نیوز فلم انڈسٹری
نون لیگ میں اس وقت رانا ثنا اللہ کی حیثیت وہی ہے جو ہمارے ہاں ایک...
اس بار عید پر قومی زبان کی ایک فلم بھی نمائش کیلیے پیش نہیںکی جا رہی۔ اس لیے سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں فلم انڈسٹری عملاً ختم ہو چکی ہے۔ کبھی ہماری فلم انڈسٹری عروج پر ہوا کرتی تھی ۔ سالانہ 125سے زائد فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاتی تھیں۔ہمارے ہاں ایک عرصہ سے فلم انڈسٹری کی جگہ نیوز انڈسٹری نے لے لی ہے۔ اس لیے ہیروز، ہیروئینز، سائیڈ ہیرو، ولن، سپورٹنگ کاسٹ سمیت ایکسٹراز تک سیاسی جماعتوں سے کاسٹ کیے جارہے ہیں۔
مجھے میرے ایک اینکر پرسن ساتھی نے بتایا کہ اسے اپنے ٹاک شو میں مختلف شخصیات کو دعوت دیتے ہوئے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میںنے پوچھا کہ عموماً تو سمجھا جاتا ہے کہ سیاستدان ٹاک شوز میں جلوہ گر ہونے کیلیے بیتاب ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ پہلے ایک سیاستدان کو سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کیلیے جلسہ کرنا پڑتا تھا مگر ٹاک شوز کی سہولت کے بعد کسی اسٹار اینکر کے شو کو ''لیاقت باغ'' بنانے کے لیے ان سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔
میرے ساتھی نے بتایا کہ مختلف سیاسی جماعتوںکے رہنما فلمسٹارز کی طرح نخرے کرتے ہوئے شرائط عاید کرتے ہیں کہ اگر وہ تشریف لائیںگے تو ان کے مد مقابل کون ہو گا؟ میرے ساتھی اینکر پرسن نے مجھے بتایا کہ اگر میں نون لیگ سے خواجہ سعد رفیق کو اپنے ٹاک شو میں مدعو کروں گا تو مجھے ان کا سامنا کرنے کیلیے راجہ ریاض کے بجائے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی سے کسی ''اسٹار'' کو ہی پروگرام میں بلانا ہو گا۔
مجھے میرے دوست کی یہ پرابلم خاصی دلچسپ لگی۔ یوں لگا جیسے ٹاک شوز کی تیاری میں بھی انھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے فلم انڈسٹری میں ایک کاسٹ ویلیو رکھنے والی فلم کی تیاری میں آتے ہیں۔ اینکر دوست نے مجھے مزید بتایا کہ سیاسی اسٹارڈم اور حفظ مراتب کا مطالبہ صرف خواجہ سعد رفیق ہی نہیں کرتے بلکہ ہر سیاسی پارٹی کا رہنما یہ چاہتا ہے کہ اس کے سامنے اس رہنما کو مدعو کیا جائے جس کا سیاسی سوشل اسٹیٹس کم از کم اس کے ہم پلہ ہو۔
سیاسی رہنماوںکی اس مجبوری سے مجھے شو بزنس کا وہ اصول یاد آ گیا ہے جو شاید لالی وڈ اور بالی وڈ سے لے کر ہالی وڈ تک رائج ہے۔ فلم انڈسٹری ہو یا نیوز انڈسٹری اس کی اسٹار کاسٹ بناتے ہوئے میکرز کو انھی چہروں کو سکرین پر لانا ہوتا ہے جو اپنے اندر ایک ''اسٹار کریزما'' رکھتے ہیں۔ اپنے اینکر دوست کے بعد میں نے جب اس انڈسٹری سے جڑے بعض دوسرے لوگوں سے بات کی تو دلچسپ حقائق سامنے آئے۔ بتایا گیا کہ خبروں کی دنیا اب فلمی دنیا کا روپ دھار چکی ہے اور اس پر نظر آنے والے سیاستدان اور اینکر پرسنز اسٹار اور سپر اسٹارز سمجھے جاتے ہیں۔
یہ اسٹارز تمام سیاسی جماعتوں میں ہیں بلکہ اب تو انہیں ہیرو، ہیروئن، سائیڈ ہیرو پھر ''ایکشن ہیر و''''عوامی اداکا ر'' اور ''جذبات کا شہزادہ'' وغیرہ کی کٹیگری میں بھی رکھا جاتا ہے۔ حکومتی پروڈکشن ہاوس پر نگاہ ڈالیں تو صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور اب تازہ توہین عدالت کا نوٹس موصول کرنے والے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نیوز انڈسٹری کے ''سولواسٹار'' ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اینکر پرسنز کو ان کے انٹرویو کرنے کے لیے ان کے ہاں جانا پڑتا ہے۔
پیپلز پارٹی سے ہی فیصل رضا عابدی نے اسلام آباد میں اپنی تازہ ''پرفارمنس'' سے اپنی کاسٹ ویلیو بدل لی ہے اور اب وہ ٹاک شو میں اکیلے کاسٹ بھی کیے جانے لگے ہیں۔ پی پی کی طرف سے ٹاک شوز انڈسٹری میں اکثر و بیشتر دکھائی دینے والوںمیںامیتاز صفدر وڑائچ، نذر محمد گوندل، عاصمہ ارباب عالمگیر، مہرین راجہ، شرمیلافاروقی، شرجیل میمن، شازیہ مری اور قمر زمان کائرہ سمیت دیگر شامل ہیں۔ کائرہ صاحب کی حیثیت پی پی اسٹار الیون میںایسے ہی ہے جیسے قومی ہاکی ٹیم میں فلائنگ ہارس سمیع اللہ کی ہوا کرتی تھی۔
کائرہ صاحب نے گذشتہ دنوںنیوز فلم انڈسٹری کے ایک سپر اسٹار اینکر کو آن کیمرہ ''چت'' کر کے اپنی سیاسی باکس آفس پوزیشن مزید مستحکم کر لی ہے۔ اگرچہ میاں نواز شریف اب وزارت عظمیٰ یا کوئی اور حکومتی عہدہ نہیں رکھتے مگر ان کا اسٹارڈم کسی سپر اسٹار سے کم نہیں ہے۔ پنجاب میں مختلف ترقیاتی اسکیموںکی تشہیری مہم کے لیے شہباز شریف کے فوٹو شوٹ اور خاص طور پر یوتھ فیسٹیول کے لیے خادم اعلیٰ کی ماڈلنگ نے ثابت کر دیا کہ وہ ''اداکارِاعلی'' بھی ہیں۔
نون لیگ کی طرف سے نیوز فلم انڈسٹری میں باقاعدہ دکھائی دینے والوں میںخواجہ سعد رفیق اورخواجہ آصف کے علاوہ اسحاق ڈار، احسن اقبال، خرم دستگیر، صدیق الفاروق، ضیعم قادری، پرویز رشید، مشاہد اللہ خان اور ماروی میمن شامل ہیں۔ ایفی ڈرین کیس کھلنے کے باعث حنیف عباسی اب نون لیگ سے ہمیشہ کے لیے وابستہ اصولی سیاست کے اونچے سروں میںبات نہیںکر رہے۔ ایڈووکیٹ اکرم شیخ اور سینیٹر ظفر علی شاہ آئین، قانون اور رٹ پٹیشن اسٹارز ہیں اور نون لیگ کا یہ ونگ خاصا ''مصروف'' رہتا ہے۔
نون لیگ میں اس وقت رانا ثنا اللہ کی حیثیت وہی ہے جو ہمارے ہاں ایک عرصہ پنجابی فلموں میں اداکار چنگیزی کی رہی ہے۔ راجہ ریاض کا ڈیل ڈول دیکھ کرمجھے پنجابی فلموں کے جگی ملک یاد آ جاتے ہیں۔ نیوز فلم انڈسٹری میں الطاف بھائی کی لانگ ڈسٹنس کال معروف ہے۔ اگرچہ یہ ویڈیو کال نہیںہوتی مگر بھائی اپنی گرجدار آواز کے زیروبم میں سب سمجھا دیتے ہیں۔ متحدہ کی اسٹار ٹیم میںسبھی کہنہ مشق ہیں جن میں ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، وسیم اختر، رضا ہارون، بابر غوری، مصطفی کمال اور خوش بخت شجاعت سمیت دیگر شامل ہیں۔
ٹاک شوز فلم انڈسڑی کیلیے سولو کیٹیگری میںآنے والے رہنماوں میںعمران خان، مولانافصل الرحمان، اسفند یار ولی، چوہدری پرویز الہی، چوہدری شجاعت اورجماعت اسلامی کے امیر پروفیسر سید منور حسن سمیت دیگر شامل ہیں۔ سیکیورٹی معاملات کے پیش نظر اسفند یار ولی تو ٹاک شوز میںجلوہ گر نہیںہوتے تاہم اے این پی کے اسٹارز میں زاہدخان، غلام احمد بلور، بشری گوہر اور سید شاہی شامل رہتے ہیں۔
دفاع کونسل پاکستان کے حافظ سعید اور شیخ رشید دونوں کو ٹاک شوز میںاظہار خیال کے لیے اکیلے مدعو کیا جاتا ہے۔ شیخ رشید کی ٹاک شوز میں اینٹری کسی ''آئٹم نمبر'' سے کم نہیں ہوتی، موصوف جس ٹاک شو میں جلوہ گر ہوتے ہیںاس کی ریٹنگ کھڑکی توڑ ہو جاتی ہے مگر ان کے حلقہ کے لوگ انہیں ووٹ نہیںدیتے۔ اس فیکٹر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ ان ٹاک شوز کو کتنا سنجیدہ لیتے ہیں۔
چوہدری نثار، رحمن ملک اورحناربانی کھر بھی ان ٹاک شوز میںسولو مہمان کی حثییت جانا پسند فرماتی ہیں۔ عمران خان نے طویل عرصہ میں ان گنت ٹاک شوز میںشرکت کرتے ہوئے مخالف ٹیموں کی اسٹار کاسٹ کا سامنا تو نہیں کیا، مگر کپتا ن نے حریف ٹیموں کے بارھویں اورتیرھویں کھلاڑیوں کے ساتھ نیٹ پریکٹس کر کے اپنی ٹیم کو آیندہ ''ورلڈ کپ'' کیلیے تیار کر لیا ہے۔
بلوچستان سے بگٹی، مینگل، مری اور دیگر قبیلوں کے ناراض لوگوں اور رہنماوں کی اگر ان ٹاک شوز کی ''کاسٹ'' میں شامل نہ کیا گیا تو نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ اگر ہماری نیوز انڈسٹری کو بھی ''مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی'' کے فلسفہ کے تحت ہی چلایا گیا تو اس کا حشر بھی ہماری فلم انڈسڑی جیسا ہو گا اور یہ ہمارے ملک کے لیے بھی کسی طور بہتر نہ ہو گا۔