یہاں انسان بستے ہیں

امریکا بہت برا ملک ہے۔ یہ ایک دو کا نہیں دنیا کے بیشتر ان لوگوں کا خیال ہے جو امریکا سے باہر رہتے ہیں۔۔۔


Wajahat Ali Abbasi May 05, 2013
[email protected]

امریکا بہت برا ملک ہے۔ یہ ایک دو کا نہیں دنیا کے بیشتر ان لوگوں کا خیال ہے جو امریکا سے باہر رہتے ہیں خصوصاً پاکستانیوں کا۔ ایک سروے کے مطابق دنیا کے ساٹھ فیصدلوگوں کو لگتا ہے کہ امریکا ان کا دشمن ہے اور پاکستان میں ایسے لوگوں کا تناسب 80%ہے۔ پاکستان میں اکثر لوگ ایک دوسرے سے یہ سوال بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر امریکا اتنا دشمن ہے تو وہاں جاناکیوں چاہتے ہو؟ یا پھر یہ سننے میں آتا ہے کہ اگر آج امریکا اپنا ویزہ کھول دے تو یہی امریکا کو برا بھلا کہنے والے لائن لگائے امریکن کونسلیٹ کے باہر ویزہ لینے کھڑے ہوں گے۔

سچ یہ ہے کہ امریکا جانے والے خواہشمند پاکستانی کو امریکا سے کوئی پیار نہیں بلکہ وہ وہاں بہتر تعلیم یا بہتر نوکری کے لیے جانا چاہتا ہے یعنی اپنے بہتر مستقبل کے لیے اوباما کے عشق میں نہیں۔ امریکا میں کرائم ریٹ کئی دوسرے ملکوں سے بہت کم ہے اور جہاں ہے وہاں بیشتر وقت اس کا قصوروار بلیک امریکنز کو سمجھا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں رہنے والے اسی فیصد اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے افریقن امریکن مردکبھی نہ کبھی جیل جاچکے ہیں۔ اس قسم کے اعدادوشمار کی وجہ سے امریکا میں نسل پرستی کے خلاف ہر طرح کے قانون ہونے کے باوجود ایک گوری خاتون کی رات دس بجے سنسان سڑک پر گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوجانے کی وجہ سے کوئی افریقن امریکن ان کی طرف مدد کے لیے آتا نظر آئے تو وہ اسے صرف شک اور ڈر کی نظر سے دیکھے گی۔

ستمبر گیارہ کے بعد امریکا میں بہت بدلاؤ آئے اور مسلمانوں سے افریقن امریکن کے مقابلے میں سو گنا زیادہ ڈر بڑھ گیا۔ امریکا کے مشہور چینل ایم ٹی وی پر کئی مزاحیہ اشتہار بھی چلے جہاں دو دیسی لڑکے کھڑے ہوئے کہتے نظر آتے ہیں "we are the new blacks"یعنی امریکا میں اب ہم وہ نئی قوم ہیں جن سے یہ ڈرتے ہیں اور یہ صرف مذاق نہیں تھا کئی سانحوں سے یہ ڈر صاف ظاہر تھا جیسے شکاگو کے آس پاس دو بھائیوں کو الگ الگ جگہوں پر مختلف گوروں نے مسلمان سمجھ کر مار دیا جب کہ وہ سکھ تھے۔

امریکا میں کچھ دن بعد ایک انگریزی کی فلم ریلیز ہوئی ہے جس کا نام "The Relcuction Fundamentalist" ہے اس میں ایسے پاکستانی لڑکے کی کہانی دکھائی جو نیویارک میں ہر طرح سے سیٹ ہے، لیکن نائن الیون کے بعد وہ نسلی تعصب کی وجہ سے واپس لاہور چلا جاتا ہے۔ نیویارک میں ایک نوجوان پاکستانی لڑکے کو کیا تجربہ ہوا۔ یہ لوگ فلم کے ذریعے دیکھ پائیں گے لیکن مجھے سمجھنے کے لیے اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں خود تجربہ کرچکا ہوں۔

نائن الیون کا دن میری زندگی کا ایک عام سا دن تھا۔ نیویارک میں آفس جاتے ہوئے کار میں ریڈیو سنتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ آج کے دن کی خاص بات یہ ہے کہ آج نیویارک میں میئر کے الیکشن ہیں باقی کچھ نہیں۔ میں غلط تھا یہ وہ دن تھا جس کے بعد پوری دنیا بدل جائے گی ہم مسلمانوں کی۔ صدر مشرف سے کئی لوگ خفا ہیں۔ انھیں تاحیات الیکشن نہ لڑنے کے آرڈر مل گئے ہیں لیکن ایک بات پر سب اتفاق کرتے ہیں کہ اپنی بائیوگرافی میں انھوں نے کچھ واقعات بالکل صحیح لکھے ہیں جس میں وہ فون کال بھی شامل ہے جو بارہ ستمبر 2001کو بش نے ان کو کی تھی اور کہا تھا کہ یا تو اس لڑائی میں آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے دشمن۔ مشرف صاحب پریشر میں آگئے اور ہم کسی اور کی جنگ لڑنے اور اپنے یہاں دہشت گردوں کی صنعت لگانے میں لگ گئے، وہ امریکن ٹی وی رپورٹرز جو کبھی اتفاق سے پاکستان کا نام آجانے پر۔ یہ نام ہے پہلے نہ سنے ہونے کی وجہ سے ادائیگی میں چار بار اٹکتا تھا اب دن میں چالیس بار پاکستان نے یہ غلط کیا وہ غلط کیا بتاتے ہم سے زیادہ صاف پاکستان کہنا سیکھ گیا ہے۔

پچھلے بارہ سال سے امریکا کو ہم نے وہاں رہنے والے دوسرے کئی لوگوں سے زیادہ سمجھا ہے۔ نہ صرف پاکستانی بلکہ عام امریکن سے زیادہ۔ بزنس، کوآپریٹ، گورنمنٹ ہر چیز کو صرف باہر سے نہیں بلکہ اس کا حصہ بن کر وہاں کے لوگوں کے ساتھ ایک اچھی پوزیشن میں رہ کر اسے سمجھا ہے اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکن سسٹم میں انسان کی سوچ کو روبوٹ کی سوچ بنادیا جاتا ہے۔ اسکول سے ہی دو سال کے بچے سے جیسے ہی کہا جاتا ہے وہ کھانا شروع کردیتا ہے، جب ٹیچر کھیلنے کو کہتی ہیں تو وہ کھیلتا ہے یہاں تک کہ pottyبھی، امریکن اسکولوں میں بچے لائن لگا کر ایک ہی وقت میں potty کے لیے ٹرین کردیے جاتے ہیں۔

ایک عام امریکن آپ کو سامنے سے آتا دیکھ کر دروازہ کھولے گا، اکیلے میں بیٹھ کر کھانسے گا تو بھی ایکسکیوزمی کہے گا، سڑک چاہے کتنی بھی گندی ہو آئسکریم کھا کر ریپر کچرے میں ہی پھینکے گا چاہے اس کچرے کے ڈبے کو ڈھونڈنے میں اسے گھنٹوں ہی کیوں نہ لگ جائیں۔ یہی روبوٹ سوچ ہمارے لیے مسئلہ بھی بنی۔ امریکن سوچ کہ نائن الیون کا سانحہ مسلمانوں کی وجہ سے ہوا سے ہر مسلمان مجرم بن گیا۔ نائن الیون سے جڑی خبروں میں پاکستان کا نام ہر بار ہونے کی وجہ سے اٹیک کرنے والے کب عربی سے پاکستانی ہوگئے پتہ ہی نہیں چلا۔ بارہ سال ہوگئے خدا کے لیے کہہ کر فلم بناکر اور دعا مانگ کر کوشش کرلی، لیکن ہم امریکا کے لیے دہشت گرد ہی رہے اور پچھلے بارہ سالوں میں امریکا کے تعلقات جس طرح کے پاکستان کے ساتھ رہے ہیں اس کے بعد امریکا کو اپنا دشمن سمجھ لینا ایک عام پاکستانی کے نقطہ نگاہ سے غلط نہیں ہے۔

دو سال امریکا میں رہنے کے بعد پاکستان میں آپ کو بہت دھول لگنے لگتی ہے۔ چار سال بعد وہاں کے لوگوں کی سوچ سمجھ نہیں آتی اور چھ سال بعد پاکستانیوں کا ذکر کرتے خود کو ان کا حصہ نہیں سمجھتے لیکن میں کئی سال امریکا میں رہنے کے باوجود اتنا ہی پاکستانی ہوں جتنا پاکستان میں تھا یا شاید اس سے بھی زیادہ کیوں کہ میں ان ان گنت بحثوں کا حصہ بنا ہوں جہاں میں آدھا درجن امریکنز کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ پاکستانی ایک اچھی قوم ہے، ہم میں کیا غلط نہیں اور کیا صحیح ہے ۔ جس طرح امریکنز اسکول میں لائن سے pottyکرتے ہیں ویسے ہی کبھی ان بحثوں میں موجود سب ہی لوگ کبھی ہماری بات مان جاتے اور کبھی نہیں لیکن ہر بار یہ بحث مجھے پاکستان کے اور قریب لے آتی۔

آپ "I love America" کی شرٹ پہنے گھومتے ہوں یا امریکا سے نفرت کرتے ہوں۔ ایک بات ہم کو امریکا سے ضرور سیکھنی چاہیے کہ ایک قوم کا حصہ بن کر کیسے ایک دوسرے کی مدد کرکے سوسائٹی بہتر بنتی ہے۔امریکنز باہر والوں کے لیے جیسے بھی ہوں اپنے ملک میں وہ ہر وہ چیز کرتے ہیں جو ایک انسان کو انسانیت کے نام پر کرنی چاہیے۔ سڑک پر گزرتے کسی سے آپ کی آنکھیں چار ہوجائیں تو اس شخص کا آپ کو مسکرا کر دیکھنا، پڑوسیوں کا خیال کرنا کہ شور نہ کرو کہ آپ شاید سو رہے ہوں گے۔ ایک عام امریکن کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ دوسرے انسان کی مدد کرتا ہے اپنی سی پوری کوشش کرتا ہے اس کی مشکل سمجھتا ہے۔ یہ دو ایک لوگوں کی بات نہیں بیشتر امریکنز ایسے ہی ہیں۔ کیا افریقن امریکن اور کیا مسلمان اگر کوئی تکلیف میں ہو تو وہ ان کے لیے صرف انسان رہ جاتا ہے اور یہ میں کہیں پڑھ کر نہیں بلکہ ذاتی تجربے سے کہہ ر ہا ہوں۔

پچھلے بارہ سالوں میں کم سے کم پچاس ایسے سانحے ہوئے ہوں گے جب میں کسی ایسی جگہ پر موجود تھا جہاں ایمرجنسی فوراً کسی کو میڈیکل ہیلپ چاہیے تھی امریکا کے مختلف شہر، لوگ اور سوچ لیکن جیسے ہی آپ نے 911 کو ایک کال کی اور کہا مجھے مدد چاہیے، فائرڈیپارٹمنٹ، پولیس، ایمبولینس یہ بھول کر کہ آپ کون ہیں مدد کرنے پہنچ جاتی ہے آپ کو سی پی آر آکسیجن دیتے ہیں یہاں تک کہ ہاسپٹل دور ہونے پر آپ کو فوراً ہیلی کاپٹر سے ہاسپٹل پہنچانے پر مدد کرنے والے کی آنکھوں میں، میں نے یہ جذبہ دیکھا ہے کہ وہ مدد کرنے والے کی جان بچالے۔

چار جولائی کو امریکا کا یوم آزادی ہوتا ہے، عام امریکن پاکستانیوں کی طرح گھروں پر جھنڈیاں نہیں لگاتے۔ جھنڈیاں تو کیا یہ ایک جھنڈا نہیں لگاتے یہ بتانے کو کہ میں امریکن ہوں لیکن ہم لگاتے ہیں۔ 14اگست کو پاکستانی ہونے کا جشن ہم محلے، گلیوں، اسکولوں میں جھنڈیاں لگالگا کر کرتے ہیں لیکن پھر پورے سال کبھی مہاجر کی، کبھی پٹھان اور کبھی سندھی کی لاشیں شہر کے مختلف حصوں سے ملتی ہیں، ڈرون امریکا کرا رہا ہے لیکن کراچی کے کسی گودام میں ایک شخص کا دوسرے شخص کو مارنے والا ہاتھ کوئی امریکن نہیں اٹھارہا۔

کہاں ہیں پاکستان میں وہ انسان جو کسی تکلیف میں مبتلا شخص کی قوم بھول کر اسے صرف انسان سمجھ کر اس کی مدد کرتا ہے۔ امریکا چاہے جتنا برا ہو یہاں ایک بات اچھی ہے، یہاں انسان بنتے ہیں۔

ی&�� �ظام الدین، جے یو آئی کے مولوی سید عبدالباری آغا کے درمیان بھی سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ پی بی11قلعہ عبداﷲ میں اے این پی کے اصغر خان، جے یو آئی (نظریاتی) کے حافظ راز محمد، پشتونخوامیپ کے ڈاکٹر حامد خان، جے یو آئی کے مولوی عبدالرحیم مضبوط امیدوار تصور کیے جا رہے ہیں۔ پی بی17بارکھان سے جے یو آئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران، (ق) لیگ کے طارق محمود، (ن) لیگ کے میر رسول بخش، پشتونخوامیپ کے عبداﷲ خان اور بعض آزاد امیدوار مدمقابل ہوں گے۔ پی بی18ژوب میں (ن) لیگ کے الحاج جمال شاہ کاکڑ، اے این پی کے جمعہ خان، پشتونخوامیپ کے سلطان محمد، جے یو آئی (نظریاتی) کے عبداﷲ خان، جے یو آئی کے مفتی گلاب خان کے درمیان مقابلہ ہے۔

پی بی19ژوب سے (ق) لیگ کے جعفرخان مندوخیل، جے یو آئی کے شیخ ایاز خان، پشتونخوامیپ کے عبدالقیوم ایڈووکیٹ، اے این پی کے محمد انور مندوخیل اور جے یو آئی (نظریاتی) کے مولوی عبیداﷲ سمیت23 امیدوارمدمقابل ہیں۔ پی بی22ہرنائی، سبی سے اے این پی کے سردار اسدخان ترین، جے یوآئی کے سید عبدالخالق، پشتونخوامیپ کے عبدالرحیم زیارتوال، پیپلزپارٹی کے میر زمان کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ پی بی24ڈیرہ بگٹی پر بھی سیاسی مبصرین کی نظریں لگی ہوئی ہیں، جہاں نواب میر عالی بگٹی، جمہوری وطن پارٹی کے نواب زادہ شاہ زین بگٹی، (ق) لیگ کے طارق حسین کے علاوہ نواب زادہ گہرام بگٹی اور میر غلام قادر بگٹی کے علاوہ دیگر امیدوار بھی مدمقابل ہیں۔ پی بی30کچھی 1 سے(ن) لیگ کے علی اصغر، بی این پی کے حاجی فاروق شاہوانی، بی این پی عوامی کے میر غلام رسول، میر عاصم کرد، جے یو آئی کے میر محمد ہاشم کے علاوہ دوسرے امیدوار مدمقابل ہیں۔

پی بی32جھل مگسی پر بھی سیاسی مبصرین کی نظریں جمی ہوئی ہیں، جہاں نوابزادہ طارق مگسی، نوابزادہ علی رضا مگسی جیسے مضبوط امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ پی بی34خضدارIIسے بی این پی عوامی کے میر ظفراﷲ خان زہری، بی این پی مینگل کے محمد نواز، (ن) لیگ کے آغا شکیل سمیت15امیدوار مدمقابل ہیں۔ پی بی35خضدارIIIسے بی این پی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل، جے یو آئی کے مولانا عبدالصبور مینگل، پیپلزپارٹی کے رضا محمد مینگل کے علاوہ حافظ بشیر احمد، عطاء الرحمن مدمقابل ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق حلقہ پی بی35خضدارIII انتہائی اہمیت کا حامل حلقہ ہے۔ پی بی37 قلاتII سے بی این پی عوامی کے میرظفراﷲ زہری، (ن) لیگ کے میر نعمت اﷲ زہری، میر دودا خان زہری، میر شفیق الرحمن، آغا عمر احمد زئی سمیت بڑی شخصیات مدمقابل ہیں۔ پی بی42 پنجگور سے بی این پی عوامی کے اسداﷲ بلوچ، نیشنل پارٹی کے رحمت علی سمیت چھ امیدوار ہیں۔۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں