مسئلہ سرکاری اسکولوں کا
مسئلہ نجی اسکولوں کا نہیں بلکہ سرکاری اسکولوں کو نجی اسکولوں کے برابر بنانے کا ہے۔
ہمارے چیف جسٹس نے زندگی کے مختلف شعبوں میں پائی جانے والی بدعنوانیوں کو دیکھ کر اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے تجاوز کرتے ہوئے خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔
ان کی اس پیش قدمی کو مفاد پرست اشرافیہ اپنے دائرہ کار سے تجاوزکہہ رہی ہے بے شک دودھ میں پانی کی چیکنگ سبزی گوشت کی مہنگائی جیسے مسائل چیف جسٹس کے دائرہ کار میں نہیں آتے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی قسم کے مسائل جن حکمرانوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں وہ ان مسائل سے لاتعلق کیوں بنے ہوئے ہیں؟ اگر متعلقہ ذمے دار حضرات ایمانداری سے اپنی ذمے داریاں پوری کریں تو چیف جسٹس صاحب کو اپنے دائرہ کار سے باہر آنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
ہماری زندگی کا ہر شعبہ کرپشن اور بدعنوانیوں کا گڑھ بنا ہوا ہے اور حکمران طبقہ اس طرف سے لاتعلق بنا بیٹھا ہوا ہے، دنیا کے جمہوری ملکوں میں تعلیم کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ قومی ترقی میں تعلیم کا بنیادی کردار ہوتا ہے بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ تعلیم کے شعبے سے لاتعلق بنا بیٹھا ہے اگر اس شعبے سے کوئی دلچسپی ہے تو صرف اتنی کہ اس شعبے سے کتنا مال حاصل ہوسکتا ہے ہمارے ایک صوبائی وزیر تعلیمی اسامیاں بیچ کر کروڑوں روپے کما چکے ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں۔ کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں کیونکہ حکمرانوں کا پورے کا پورا خاندان ہی کرپٹ ہے۔
ہمارے ملک میں تعلیم کا سرکاری شعبہ بے کار محض بنا ہوا ہے سرکاری شعبے کی کارکردگی تو صفر ہے لیکن اس پر اربوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے ملک کی مڈل اور لوئر مڈل کلاس سرکاری شعبے سے بالکل مایوس ہے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی اس پریشانی کو دیکھ کر چھوٹا سرمایہ رکھنے والے موقع پرستوں نے پرائیویٹ اسکولوں کے نام پر ایک انتہائی منافع بخش انڈسٹری قائم کردی ہے جسے پرائیویٹ اسکولوں یا انگریزی اسکولوں کا نام دیا گیا ہے۔
اس انڈسٹری کے مالکان نے نہ صرف فیس انتہائی مہنگی کر رکھی ہے بلکہ طلبا پر یہ پابندی بھی لگا دی ہے کہ وہ کتابیں، اسٹیشنری، یونیفارم وغیرہ اسکول ہی سے خریدیں اس بزنس سے بھی پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان لاکھوں کما رہے ہیں اور یہ سب بدعنوانیاں حکومت کی ناک کے نیچے ہو رہی ہیں لیکن حکومت اندھی بہری بنی بیٹھی ہے۔
انھی بدعنوانیوں کو دیکھ کر چیف جسٹس نے فرمایا ہے کہ اتنی مہنگی تعلیم جن اسکولوں میں دی جا رہی ہے ''کیوں نہ اتنی مہنگی تعلیم دینے والے اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے'' چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے تعلیم جیسے اہم شعبے پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی کا راز یہ ہے کہ ان ملکوں نے ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا اور اس شعبے پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سرکاری شعبہ اگر نااہلی کا شکار ہے تو نجی شعبہ تعلیم کا بیوپار کر رہا ہے اور یہ کاروبار اس قدر منافع بخش ہے کہ چھوٹا سرمایہ رکھنے والے اس صنعت میں فعال ہیں اور مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے خواہش مند ہیں بری طرح لوٹ رہے ہیں۔
اب نجی تعلیم کا شعبہ عملاً مافیا بن کر رہ گیا ہے اور اس ادارے کی مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ ماہ جون اور جولائی کی فیسیں وصول کرنے پر پابندی کے اعلانات کے باوجود نجی اسکولوں کے مالکان زور زبردستی کے ساتھ طلبا سے جون اور جولائی کی فیسیں وصول کر رہے ہیں اور حکومت اس کھلی دھاندلی پر منہ بند کیے بیٹھی ہے۔
جون جولائی کی فیسوں کا مسئلہ اب عدالتوں میں ہے پرائیویٹ اسکولوں کی لوٹ مار کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ بعض افراد کو امیر بنانے کے لیے سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر نہیں بنائی جا رہی ہے نجی اسکولوں کے وکیل نے کہا کہ ہر اسکول ہزاروں میں فیس نہیں لیتا جون جولائی کی فیسیں طلبا سے نہیں لی گئیں تو اسکول دیوالیہ ہوجائیں گے۔
وکیل صاحب نے کہا کہ میرے موکل (پرائیویٹ اسکول) فی طالب علم سالانہ 5ہزار فیس لیتے ہیں، اگر وکیل محترم کا یہ بیان درست ہے تو اس کو مثال بناتے ہوئے ہر طالب علم سے سالانہ پندرہ ہزار روپے فیس طے کردی جائے اور اس سے زیادہ فیس لینے والے اسکولوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت ملک کے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس نے جس آرٹیکل کا حوالہ دیا ہے اس کی رو سے تعلیم کی ذمے داری ریاست کی بنتی ہے۔ حکومت یا تو فیس ادا کرے یا پھر نجی اسکولوں کو تحویل میں لے لے۔
حقیقت یہ ہے کہ نجی اسکول عوام کو لوٹ رہے ہیں جس کا اندازہ چیف جسٹس کے اس ارشاد سے ہوسکتا ہے کہ ایک نجی اسکول میں فی طالب علم 30-25 ہزار روپے فی طالب علم فیس وہی شخص دے سکتا ہے جس کی آمدنی لاکھوں میں ہو۔ ہماری مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی ماہانہ آمدنی بھی نجی تعلیمی اداروں کی فیس ادا نہیں کرسکتی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم اتنا بلند کیا جائے کہ غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے طالب علم بچے بھی آسانی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں اپنا ایک کردار بنا سکیں مسئلہ نجی اسکولوں کا نہیں بلکہ سرکاری اسکولوں کو نجی اسکولوں کے برابر بنانے کا ہے۔
ان کی اس پیش قدمی کو مفاد پرست اشرافیہ اپنے دائرہ کار سے تجاوزکہہ رہی ہے بے شک دودھ میں پانی کی چیکنگ سبزی گوشت کی مہنگائی جیسے مسائل چیف جسٹس کے دائرہ کار میں نہیں آتے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی قسم کے مسائل جن حکمرانوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں وہ ان مسائل سے لاتعلق کیوں بنے ہوئے ہیں؟ اگر متعلقہ ذمے دار حضرات ایمانداری سے اپنی ذمے داریاں پوری کریں تو چیف جسٹس صاحب کو اپنے دائرہ کار سے باہر آنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
ہماری زندگی کا ہر شعبہ کرپشن اور بدعنوانیوں کا گڑھ بنا ہوا ہے اور حکمران طبقہ اس طرف سے لاتعلق بنا بیٹھا ہوا ہے، دنیا کے جمہوری ملکوں میں تعلیم کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ قومی ترقی میں تعلیم کا بنیادی کردار ہوتا ہے بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ تعلیم کے شعبے سے لاتعلق بنا بیٹھا ہے اگر اس شعبے سے کوئی دلچسپی ہے تو صرف اتنی کہ اس شعبے سے کتنا مال حاصل ہوسکتا ہے ہمارے ایک صوبائی وزیر تعلیمی اسامیاں بیچ کر کروڑوں روپے کما چکے ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں۔ کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں کیونکہ حکمرانوں کا پورے کا پورا خاندان ہی کرپٹ ہے۔
ہمارے ملک میں تعلیم کا سرکاری شعبہ بے کار محض بنا ہوا ہے سرکاری شعبے کی کارکردگی تو صفر ہے لیکن اس پر اربوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے ملک کی مڈل اور لوئر مڈل کلاس سرکاری شعبے سے بالکل مایوس ہے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی اس پریشانی کو دیکھ کر چھوٹا سرمایہ رکھنے والے موقع پرستوں نے پرائیویٹ اسکولوں کے نام پر ایک انتہائی منافع بخش انڈسٹری قائم کردی ہے جسے پرائیویٹ اسکولوں یا انگریزی اسکولوں کا نام دیا گیا ہے۔
اس انڈسٹری کے مالکان نے نہ صرف فیس انتہائی مہنگی کر رکھی ہے بلکہ طلبا پر یہ پابندی بھی لگا دی ہے کہ وہ کتابیں، اسٹیشنری، یونیفارم وغیرہ اسکول ہی سے خریدیں اس بزنس سے بھی پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان لاکھوں کما رہے ہیں اور یہ سب بدعنوانیاں حکومت کی ناک کے نیچے ہو رہی ہیں لیکن حکومت اندھی بہری بنی بیٹھی ہے۔
انھی بدعنوانیوں کو دیکھ کر چیف جسٹس نے فرمایا ہے کہ اتنی مہنگی تعلیم جن اسکولوں میں دی جا رہی ہے ''کیوں نہ اتنی مہنگی تعلیم دینے والے اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے'' چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے تعلیم جیسے اہم شعبے پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی کا راز یہ ہے کہ ان ملکوں نے ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا اور اس شعبے پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سرکاری شعبہ اگر نااہلی کا شکار ہے تو نجی شعبہ تعلیم کا بیوپار کر رہا ہے اور یہ کاروبار اس قدر منافع بخش ہے کہ چھوٹا سرمایہ رکھنے والے اس صنعت میں فعال ہیں اور مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے خواہش مند ہیں بری طرح لوٹ رہے ہیں۔
اب نجی تعلیم کا شعبہ عملاً مافیا بن کر رہ گیا ہے اور اس ادارے کی مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ ماہ جون اور جولائی کی فیسیں وصول کرنے پر پابندی کے اعلانات کے باوجود نجی اسکولوں کے مالکان زور زبردستی کے ساتھ طلبا سے جون اور جولائی کی فیسیں وصول کر رہے ہیں اور حکومت اس کھلی دھاندلی پر منہ بند کیے بیٹھی ہے۔
جون جولائی کی فیسوں کا مسئلہ اب عدالتوں میں ہے پرائیویٹ اسکولوں کی لوٹ مار کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ بعض افراد کو امیر بنانے کے لیے سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر نہیں بنائی جا رہی ہے نجی اسکولوں کے وکیل نے کہا کہ ہر اسکول ہزاروں میں فیس نہیں لیتا جون جولائی کی فیسیں طلبا سے نہیں لی گئیں تو اسکول دیوالیہ ہوجائیں گے۔
وکیل صاحب نے کہا کہ میرے موکل (پرائیویٹ اسکول) فی طالب علم سالانہ 5ہزار فیس لیتے ہیں، اگر وکیل محترم کا یہ بیان درست ہے تو اس کو مثال بناتے ہوئے ہر طالب علم سے سالانہ پندرہ ہزار روپے فیس طے کردی جائے اور اس سے زیادہ فیس لینے والے اسکولوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت ملک کے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس نے جس آرٹیکل کا حوالہ دیا ہے اس کی رو سے تعلیم کی ذمے داری ریاست کی بنتی ہے۔ حکومت یا تو فیس ادا کرے یا پھر نجی اسکولوں کو تحویل میں لے لے۔
حقیقت یہ ہے کہ نجی اسکول عوام کو لوٹ رہے ہیں جس کا اندازہ چیف جسٹس کے اس ارشاد سے ہوسکتا ہے کہ ایک نجی اسکول میں فی طالب علم 30-25 ہزار روپے فی طالب علم فیس وہی شخص دے سکتا ہے جس کی آمدنی لاکھوں میں ہو۔ ہماری مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی ماہانہ آمدنی بھی نجی تعلیمی اداروں کی فیس ادا نہیں کرسکتی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم اتنا بلند کیا جائے کہ غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے طالب علم بچے بھی آسانی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں اپنا ایک کردار بنا سکیں مسئلہ نجی اسکولوں کا نہیں بلکہ سرکاری اسکولوں کو نجی اسکولوں کے برابر بنانے کا ہے۔