دو جمہوری اداروں کے درمیان کشمکش
اگر انصاف غیر جانبدار نہیں ہے تو ایسے معاشروں کا پستی میں جانا...
ہمارے ملک میں عدلیہ اورانتظامیہ کے درمیان تنائو کی کیفیت ایک ایسے گنجلک مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اس حوالے سے کسی ایک ادارے کو مکمل طور پر درست اور دوسرے کو مکمل طور پر غلط کہنا دشوار ہوگیا ہے۔ اسی صورت حال کی وجہ سے قوم دوحصّوں میں بٹتی نظر آرہی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوش حالی کو ناپنا ہو تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک میں انصاف کی کیا صورت حال ہے۔ اگر عدلیہ آزاد ہے اور بلاامتیاز عوام کو انصاف فراہم کررہی ہے تو اسے ملک کی ترقی اور خوش حالی کی علامت اور ضمانت کہا جاتا ہے۔
اگر انصاف غیر جانبدار نہیں ہے تو ایسے معاشروں کا پستی میں جانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے عدلیہ کی تاریخ بہت مایوس کن ہے۔ 1947 سے 2007 تک عدلیہ حکمرانوں کی تابع دار رہی۔ 2007 میں وکلا تحریک نے عدلیہ کو آزادی کے راستے پر ڈالا۔ عدلیہ کی آزادی کا مطلب عوام کو ظالم طبقات کے ظلم سے بچانا ہوتا ہے لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ ملک میں محروم اور مظلوم طبقات آج بھی بالادست طبقات کے مظالم کا شکار ہیں۔ نپولین نے کہا تھا کہ ''معاشرے میں برائیاں اگرچہ برے لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں لیکن ان برائیوں کی ذمے داری برے لوگوں سے زیادہ ان اچھے لوگوں پر عاید ہوتی ہے جو برائیوں کو خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں۔''
سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل کے ساتھ ہی دولت کے انباروں اور اثاثوں کے تحفظ کا مسئلہ سامنے آیا تو سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ سازوں اور رکھوالوں نے قانون اور انصاف کا وہ نظام قائم کیا جو سر سے لے کر پیر تک ناانصافیوں کا مجموعہ تھا، جس کا واحد مقصد سرمایہ داروں کی دولت اور جائیداد کا تحفظ تھا۔ لیکن اس قانون اور انصاف کے تقدس اور بالادستی کا اتنا شدید پروپیگنڈا کیا گیا کہ جاہل اور عالم سب اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اس نامنصفانہ قانون اور انصاف کو سر پر اٹھا کر اس کے تقدس کے گیت گانے لگے۔
اس قانون اور انصاف کی ناانصافیوں پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، لیکن ہم یہاں صرف چند مثالیں پیش کریں گے۔ ایک صنعت کار اپنے موروثی سرمائے یا بینکوں سے لیے ہوئے سرمائے سے جسے وہ بعد میں معاف کرالیتا ہے، کارخانہ لگاتا ہے۔ اس کارخانے کو چلانے والوں میں محنت کشوں کے ساتھ ساتھ وہ تمام لوگ خواہ وہ مزدور ہوں یا منیجریل اسٹاف، ان سب کی محنت سے کارخانہ چلتا ہے اور اربوں روپوں کا منافع رہتاہے، لیکن اس منافع پر صنعت کار کا قانونی قبضہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اس کارخانے میں سرمایہ لگاتا ہے۔
مزدوروں کی محنت سے سال دو سال میں مالک دوسرا کارخانہ لگاتا ہے، رہنے کے لیے ایک پرتعیش محل بناتا ہے، نوکروں کی فوج رکھتا ہے، گیٹ پر مسلح گارڈ رکھتا ہے، ساتھ میں باڈی گارڈ رکھتا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی بینکوں میں اربوں کا سرمایہ رکھتا ہے۔ اس ساری دولت جائیداد کو نجی ملکیت کا نام دے کر اسے قانونی تحفظ فراہم کیا گیا اور عدالتیں اس کی کسٹوڈین بن گئیں۔ جس محنت کش طبقے کی مشقت سے دولت کے یہ انبار لگے، اسے محنت کے جائز معاوضے سے اس طرح محروم کردیا گیا کہ صدیوں سے یہ طبقہ دو وقت کی روٹی سے محروم چلا آرہا ہے۔
اب آئیے دوسرے طبقے کی طرف۔ یہ کسان اور ہاری ہے۔ یہ طبقہ سردی، گرمی، بارش میں دن اور رات کی تمیز کے بغیر زمین کا سینہ چیر کر اجناس، پھل، سبزیوں وغیرہ کے ڈھیر لگاتا ہے۔ اسے مارکیٹ میں بیچ کر جاگیردار اور وڈیرے ارب پتی بن جاتے ہیں۔ یہ زمین جسے ان کے آبا و اجداد نے بادشاہوں، انگریزوں کی جوتیاں صاف کرکے عوام سے غداری کرکے حاصل کی تھی، ان کی نجی ملکیت ہے اور نجی ملکیت کا تحفظ اس قانون اور انصاف کی ذمے داری ہے۔ یہ ناانصافیاں، یہ ظلم، آنکھوں کے اندھوں کو بھی نظر آتے ہیں لیکن قانون اور انصاف کو نظر نہیں آتیں۔
یہ نظام انسان کے بنیادی حقوق کا خوب ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔ بنیادی حقوق میں سب سے بڑا حق زندہ رہنے اور آسودہ زندگی گزارنے کا ہے۔ خود سرمایہ دارانہ نظام کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال لاکھوں انسان بھوک، بیماری سے، لاکھوں بچّے دودھ اور معیاری غذا سے محرومی کی وجہ اور لاکھوں خواتین زچگی کے دوران غذا کی کمی کی وجہ سے مرجاتی ہیں۔ لیکن بے حس قانون اور اندھے انصاف کو انسانی حقوق کی دھڑلے سے ہونے والی یہ ناانصافیاں اور ظلم نظر نہیں آتے۔ جب اس ظلم کے خلاف مزدور کسان اور غریب طبقہ احتجاج کے لیے باہر آتا ہے تو دفعہ 144 اور قانون کی کئی دفعات اس کی منتظر ہوتی ہیں اور پولیس رینجرز وغیرہ ان مظلوموں پر لاٹھیاں چلاتی ہے، گولیاں برساتی ہیں۔ یہ سب لاء اینڈ آرڈر کے نام پر ہوتا ہے اور یہ سارے ادارے عوام کی دولت سے چلتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں قانون اور انصاف کے کردار کا ایک سرسری جائزہ ہم نے پیش کیا، اس پس منظر میں اگر ہم اپنے ملک کے قانون اور انصاف کا مطالعہ کریں تو ہمارے سامنے سرمایہ دارانہ نظام کے قانون اور انصاف کی ایک زیادہ بدترین شکل سامنے آتی ہے۔ ہمارے ملک میں ابھی تک ایک انتہائی پس ماندہ فیوڈل ڈیمو کریسی قائم ہے اور سیاست اور اقتدار چند خاندانوں کی میراث بنا ہوا ہے۔ اس ڈیمو کریسی میں عوام کے منتخب نمایندے اور حکمران طبقہ آمرانہ جمہوریت پر عمل پیرا رہتا ہے اور اسی آمریت کا مشاہدہ ہم دوسرے ریاستی اداروں سے کرسکتے ہیں۔ پچھلے دو تین سال سے حکومت اور عدلیہ کے درمیان جو محاذ آرائی جاری ہے اور عوام اس کو حیرت اور افسوس کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
اس محاذ آرائی کی بنیاد این آر او کیس ہے۔ عدلیہ چاہتی ہے کہ حکومت سوئس حکومت کو خط لکھے۔ اور حکومت صدر کے استثنیٰ کے حوالے سے خط لکھنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ عدلیہ کے سامنے توہین عدالت کے کئی کیس ہیں لیکن عدلیہ ''خط'' کو بہانہ بنا کر زرداری ہی کو نشانہ بنارہی ہے جو جانبداری ہے۔ عدلیہ نے توہینِ عدالت کے جرم میں ایک وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا، اب دوسرے کی باری نظر آرہی ہے۔ عدلیہ کے مطابق کئی ادارے 10 سے لے کر 86 ارب کی کرپشن میں ملوث ہیں۔ اگر یہ رقم وصول کی جائے تو ملک معاشی بحرانوں سے نکل سکتا ہے۔ بینک نادہندگان دو کھرب سے زیادہ دبائے بیٹھے ہیں۔ اس بھاری کرپشن کو نظرانداز کرکے صرف ایک ہی کیس پر توجہ رہے گی تو عوام اس کشمکش کو ''دو اداروں کے درمیان اختیارات کی جنگ'' کے علاوہ کیا نام دے سکتے ہیں۔