کوئی اتحاد نہ ہوسکا کچھ نشستوں پر سیٹ ایڈجیسٹمینٹ

وہ امیدوار کام یاب ہوگا جو اپنے ووٹرز کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن لاسکے...


Raza Al Rehman May 06, 2013
گذشتہ انتخابات میں کام یاب ہونے والے اکثر چہروں کی اس بار ناکامی کا امکان۔ فوٹو: فائل

بلوچستان میں انتخابی گہماگہمی میں کچھ اضافہ ہوا تھا، لیکن نواب ثناء اﷲ زہری، سردار عبدالرحمن کھیتران، میر اسداﷲ بلوچ کے قافلوں، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے گھر پر حملوں، بعض امیدواروں کے انتخابی دفاتر کو نشانہ بنانے اور کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں بم دھماکوں کے بعد یہ گہماگہمی مدھم پڑگئی ہے۔

تاہم، صوبے کے پشتون علاقوں میں انتخابی سرگرمیاں زورشور سے جاری ہیں، انتخابی جلسوں اور کارنرمیٹنگز کا سلسلہ جاری ہے۔ جوں جوں عام انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے، امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم تیز کردی ہے۔

بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے بہت سے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ خصوصاً بلوچ علاقوں میں خوف کا عالم ہے، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض قوم پرست جماعتوں اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے ان انتخابات سے عوام کو دور رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ان کالعدم تنظیموں کی جانب سے بم دھماکوں اور انتخابی دفاتر کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی ہے۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے انتخابات وقت پر ہونے اور امن وامان کی صورت حال بہتر بنانے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ مبصروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ انتخابات میں بلوچستان سے ٹرن آئوٹ2008ء کے عام انتخابات سے بھی کم رہے گا، جس کی ایک بڑی وجہ صوبے میں امن وامان کی گمبھمیر صورت حال اور بعض اطراف سے عوام کو انتخابات سے دور رہنے کی ہدایت ہے۔ ان مبصروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں انتخابات میں اس مرتبہ وہ امیدوار کامیاب ہوگا جو اپنے ووٹرز کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک پہنچائے گا اور اپنے حق میں ووٹ کاسٹ کروائے گا۔

دوسری جانب بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں، پشتونخواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، بی این پی (مینگل) اور جمہوری وطن پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کو پذیرائی ملی ہے اور یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے اس فیصلے کے آگے چل کر سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، اور بلوچستان کے کیس کو اہمیت بھی ملے گی۔ اگر پانچ سال کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو2008ء کے انتخابات کے بعد بھی مایوسی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ انتخابات2013 پر نظر ڈالی جائے تو ابتدا میں توقع کی جارہی تھی کہ اس مرتبہ بلوچستان میں بڑے انتخابی اتحاد یا الائنس قائم ہوں گے، خصوصاً بی این پی (مینگل) اور نیشنل پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد ہوگا اور دونوں سیاسی جماعتیں مل کر انتخابات لڑیں گی۔

اس سلسلے میں ان دونوں جماعتوں کے درمیان طویل مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن ایسا کوئی اتحاد یا الائنس نہیں بن سکا، بلکہ دونوں جماعتوں میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمینٹ بھی نہ ہوسکی۔ مسلم لیگ (ن) نے بی این پی (مینگل) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ساتھ ایک دو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمینٹ کی ہے، جب کہ جمعیت علمائے اسلام (نظریاتی) نے بھی بعض جماعتوں کے ساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمینٹ کی ہے۔ بی این پی (مینگل) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اپنی علاقائی قیادت کو یہ اختیار ضرور دیا ہے کہ جہاں وہ مناسب سمجھیں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمینٹ کا فیصلہ از خود کرسکتی ہے۔

خیال ہے کہ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں اس مرتبہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کو اس طرح سے واک اوور نہیں ملے گا جس طرح سے2008ء کے انتخابات میں اسے پشتونخوامیپ کے بائیکاٹ کی وجہ سے ملا تھا۔ اس مرتبہ جمعیت علمائے اسلام (نظریاتی) اس کے لیے دردسر بن گئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (نظریاتی) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مقابلے میں ہر حلقے سے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے جس کی وجہ سے جمعیت کے ووٹ نہ صرف تقسیم ہوں گے بلکہ اس کا فائدہ ان نشستوں پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور اے این پی کے امیدواروں کو ہو رہا ہے، جب کہ تیسرا امیدوار بھی اس تمام سیاسی چپقلش کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

بلوچ علاقوں میں نیشنل پارٹی کو برتری حاصل ہے، تاہم ان علاقوں میں نیشنل پارٹی کا براہ راست مقابلہ بی این پی (عوامی) اور بی این پی (مینگل) سے ہے۔ بعض حلقوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیدواروں کی کام یابی کے بھی امکانات ہیں۔ نصیرآباد ڈویژن میں قومی اسمبلی کی نشست پر سابق وزیراعظم ظفراﷲ جمالی بھی قسمت آزمائی کر رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ جمالی خاندان بھی تقسیم ہے۔ اس لیے یہ کہنا آسان نہ ہوگا کہ قومی اسمبلی کی نشست وہ بہ آسانی نکال لیں گے۔ سابق وزیراعلی، تاج محمد جمالی مرحوم کے صاحب زادے چنگیز جمالی جواس سے قبل اس نشست پر کام یاب ہوئے تھے ان کے مدمقابل ہیں اور کھوسہ برادری کے امیدوار سلیم کھوسہ ہیں۔ جھل مگسی سے نواب زادہ خالد مگسی کی کام یابی کا امکان بہت زیادہ دکھائی دے رہا ہے، جو گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی کے بھائی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح بلوچستان میں اس مرتبہ بھی کچھڑی ہی پکے گی اور مخلوط حکومت بنے گی، یعنی کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ ان کے اندازے کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی بھی بعض حلقوں میں پوزیشن اچھی ہے، لیکن جو توقعات کی جا رہی ہیں، اس طرح سے یہ دونوں جماعتیں کام یابی حاصل نہیں کریں گی۔ خصوصاً پی پی پی کو وہ کام یابی حاصل نہیں ہوگی جو اسے2008 کے عام انتخابات میں ہوئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو اس لیے بھی مشکلات کا سامنا ہے کیوںکہ بعض حلقوں میں ان کے ناراض کارکن آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس طرح ان حلقوں میں (ن) لیگ کے امیدوار زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور فائدہ دیگر امیدواروں کو ہو رہا ہے۔ بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں اس مرتبہ بعض نئے چہرے بھی اسمبلی میں نظر آئیں گے اور2008 کے عام انتخابات میں کام یاب ہونے والے اکثر چہرے اس الیکشن میں آئوٹ ہوجائیں گے، کیوںکہ ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ صوبے کے عوام کو ایک مرتبہ پھر خوش نما نعرے دیے جا رہے ہیں لیکن عوام بے زار اور مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری جانب امن وامان کی جو صورت حال ہے اس میں ووٹ کے لیے انتہائی کم تعداد میں عوام باہر نکلیں گے۔



صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی قومی اسمبلی کی نشست پر اس مرتبہ مقابلہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، پی پی پی کے میر مقبول لہڑی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے حافظ حمد اﷲ کے مابین ہے۔ اس نشست پر ماضی میں جے یو آئی (ف) کے امیدوار حافظ حسین احمد، پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمودخان اچکزئی اور2008 میں پی پی پی کے ناصر علی شاہ کام یاب ہوچکے ہیں۔ این اے260 کوئٹہ چاغی کی نشست بھی بہت اہمیت اختیار کرگئی ،جس پر مقابلہ پی پی پی کے سردار عمر گورگیج، جے یو آئی (ف) کے مولانا منظور مینگل اور پشتونخوامیپ کے عبدالرحیم مندوخیل کے مابین ہے۔2008 میں اس نشست پر پی پی پی کے سردار عمرگورگیج کام یاب ہوئے تھے۔

کوئٹہ سے صوبائی اسمبلی کی چھ نشستوں پر بھی کانٹے دار مقابلے ہو رہے ہیں۔ ان چھ نشستوں پر نئے اور پرانے چہرے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ پی بی1کوئٹہ1 میں مسلم لیگ (ق) کے سعید احمد ہاشمی اور (ن) لیگ کے طاہر محمود کے درمیان، پی بی2کوئٹہ2 میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ اور پی پی پی کے جان علی چنگیزی کے مابین، پی بی3کوئٹہ 3 میں(ن) لیگ کے اسماعیل گجر، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نواب ایاز جوگیزئی، پی بی4کوئٹہ4 میں (ق) لیگ کے اسماعیل لہڑی، (ن) لیگ کے نواب زادہ حاجی لشکری رئیسانی، بی این پی مینگل کے اخترحسین لانگو کے درمیان، پی بی5 کوئٹہ5 میں پی پی پی کے میر گل جتک، جے یو آئی (ف) کے اسحاق ذاکر شاہوانی اور پی بی6کوئٹہ6 میں پشتونخوامیپ کے منظورکاکڑ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے احمد علی کوہ زاد اور جے یو آئی (ف) کے مولوی خدائے دوست کے درمیان مقابلہ ہوگا۔

اندرون صوبہ مختلف حلقوں میں بھی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے درمیان کانٹے دار مقابلوں کی توقع کی جا رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اندرون صوبہ جہاں مذہبی وسیاسی جماعتیں اثر رکھتی ہیں وہیں قوم پرستوں کی بھی پوزیشن بہتر نظر آتی ہے۔ پی بی7زیارت کے حلقے میں جے یو آئی نظریاتی کے حاجی نور محمد دمڑ پشتونخوامیپ کے سردار حبیب الرحمن، اے این پی کے سردار فرید اﷲ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے گل محمد خان، ن لیگ کے محمد ظاہر خان کاکڑ مدمقابل ہوںگے۔ اسی طرح پی بی8 پشین1 سے سابق صوبائی وزیر اسفندیار کاکڑ، تحریک انصاف کے اصغر خان، پشتونخوامیپ کے سید آغا لیاقت علی، اے این پی کے حاجی عبدالباری، جے یو آئی (ف) کے سید شفیع اﷲ آغا، (ن) لیگ کے عطاء محمد کاکڑ اور دوسری جماعتوں کے امیدواروں کے علاوہ آزاد امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ جبکہ پی بی10پشین IIIمیں پشتونخوامیپ کے سردار غلام مصطفیٰ ترین، ن لیگ کے دولت شاہ، اے این پی کے سید عبدالباری، ق لیگ کے سید عبیداﷲ، جے یو آئی (نظریاتی) کے سید عزیزاﷲ، پیپلزپارٹی کے میر نظام الدین، جے یو آئی کے مولوی سید عبدالباری آغا کے درمیان بھی سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

پی بی11قلعہ عبداﷲ میں اے این پی کے اصغر خان، جے یو آئی (نظریاتی) کے حافظ راز محمد، پشتونخوامیپ کے ڈاکٹر حامد خان، جے یو آئی کے مولوی عبدالرحیم مضبوط امیدوار تصور کیے جا رہے ہیں۔ پی بی17بارکھان سے جے یو آئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران، (ق) لیگ کے طارق محمود، (ن) لیگ کے میر رسول بخش، پشتونخوامیپ کے عبداﷲ خان اور بعض آزاد امیدوار مدمقابل ہوں گے۔ پی بی18ژوب میں (ن) لیگ کے الحاج جمال شاہ کاکڑ، اے این پی کے جمعہ خان، پشتونخوامیپ کے سلطان محمد، جے یو آئی (نظریاتی) کے عبداﷲ خان، جے یو آئی کے مفتی گلاب خان کے درمیان مقابلہ ہے۔ پی بی19ژوب سے (ق) لیگ کے جعفرخان مندوخیل، جے یو آئی کے شیخ ایاز خان، پشتونخوامیپ کے عبدالقیوم ایڈووکیٹ، اے این پی کے محمد انور مندوخیل اور جے یو آئی (نظریاتی) کے مولوی عبیداﷲ سمیت23 امیدوارمدمقابل ہیں۔ پی بی22ہرنائی، سبی سے اے این پی کے سردار اسدخان ترین، جے یوآئی کے سید عبدالخالق، پشتونخوامیپ کے عبدالرحیم زیارتوال، پیپلزپارٹی کے میر زمان کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔

پی بی24ڈیرہ بگٹی پر بھی سیاسی مبصرین کی نظریں لگی ہوئی ہیں، جہاں نواب میر عالی بگٹی، جمہوری وطن پارٹی کے نواب زادہ شاہ زین بگٹی، (ق) لیگ کے طارق حسین کے علاوہ نواب زادہ گہرام بگٹی اور میر غلام قادر بگٹی کے علاوہ دیگر امیدوار بھی مدمقابل ہیں۔ پی بی30کچھی 1 سے(ن) لیگ کے علی اصغر، بی این پی کے حاجی فاروق شاہوانی، بی این پی عوامی کے میر غلام رسول، میر عاصم کرد، جے یو آئی کے میر محمد ہاشم کے علاوہ دوسرے امیدوار مدمقابل ہیں۔ پی بی32جھل مگسی پر بھی سیاسی مبصرین کی نظریں جمی ہوئی ہیں، جہاں نوابزادہ طارق مگسی، نوابزادہ علی رضا مگسی جیسے مضبوط امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ پی بی34خضدارIIسے بی این پی عوامی کے میر ظفراﷲ خان زہری، بی این پی مینگل کے محمد نواز، (ن) لیگ کے آغا شکیل سمیت15امیدوار مدمقابل ہیں۔ پی بی35خضدارIIIسے بی این پی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل، جے یو آئی کے مولانا عبدالصبور مینگل، پیپلزپارٹی کے رضا محمد مینگل کے علاوہ حافظ بشیر احمد، عطاء الرحمن مدمقابل ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق حلقہ پی بی35خضدارIII انتہائی اہمیت کا حامل حلقہ ہے۔ پی بی37 قلاتII سے بی این پی عوامی کے میرظفراﷲ زہری، (ن) لیگ کے میر نعمت اﷲ زہری، میر دودا خان زہری، میر شفیق الرحمن، آغا عمر احمد زئی سمیت بڑی شخصیات مدمقابل ہیں۔ پی بی42 پنجگور سے بی این پی عوامی کے اسداﷲ بلوچ، نیشنل پارٹی کے رحمت علی سمیت چھ امیدوار ہیں۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں