مثالی قائد
طیب اردوان کی اپنے ملک و قوم کی خدمات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس مختصر کالم میں اس کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں آج کل الیکشن 2018 کی تیاریاں روز بروز زور پکڑ رہی ہیں ۔ جمہوری ممالک میں یہ عمل معمول کی بات ہے، لیکن شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں الیکشن عالمی سطح پر اتنی زیادہ توجہ کا مرکز رہا ہو جتنا ترکی کا حالیہ صدارتی انتخاب تھا۔ پوری دنیا کی نگاہیں اس الیکشن پر مرکوز تھیں۔
واشنگٹن سے تل ابیب تک اضطراب کی سی کیفیت تھی۔ یورپی ممالک کو اس الیکشن میں سب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ اقوام متحدہ کے آبزرورز سمیت بہت سے عالمی مبصرین جائزے کے لیے موجود تھے۔ خوف یہ تھا کہ طیب اردوان دوبارہ کامیاب نہ ہوجائیں، لیکن ہوا وہی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔
ترکی کے عوام کی دعائیں بارگاہ الٰہی میں قبول و مقبول ہوئیں اور طیب اردوان دوبارہ ترکی کے صدر منتخب ہوگئے۔ وہ پہلے ہی مرحلے میں کامیاب قرار پائے ورنہ مغربی میڈیا دوسرے مرحلے کے الیکشن کی پیش گوئی کر رہا تھا۔ اس مرحلے میں اردوان کو ہرانے کی سازشوں کا جال بنا جا رہا تھا۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ طیب اردوان میں وہ کون سی خوبی ہے کہ پوری ترک قوم ان کی حامی اور پرستار ہے اور دنیا بھر کے مسلمان بھی ان کے تہ دل سے چاہنے والے اور شیدائی ہیں۔ ان کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے ان کی اسلامی سوچ اور اسلام پسندی جو انھیں اپنے پیش رو نجم الدین اربکان سے ورثے میں ملی ہے۔
ترک قوم اپنے محسن وزیر اعظم عدنان میندرسکو کبھی فراموش نہیں کرسکتی جنھوں نے مذہب پر عائد کی گئی پابندی کو اٹھانے کی جرأت کی جس کی پاداش میں سیکولر قوتوں نے انھیں تختہ دار پر چڑھا دیا مگر اپنے خون سے ترکی میں اسلامی سوچ کی جو شمع وہ روشن کرگئے اس کی حفاظت اربکان کے بعد اب اردوان کر رہے ہیں۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
ترک میں اسلام پسند قوتیں اللہ کی مدد سے آگے بڑھتی چلی گئیں تا آنکہ 1995 کے عام انتخابات میں اسلام پسند رفاہ پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور نجم الدین اربکان نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا، مگر وہ زیادہ عرصے تک اس منصب پر برقرار نہ رہ سکے اور 1997 میں ان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔
اربکان نے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی بھی تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے عوام کو کھوکھلے نعروں سے کبھی نہیں بہلایا اور عوام نے بھی ان کی ہر بار نئے جوش و خروش سے پذیرائی اور حمایت کی۔ اربکان نے سیکولرازم کی مسلسل مخالفت کے باوجود جلاوطنی کو بہانہ بنا کر اقتدار حاصل کرنے سے ہمیشہ گریز کیا اور پارٹی کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے سے اجتناب کیا۔ انھوں نے نظام سے بغاوت یا سول نافرمانی کی بے ساکھیوں کا بھی کبھی سہارا لینے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی فوج سے بھی کبھی لڑائی مول نہیں لی۔انھوں نے ہر حکومت وقت کے مظالم کا جواب نہایت تحمل مزاجی اور دانش مندی سے دیا۔
نجم الدین اربکان نے اپنی دور اندیشی سے اپنے ملک کے عوام کی سوچ کو تبدیل کیا اور انھیں اسلام پسندی کی راہ پر گامزن کیا ۔ یہ انھی کی سوچ اورکوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ترکی میں سیکولرازم کا منہ کالا اور اسلام کا بولا بالا ہے۔ جن فوجی افسران نے 1997 میں اربکان کی حکومت پر شب خون مارا تھا وہ آج عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ اربکان کے نقش پا پر چلنے والے جانشینوں نے ترکی میں سیکولرازم کی قوتوں کی ناک میں نکیل ڈال دی ہے جس میں رجب طیب اردوان پیش پیش ہیں۔
نجم الدین اربکان سچے اور راسخ العقیدہ باعمل مسلمان تھے۔ پانچ وقت کی نماز وہ باقاعدہ پابندی سے مسجد میں ادا کیا کرتے تھے۔ رجب طیب اردوان انھی کی محنت کا ثمر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے 1990 میں طیب اردوان کو کھڑا کردیا۔ سخت محنت اور خدمت کے نتیجے میں وہ 1994 میں استنبول کے میئر کے عہدے پر سرفراز ہوگئے۔ انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے استنبول کی کایا پلٹ دی۔ جو شہر کبھی گندگی کا ڈھیر اور جرائم کا گڑھ ہوا کرتا تھا وہ ہر طرح کی غلاظت اور کرپشن سے پاک ہوگیا۔ جس شہر کا رخ کرتے ہوئے لوگ خوفزدہ ہوتے تھے وہ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن گیا۔ ترکی میں اردوان کی مقبولیت کا گراف اس قدر تیزی کے ساتھ بلند ہوتا چلا گیا کہ وہ پہلے ترکی کے وزیر اعظم اور پھر صدر منتخب ہوگئے۔
15 جولائی 2016 کو ان کے خلاف فوج نے بغاوت کردی، لیکن اس آزمائش کی گھڑی میں ترکی کے عوام ان کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے اور انھوں نے باغیوں کو شکست دے دی۔ بے شک سچے عوامی قائد پر عوام اپنی جانے بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ طیب اردوان کی فتح کا راز ان کی مثالی قیادت میں مضمر ہے۔ بلاشبہ وہ اپنے عوام کے محبوب اور مقبول قائد ہیں۔ وہ عوام کے سروں پر نہیں، دلوں پر راج کرتے ہیں۔ وہ اپنے عوام کے لیے مسائل کے بجائے وسائل پیدا کرتے ہیں۔
طیب اردوان کی اپنے ملک و قوم کی خدمات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس مختصر کالم میں اس کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ صرف مثال کے طور پر ان کے چند کارناموں کا محض تذکرہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کا 23.5 ارب ڈالر کا قرضہ نہ صرف پائی پائی ادا کردیا بلکہ الٹا آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو قرضہ دینے کی پیشکش کردی۔ انھوں نے تعلیمی میدان میں بھی بڑی زبردست اصلاحات کیں جس کے نتیجے میں انٹر کی سطح کے اسکولوں کی تعداد 65 ہزار سے بڑھ کر 12 لاکھ تک پہنچ گئی۔ ان اسکولوں میں دینی اور عصری دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبا کو امامت اور خطابت کا لقب بھی دیا جاتا ہے۔ خود اردوان بھی ایسے ہی اسکول سے تعلیم یافتہ ہیں۔
ترکی کے 81 شہروں میں سے ہر شہر میں یونیورسٹی موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں بڑے شہروں کا رخ کرنے کا رجحان اب کم ہوتا جا رہا ہے۔ ملکی یونیورسٹیوں کی تعداد 98 سے بڑھا کر 190 کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ صحت کے شعبے میں گرین کارڈ کا اجرا بھی عوام کی بہت بڑی خدمت ہے جس کے تحت کسی بھی ترک شہری کو ملک کے کسی بھی اسپتال میں ہر وقت علاج کی مفت سہولت حاصل ہے۔ بلاشبہ یہ اردوان کا بہت بڑا کارنامہ ہے جو ہمارے قائدین کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔ 12 برس کے عرصے میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد 26 سے بڑھ کر 57 ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں سیاحت کو ترکی میں بڑا فروغ حاصل ہوا ہے اور سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدن سالانہ 20 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب ترکی میں سڑکوں کی تعمیر کا کام بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔
طیب اردوان نہایت سادہ مزاج ہیں اور وہ گھل مل جانے کی عادت کی وجہ سے اپنے عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ دنیا کے مسلمانوں میں ان کی مقبولیت کی وجہ ان کی اسلام پسندی اور جرأت مندی ہے۔ شام یا روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کا مسئلہ ہو یا فلسطین کے مظلومین کا مسئلہ وہ ہمیشہ ڈٹ کر بات کرتے ہیں۔ اس لیے وہ صحیح معنوں میں مرد حق کہلانے کے مستحق ہیں۔ ان کی یہ خوبی انھیں مسلمان قائدین میں سب سے ممتاز کرتی ہے۔ سچ پوچھیے تو وہ اقبال کے مرد مومن کی صفات کے حامل ہیں۔ کاش ہمیں بھی ایسے قائد میسر آجائیں!
واشنگٹن سے تل ابیب تک اضطراب کی سی کیفیت تھی۔ یورپی ممالک کو اس الیکشن میں سب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ اقوام متحدہ کے آبزرورز سمیت بہت سے عالمی مبصرین جائزے کے لیے موجود تھے۔ خوف یہ تھا کہ طیب اردوان دوبارہ کامیاب نہ ہوجائیں، لیکن ہوا وہی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔
ترکی کے عوام کی دعائیں بارگاہ الٰہی میں قبول و مقبول ہوئیں اور طیب اردوان دوبارہ ترکی کے صدر منتخب ہوگئے۔ وہ پہلے ہی مرحلے میں کامیاب قرار پائے ورنہ مغربی میڈیا دوسرے مرحلے کے الیکشن کی پیش گوئی کر رہا تھا۔ اس مرحلے میں اردوان کو ہرانے کی سازشوں کا جال بنا جا رہا تھا۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ طیب اردوان میں وہ کون سی خوبی ہے کہ پوری ترک قوم ان کی حامی اور پرستار ہے اور دنیا بھر کے مسلمان بھی ان کے تہ دل سے چاہنے والے اور شیدائی ہیں۔ ان کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے ان کی اسلامی سوچ اور اسلام پسندی جو انھیں اپنے پیش رو نجم الدین اربکان سے ورثے میں ملی ہے۔
ترک قوم اپنے محسن وزیر اعظم عدنان میندرسکو کبھی فراموش نہیں کرسکتی جنھوں نے مذہب پر عائد کی گئی پابندی کو اٹھانے کی جرأت کی جس کی پاداش میں سیکولر قوتوں نے انھیں تختہ دار پر چڑھا دیا مگر اپنے خون سے ترکی میں اسلامی سوچ کی جو شمع وہ روشن کرگئے اس کی حفاظت اربکان کے بعد اب اردوان کر رہے ہیں۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
ترک میں اسلام پسند قوتیں اللہ کی مدد سے آگے بڑھتی چلی گئیں تا آنکہ 1995 کے عام انتخابات میں اسلام پسند رفاہ پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی اور نجم الدین اربکان نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا، مگر وہ زیادہ عرصے تک اس منصب پر برقرار نہ رہ سکے اور 1997 میں ان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔
اربکان نے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی بھی تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے عوام کو کھوکھلے نعروں سے کبھی نہیں بہلایا اور عوام نے بھی ان کی ہر بار نئے جوش و خروش سے پذیرائی اور حمایت کی۔ اربکان نے سیکولرازم کی مسلسل مخالفت کے باوجود جلاوطنی کو بہانہ بنا کر اقتدار حاصل کرنے سے ہمیشہ گریز کیا اور پارٹی کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے سے اجتناب کیا۔ انھوں نے نظام سے بغاوت یا سول نافرمانی کی بے ساکھیوں کا بھی کبھی سہارا لینے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی فوج سے بھی کبھی لڑائی مول نہیں لی۔انھوں نے ہر حکومت وقت کے مظالم کا جواب نہایت تحمل مزاجی اور دانش مندی سے دیا۔
نجم الدین اربکان نے اپنی دور اندیشی سے اپنے ملک کے عوام کی سوچ کو تبدیل کیا اور انھیں اسلام پسندی کی راہ پر گامزن کیا ۔ یہ انھی کی سوچ اورکوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ترکی میں سیکولرازم کا منہ کالا اور اسلام کا بولا بالا ہے۔ جن فوجی افسران نے 1997 میں اربکان کی حکومت پر شب خون مارا تھا وہ آج عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ اربکان کے نقش پا پر چلنے والے جانشینوں نے ترکی میں سیکولرازم کی قوتوں کی ناک میں نکیل ڈال دی ہے جس میں رجب طیب اردوان پیش پیش ہیں۔
نجم الدین اربکان سچے اور راسخ العقیدہ باعمل مسلمان تھے۔ پانچ وقت کی نماز وہ باقاعدہ پابندی سے مسجد میں ادا کیا کرتے تھے۔ رجب طیب اردوان انھی کی محنت کا ثمر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے 1990 میں طیب اردوان کو کھڑا کردیا۔ سخت محنت اور خدمت کے نتیجے میں وہ 1994 میں استنبول کے میئر کے عہدے پر سرفراز ہوگئے۔ انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے استنبول کی کایا پلٹ دی۔ جو شہر کبھی گندگی کا ڈھیر اور جرائم کا گڑھ ہوا کرتا تھا وہ ہر طرح کی غلاظت اور کرپشن سے پاک ہوگیا۔ جس شہر کا رخ کرتے ہوئے لوگ خوفزدہ ہوتے تھے وہ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن گیا۔ ترکی میں اردوان کی مقبولیت کا گراف اس قدر تیزی کے ساتھ بلند ہوتا چلا گیا کہ وہ پہلے ترکی کے وزیر اعظم اور پھر صدر منتخب ہوگئے۔
15 جولائی 2016 کو ان کے خلاف فوج نے بغاوت کردی، لیکن اس آزمائش کی گھڑی میں ترکی کے عوام ان کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے اور انھوں نے باغیوں کو شکست دے دی۔ بے شک سچے عوامی قائد پر عوام اپنی جانے بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ طیب اردوان کی فتح کا راز ان کی مثالی قیادت میں مضمر ہے۔ بلاشبہ وہ اپنے عوام کے محبوب اور مقبول قائد ہیں۔ وہ عوام کے سروں پر نہیں، دلوں پر راج کرتے ہیں۔ وہ اپنے عوام کے لیے مسائل کے بجائے وسائل پیدا کرتے ہیں۔
طیب اردوان کی اپنے ملک و قوم کی خدمات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس مختصر کالم میں اس کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ صرف مثال کے طور پر ان کے چند کارناموں کا محض تذکرہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کا 23.5 ارب ڈالر کا قرضہ نہ صرف پائی پائی ادا کردیا بلکہ الٹا آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو قرضہ دینے کی پیشکش کردی۔ انھوں نے تعلیمی میدان میں بھی بڑی زبردست اصلاحات کیں جس کے نتیجے میں انٹر کی سطح کے اسکولوں کی تعداد 65 ہزار سے بڑھ کر 12 لاکھ تک پہنچ گئی۔ ان اسکولوں میں دینی اور عصری دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبا کو امامت اور خطابت کا لقب بھی دیا جاتا ہے۔ خود اردوان بھی ایسے ہی اسکول سے تعلیم یافتہ ہیں۔
ترکی کے 81 شہروں میں سے ہر شہر میں یونیورسٹی موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں بڑے شہروں کا رخ کرنے کا رجحان اب کم ہوتا جا رہا ہے۔ ملکی یونیورسٹیوں کی تعداد 98 سے بڑھا کر 190 کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ صحت کے شعبے میں گرین کارڈ کا اجرا بھی عوام کی بہت بڑی خدمت ہے جس کے تحت کسی بھی ترک شہری کو ملک کے کسی بھی اسپتال میں ہر وقت علاج کی مفت سہولت حاصل ہے۔ بلاشبہ یہ اردوان کا بہت بڑا کارنامہ ہے جو ہمارے قائدین کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔ 12 برس کے عرصے میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد 26 سے بڑھ کر 57 ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں سیاحت کو ترکی میں بڑا فروغ حاصل ہوا ہے اور سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدن سالانہ 20 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب ترکی میں سڑکوں کی تعمیر کا کام بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔
طیب اردوان نہایت سادہ مزاج ہیں اور وہ گھل مل جانے کی عادت کی وجہ سے اپنے عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ دنیا کے مسلمانوں میں ان کی مقبولیت کی وجہ ان کی اسلام پسندی اور جرأت مندی ہے۔ شام یا روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کا مسئلہ ہو یا فلسطین کے مظلومین کا مسئلہ وہ ہمیشہ ڈٹ کر بات کرتے ہیں۔ اس لیے وہ صحیح معنوں میں مرد حق کہلانے کے مستحق ہیں۔ ان کی یہ خوبی انھیں مسلمان قائدین میں سب سے ممتاز کرتی ہے۔ سچ پوچھیے تو وہ اقبال کے مرد مومن کی صفات کے حامل ہیں۔ کاش ہمیں بھی ایسے قائد میسر آجائیں!