بھارت نے سربجیت سنگھ کی موت کا بدلہ لے لیا

انسانی نقطہ نظرسے دیکھاجائے تولاہور کی جیل میں قید بھارتی دہشت گردسربجیت سنگھ کی مبینہ تشدد کے بعد موت ایک۔۔۔


Tanveer Qaisar Shahid May 05, 2013
[email protected]

انسانی نقطہ نظرسے دیکھاجائے تولاہور کی جیل میں قید بھارتی دہشت گردسربجیت سنگھ کی مبینہ تشدد کے بعد موت ایک المیہ ہی تو ہے۔ اُس کا جرم ثابت ہوچکا تھالیکن اُسے پھانسی کے پھندے تک لے جانے میں دانستہ تاخیر کی گئی۔چاہیے تو یہ تھا کہ اُس کی سزا پر بھی اُسی طرح فوراً عمل کردیاجاتاجس طرح بھارت نے اپنے ہاںمقبول بٹ، اجمل قصاب اور افضل گوروکی سزائے موت پر فوراً عمل کرڈالاتھا۔سربجیت سنگھ پر مبینہ تشدد اور اسپتال میں اُس کی موت وحیات کی کشمکش کے دوران اُس کی دونوں جواں سال بیٹیوں ،بیوی اور ہمشیرہ دلبیر کورکی اے ایف پی پرشایع ہونے والی کئی تصاویر کو مَیں نے بغور دیکھا ہے۔گولڈن ٹیمپل میں متھا ٹیکتے ہوئے، پاکستان آکر سکھوں کے مقدس مقامات پر اِن چاروں سکھ خواتین کا جھولیاں اُٹھا اُٹھاکر دعائیں کرنااور آنسوبھری آنکھوں سے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھانا۔یہ سب مناظر نہ اُبھرتے اگر دہشتگرد سربجیت سنگھ کو عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا پر برسوں قبل ہی عملدرآمد ہوجاتا۔

سربجیت سنگھ غیرفطری طور پر موت سے ہمکنار ہوا تو فطری اعتبار سے ہمدردیاں اُس کے حق میں ہیں۔بھارت بھر میں واویلا مچا اور اِسے قتلِ عمد سے موسوم کیاگیا ۔یقینا اِس سے پاک بھارت تعلقات پرمنفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اِدھر سربجیت سنگھ کی آخری رسوم ادا کی جارہی تھیں اور اُدھر مقبوضہ کشمیر کی بھلوال جیل میں قید ایک پاکستانی قیدی (52سالہ ثناء اللہ)پر ساتھی قیدی ونود کمارنے تیز دھار آلے سے سرپر حملہ کرکے اُسے شدید زخمی کردیا۔اُس کا بھیجہ باہر نکل آیاتھا۔وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔پاکستان میں بھارتی قیدیوں کی تعداد535بتائی جاتی ہے۔ سربجیت سنگھ کے حوالے سے بھارتی وزیرِ داخلہ سوشیل کمار شندے اور وزیرِ خارجہ سلمان خورشید کے بیانات پاکستان کے خلاف آئے ہیں،اگرچہ الفاظ میں احتیاط اور سفارت کاری کاعنصر بھی شامل ہے۔

پنجاب کے نگراں وزیرِاعلیٰ جناب نجم سیٹھی، جن کے بھارت کے ساتھ نہایت اچھے تعلقات بتائے جاتے ہیں،نے سربجیت سنگھ کی اچانک موت کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا بھی اعلان کیا ہے۔لاہور کی جیل میں سربجیت سنگھ کے ساتھ مبینہ تشدد کی شکل میں جو کچھ ہوا،وہ اپنی نوعیت کا پہلاواقعہ نہیں ہے۔خود بھارت میں بھی گزشتہ سے پیوستہ ماہ (14مارچ2013ء کو)دہلی کی تہاڑجیل میں ایک خاتون کے ریپ کے ملزم(رام سنگھ) کا اپنی کوٹھڑی میں خود ہی پھندا لے کرمرجانا بھی ایسی ہی ایک معنی خیز مثال ہے۔ اُس کی موت کے بارے میں بھارت کے اندر ہی یہ چہ میگوئیاں کی گئیں کہ ملزم کے خلاف بھارت بھر میں جو بے پناہ طیش پایا جارہا تھا، اُس سے نجات حاصل کرنے کے لیے بعض نادیدہ ہاتھوں نے جیل کے اندر ہی اُس کا کام تمام کردیا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارتی انتظامیہ نے ثناء اللہ کو موت کی وادی میں پہنچانے کی کوشش کرنے والوں کے بارے میں تادیبی کارروائی کے اُس طرح بیانات جاری نہیں کیے جس طرح پاکستان نے سربجیت سنگھ پر ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔سربجیت سنگھ پر ہونے والے تشدد سے اُٹھنے والے سوالات بے معنی اور بے بنیادنہیں ہیں۔مثلا:یہ کہ وہ آہنی سلاخ کہاں سے آئی جس سے سربجیت سنگھ کو مبینہ طور پر پیٹاگیا اور اس کے سرپر گہری ضرب لگی اور اب یہ سوال بھی کہ مقبوضہ کشمیر کی جیل میں وہ گینتی کہاں سے آئی جس سے پاکستانی قیدی ثناء اللہ کا سرپھوڑاگیا ہے؟ تاسف کی بات یہ بھی ہے کہ دہشت گرد سربجیت سنگھ نے جن چودہ پندرہ پاکستانیوں کو بموں سے شہید کیا، ان کے دکھ درد کی بات کوئی نہیں کررہا۔کوئی یہ ذکر نہیں کرتا کہ سربجیت سنگھ نے اپنے بھارتی آقائوں کے حکم پرپاکستان کے جن پندرہ خاندانوں کو اجاڑ ڈالا،اُنہیں آخر کن جرائم کی سزا دی گئی؟اُن کی زندگیوں کے چراغ کیوں بجھادیے گئے؟

سربجیت سنگھ کی میت کو بھارت میں جو پروٹوکول دیاگیا ہے، اُسے جس طرح ''قومی ہیرو'' کے خطاب سے نوازاگیا ہے،اُسے جس اسلوب میں بھارتی پنجاب کے وزیرِاعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے سلامی دی ہے،اُس کے خاندان کو بھارتی صوبائی سرکار نے جس انداز میں فوراً ایک کروڑ روپے اور مرکزی حکومت کی طرف سے 25لاکھ روپے کی بھاری امداد عنایت کی گئی ہے، اُسے''شہید'' کا درجہ دے کر لاش کو نذرِآتش کرنے سے قبل بھارتی قومی پرچم میں لپیٹاگیا اور جس انداز میں سربجیت سنگھ کی دونوں بیٹیوں(سوپن دیپ اورپونم) کو اعلیٰ تعلیم کے حصول وسرکاری ملازمتیں دینے کی جو پیشکش کی جارہی ہے،اِس سے بہرحال یہ توثابت ہوگیا ہے کہ سربجیت سنگھ ''صاحب''معصوم نہیں تھے۔وہ یقینا بھارت سرکار کا ایک سندیافتہ جاسوس تھا جسے باقاعدہ تربیت دینے کے بعد پاکستان بھیجاگیاتھا۔ وہ اپنے بے گناہ ہونے اور ''غلطی'' سے سرحد پار کرکے پاکستان آنے کی جتنی قسمیں کھاتاتھا،سب کذب وریاتھیں۔موت نے سربجیت سنگھ کی پگڑی کے سارے جھوٹے بَل کھول دیے ۔

ایسے میں ''ٹائمزآف انڈیا''کو ایک بھارتی مسلمان کی ''داستانِ الم'' بھی یاد آگئی ہے جس میں بھارتی اخبار نے حسبِ معمول آئی ایس آئی پر بہتان بھی باندھے ہیں۔ اس بھارتی مسلمان کا نام محبوب الٰہی شمسی بتایاگیا ہے جو آج کل کلکتہ میں مقیم ہے۔اُسے 1977ء میں لاہور کے لکشمی چوک سے ایف آئی یو نے گرفتار کیاتھا کہ وہ بھارت کے لیے جاسوسی پر مامور کیاگیا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں گرفتار ہونے والے محبوب الٰہی شمسی کو،بقول ٹائمز آف انڈیا،بیس برس بعد نوازشریف کی دوسری وزارتِ عُظمیٰ کے دوران رہا کردیاگیاتھا۔شمسی لاہور،گوجرانوالہ اورسندھ کی جیلوں میں قید رہا۔اُس نے ''ٹائمزآف انڈیا'' کے 3مئی 2013ء کے شمارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے:''گوجرانوالہ جیل میں سربجیت سنگھ بھی میرے ساتھ ہی قیدتھا۔ہمارے ساتھ ایک تیسرا بھارتی بھی قیدتھا جس کانام ملکیت سنگھ تھا۔اُس پر بھی ،سربجیت سنگھ کی طرح پاکستان میں بم دھماکے کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ہمیں جیل میں آہنی زنجیروں سے باندھ کر رکھاجاتاتھا۔خیرپور جیل میں فوجی افسر مجھ پر تشدد کرنے آتے تھے۔مجھے یقین ہے سربجیت سنگھ کو آئی ایس آئی نے مارا ہے۔''

شمسی ''صاحب ''بھارتی اخبار کے سامنے پاکستان اور آئی ایس آئی پر بہتان تراشی کرکے تو''سرخرو'' ہوگئے لیکن بھارتی حکومت نے اپنے اِس جاسوس کو تین عشرے گزرنے کے باوجود پنشن تک نہیں دی اور یہ بے چارے سابق جاسوس صاحب بھارتی عدالتوں میں خجل خوار ہورہے ہیں۔اِس پروپیگنڈہ خبر پر بعض لوگوں نے مذکورہ اخبار کو ای میلز بھی بطور تبصرہ بھیجی ہیں جن میں کہاگیا ہے کہ سربجیت سنگھ سے جوسلوک کیاگیا ہے،بھارت کو چاہیے کہ پاکستان پر حملہ کردے۔اِن احمقانہ مشوروں پر بھارت بھلا کیونکر عمل کرسکتا ہے؟ وہ تو جنرل پرویزمشرف دَور میں اُس وقت بھی پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرسکاتھا جب اُس نے بھارتی پارلیمنٹ پر ''مجاہدین'' کے حملے کا خوفناک ڈرامہ رچایاتھا۔یہاں اِس بات کا ذکر ضروری ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے آتشِ انتقام میں جلتے ہوئے پاکستانی قیدی ثناء اللہ سے جو متشددانہ اور بہیمانہ سلو ک کیا ہے،بدلہ لینے کی یہ اچھی مثال قائم نہیں کی گئی۔یوں آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے بھی بھارت نے ایسا دروازہ کھول دیا ہے۔مواقع توکئی آئیں گے۔انشاء اللہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں