کر آنیوالے سید، نوجوان لڑکی، قرآن پاک لیکر آنیوالوں کو قتل سمیت دیگر گناہ اور جرائم معاف کردیئے جاتے تھے مگر اب ان چیزوں کی قدر اور اولیت ختم ہوگئی ہے،لوگ امیدواروں کوکھری کھری سنارہے ہیں،تعزیت کے لیے آنے والے امیدواروں کو تعزیت قبول کیے بغیر واپس کیا جارہا ہے۔

ناراض امیدوار مبین احمد پھلپوٹو نے سیدغوث علی شاہ اور سید قائم علی شاہ کو ضعیف ہونے پر انتخابات سے دستبردار ہونے کیلیے دو، دو کروڑ اور عمرے و حج کے ٹکٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود سہارا لیکر چلتے ہیں تو دوسروں کو کیا سہارا دینگے، لوگ ان سے چھٹکارہ حاصل کریں اور مجھے کامیاب کرائیں۔ 11مئی 2013 کے انتخابات میں سیاسی پارٹیوں نے 4 خواتین کو مخصوص نشستوں پر امیدوار نامزد کیا ہے جن میں پیپلزپارٹی کی جانب سے ڈاکٹر نفیسہ شاہ، ڈاکٹر مہرین بھٹو اور صوبائی اسمبلی پر غزالہ سیال جبکہ مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے سابق دور میں رکن صوبائی اسمبلی رہنے والی نصرت سحر عباسی کو نامزد کیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں