یہ سیاست
ہر انتخابات کے موقع پر کاغذات نامزدگی کی منظوری مستردگی اور بحالی کا سلسلہ چلتا ہے۔
عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی کے بحال و مسترد ہونے کے اہم مرحلے کے بعد، جنھیں ریٹرننگ افسروں کے فیصلوں سے اختلاف تھا انھوں نے پہلے اپیلٹ ٹریبونلز سے رجوع کیا، جس کے بعد وہ ہائی کورٹ پہنچ چکے ہیں جہاں سے مطمئن ہونے کے بعد سپریم کورٹ تک جانے کا راستہ ان کے پاس موجود ہوگا، جس کے حتمی فیصلے سے بھی انھیں چین آئے نہ آئے مگر بعد میں انھیں خاموش ہوکر بیٹھنا اور انتخابی تماشا دیکھنا ہوگا۔
قوم یہ تماشا تو دیکھ چکی کہ تین ریٹرننگ افسروں نے عمران خان کے فارم منظور جب کہ دو ریٹرننگ افسروں نے مسترد کیے۔ قوم نے یہ بھی دیکھا کہ دو اپیلٹ ٹریبونل نے عمران خان کے فارم بحال کردیے اور ایک اپیلٹ جج نے یہ بھی کر دکھایا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے کاغذات نہ صرف مسترد کیے بلکہ انھیں تاحیات نااہل بھی قرار دے دیا اور کہا کہ اس فیصلے سے میرے جوڈیشل کریئر کی الٹی گنتی شروع ہوئی ہے۔
ہر انتخابات کے موقع پر کاغذات نامزدگی کی منظوری مستردگی اور بحالی کا سلسلہ چلتا ہے۔ کاغذات نامزدگی میں سرکاری شرائط کے ساتھ مطلوبہ دستاویز طلب کی جاتی ہیں جس کے مکمل منسلک ہونے پر ریٹرننگ افسر کاغذات منظور یا مسترد کرتا ہے جس کے بعد امیدوار اپیلٹ ٹریبونل میں اپیل کرتا ہے جس کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں چیلنج ہوتے ہیں۔ انتخابات کے بعد بھی کسی امیدوار کی کامیابی کو دھاندلی و دیگر وجوہ پر چیلنج کیا جاتا ہے اور حیرت ہے کہ یہ معاملہ پانچ سال گزرنے کے بعد بھی الیکشن کمیشن یا عدالتیں طے نہیں کر پاتیں اور اسمبلی کی مدت ختم ہوجاتی ہے۔
حال ہی میں الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کے سابق سربراہ فاروق ستار کا متحدہ کے منحرف ارکان اسمبلی کے خلاف دائر کیا جانے والاریفرنس خارج کیا ہے، جو انھوں نے ایک سال قبل متحدہ کے ان سات ارکان کے خلاف داخل کیا تھا جو ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور بعد میں پی ایس پی میں شامل ہوگئے تھے۔ الیکشن کمیشن مہینوں گزرنے کے بعد بھی ان ارکان کی نااہلی کا فیصلہ نہ کرسکا اور اسمبلیوں کی مدت ختم ہوجانے کے ایک ماہ چار روز بعد الیکشن کمیشن کے 3 رکنی کمیشن نے عبدالغفار سومرو کی سربراہی میں چار جولائی کو یہ ریفرنس غیر موثر ہونے پر خارج کردیا کیونکہ اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرکے ختم ہوچکی ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عدالتی اسٹے پر اپنی 5 سالہ مدت مکمل کرچکے مگر فیصلہ نہ ہوا۔ جمشید دستی کی جعلی ڈگری کا کیس بھی مثال ہے وہ 2013 میں تیسری بار منتخب ہوکر سابق ہوچکے اور چوتھی بار الیکشن لڑ رہے ہیں مگر فیصلہ نہ ہوا۔
راقم نے 1983کے بلدیاتی انتخابات میں کونسلر کا فارم بھرا جو ریٹرننگ افسر نے مسترد کردیا تھا جس کی اپیل کمشنر سکھر کے پاس کی جنھوں نے مستردگی کی وجہ یہ بتائی تھی کہ میں شکارپور میں پی پی کے اخبار کا نمایندہ تھا جس پر میں نے جواب دیا تھا کہ میں پی پی کے اخبار کے ساتھ اپوزیشن کے اخبار کا بھی نمایندہ تھا اور حکومت مخالف اخبار کی نمایندگی میری کسی بھی سیاسی پارٹی سے وابستگی ثابت نہیں کرتی کیونکہ صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے جس طرح مارشل لا میں سرکاری افسر کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ میری بات پر کمشنر نے میری نامزدگی بحال کردی تھی اور میں نے پی پی کے بائیکاٹ کے باوجود الیکشن لڑا اور جیتا تھا۔
شکارپور کے صوبائی حلقے میں حاجی کوڑا خان نے جنید سومرو کی کامیابی کے خلاف الیکشن ٹریبونل میں اپیل کی تھی مگر سماعت سے قبل اسپیکر نے دوستی میں ان سے حلف لے لیا پھر عدالتی اسٹے ہوگیا، اسمبلی ختم ہوگئی فیصلہ نہ ہوا۔ ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں کہ الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں نااہلی کی درخواستوں پر برسوں فیصلہ نہیں ہوتا اور اسمبلیاں ختم ہوجاتی ہیں اور ریفرنس خارج ہوجاتے ہیں۔
یہ سادہ سا معاملہ ہے کہ ایک رکن اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوا اور اس نے غیر قانونی طور پر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی جو اعلانیہ ہوئی تو اس کے خلاف فیصلہ الیکشن کمیشن مہینوں کیا برسوں میں نہیں کر پاتا تو اس کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے پھر اس کے فیصلے کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے اور اسمبلی اپنی مدت پوری کرلیتی ہے فیصلہ نہیں ہوتا۔
حالیہ انتخابات میں الیکشن ٹریبونلز کے خلاف اپیلوں کی سماعت پنجاب ہائی کورٹ میں 12 جولائی کو ہوگی جس میں اگر کسی کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملتی بھی ہے تو 25 جولائی کے الیکشن سے دو روز قبل انتخابی سرگرمیاں بند ہوتی ہیں تو باقی دس روز میں امیدوار کیا اپنی انتخابی مہم چلا پائے گا۔
الیکشن ٹریبونلز میں دو امیدواروں کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا مگر ہائی کورٹ سے دونوں اہل ہوگئے اور قانونی ماہرین کے مطابق الیکشن ٹریبونل اپیل سنتا ہے کسی کو نااہل نہیں کرسکتا۔ کاغذات نامزدگی کی مستردگی کی اکثر اپیلیں عدالتوں میں جاکر اہل قرار پاتی ہیں تو ایسے حضرات کے خلاف عدالتی کارروائی بھی ہونی ضروری ہے۔ امیدواروں کا سرمایہ اور انتخابی مہم متاثر ہوئی ہو تو وہ باقی مدت میں اپنی مہم میں ووٹروں سے رابطے کیسے کریں گے۔
قوم یہ تماشا تو دیکھ چکی کہ تین ریٹرننگ افسروں نے عمران خان کے فارم منظور جب کہ دو ریٹرننگ افسروں نے مسترد کیے۔ قوم نے یہ بھی دیکھا کہ دو اپیلٹ ٹریبونل نے عمران خان کے فارم بحال کردیے اور ایک اپیلٹ جج نے یہ بھی کر دکھایا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے کاغذات نہ صرف مسترد کیے بلکہ انھیں تاحیات نااہل بھی قرار دے دیا اور کہا کہ اس فیصلے سے میرے جوڈیشل کریئر کی الٹی گنتی شروع ہوئی ہے۔
ہر انتخابات کے موقع پر کاغذات نامزدگی کی منظوری مستردگی اور بحالی کا سلسلہ چلتا ہے۔ کاغذات نامزدگی میں سرکاری شرائط کے ساتھ مطلوبہ دستاویز طلب کی جاتی ہیں جس کے مکمل منسلک ہونے پر ریٹرننگ افسر کاغذات منظور یا مسترد کرتا ہے جس کے بعد امیدوار اپیلٹ ٹریبونل میں اپیل کرتا ہے جس کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں چیلنج ہوتے ہیں۔ انتخابات کے بعد بھی کسی امیدوار کی کامیابی کو دھاندلی و دیگر وجوہ پر چیلنج کیا جاتا ہے اور حیرت ہے کہ یہ معاملہ پانچ سال گزرنے کے بعد بھی الیکشن کمیشن یا عدالتیں طے نہیں کر پاتیں اور اسمبلی کی مدت ختم ہوجاتی ہے۔
حال ہی میں الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کے سابق سربراہ فاروق ستار کا متحدہ کے منحرف ارکان اسمبلی کے خلاف دائر کیا جانے والاریفرنس خارج کیا ہے، جو انھوں نے ایک سال قبل متحدہ کے ان سات ارکان کے خلاف داخل کیا تھا جو ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور بعد میں پی ایس پی میں شامل ہوگئے تھے۔ الیکشن کمیشن مہینوں گزرنے کے بعد بھی ان ارکان کی نااہلی کا فیصلہ نہ کرسکا اور اسمبلیوں کی مدت ختم ہوجانے کے ایک ماہ چار روز بعد الیکشن کمیشن کے 3 رکنی کمیشن نے عبدالغفار سومرو کی سربراہی میں چار جولائی کو یہ ریفرنس غیر موثر ہونے پر خارج کردیا کیونکہ اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرکے ختم ہوچکی ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عدالتی اسٹے پر اپنی 5 سالہ مدت مکمل کرچکے مگر فیصلہ نہ ہوا۔ جمشید دستی کی جعلی ڈگری کا کیس بھی مثال ہے وہ 2013 میں تیسری بار منتخب ہوکر سابق ہوچکے اور چوتھی بار الیکشن لڑ رہے ہیں مگر فیصلہ نہ ہوا۔
راقم نے 1983کے بلدیاتی انتخابات میں کونسلر کا فارم بھرا جو ریٹرننگ افسر نے مسترد کردیا تھا جس کی اپیل کمشنر سکھر کے پاس کی جنھوں نے مستردگی کی وجہ یہ بتائی تھی کہ میں شکارپور میں پی پی کے اخبار کا نمایندہ تھا جس پر میں نے جواب دیا تھا کہ میں پی پی کے اخبار کے ساتھ اپوزیشن کے اخبار کا بھی نمایندہ تھا اور حکومت مخالف اخبار کی نمایندگی میری کسی بھی سیاسی پارٹی سے وابستگی ثابت نہیں کرتی کیونکہ صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے جس طرح مارشل لا میں سرکاری افسر کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ میری بات پر کمشنر نے میری نامزدگی بحال کردی تھی اور میں نے پی پی کے بائیکاٹ کے باوجود الیکشن لڑا اور جیتا تھا۔
شکارپور کے صوبائی حلقے میں حاجی کوڑا خان نے جنید سومرو کی کامیابی کے خلاف الیکشن ٹریبونل میں اپیل کی تھی مگر سماعت سے قبل اسپیکر نے دوستی میں ان سے حلف لے لیا پھر عدالتی اسٹے ہوگیا، اسمبلی ختم ہوگئی فیصلہ نہ ہوا۔ ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں کہ الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں نااہلی کی درخواستوں پر برسوں فیصلہ نہیں ہوتا اور اسمبلیاں ختم ہوجاتی ہیں اور ریفرنس خارج ہوجاتے ہیں۔
یہ سادہ سا معاملہ ہے کہ ایک رکن اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوا اور اس نے غیر قانونی طور پر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی جو اعلانیہ ہوئی تو اس کے خلاف فیصلہ الیکشن کمیشن مہینوں کیا برسوں میں نہیں کر پاتا تو اس کی ذمے داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے پھر اس کے فیصلے کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا جاتا ہے اور اسمبلی اپنی مدت پوری کرلیتی ہے فیصلہ نہیں ہوتا۔
حالیہ انتخابات میں الیکشن ٹریبونلز کے خلاف اپیلوں کی سماعت پنجاب ہائی کورٹ میں 12 جولائی کو ہوگی جس میں اگر کسی کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملتی بھی ہے تو 25 جولائی کے الیکشن سے دو روز قبل انتخابی سرگرمیاں بند ہوتی ہیں تو باقی دس روز میں امیدوار کیا اپنی انتخابی مہم چلا پائے گا۔
الیکشن ٹریبونلز میں دو امیدواروں کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا مگر ہائی کورٹ سے دونوں اہل ہوگئے اور قانونی ماہرین کے مطابق الیکشن ٹریبونل اپیل سنتا ہے کسی کو نااہل نہیں کرسکتا۔ کاغذات نامزدگی کی مستردگی کی اکثر اپیلیں عدالتوں میں جاکر اہل قرار پاتی ہیں تو ایسے حضرات کے خلاف عدالتی کارروائی بھی ہونی ضروری ہے۔ امیدواروں کا سرمایہ اور انتخابی مہم متاثر ہوئی ہو تو وہ باقی مدت میں اپنی مہم میں ووٹروں سے رابطے کیسے کریں گے۔