اپٹما نے روئی کی درآمد پر پھر سے ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ رد کردیا
روئی کی ملکی پیداوار ضرورت سے کم ہے،ماضی میں فیصلے سے یارن کی درآمد بڑھی
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سینئر وائس چیئرمین زاہد مظہر نے روئی کی درآمدات پر 15جولائی سے کسٹمز اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کے نفاذ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیمار ٹیکسٹائل انڈسٹری کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گی۔
ایس آر او847 کے ذریعے روئی کی درآمد پر سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹی و ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی چھوٹ واپس لینے پر اپنے ردعمل میں کہاکہ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جاری کردہ حتمی شماریات کے مطابق سال 2017-18 میں روئی کی پیداوار 1 کروڑ 15 لاکھ 80 ہزار بیلز رہی، مالی سال 2016-17 میں پیداوار 1 کروڑ7لاکھ30ہزار گانٹھ اور 2015-16 میں 97 لاکھ 90ہزار بیلز تھی، اس طرح مسلسل 3 سیزنز میں روئی کی پیداوار ہدف سے کم رہی، یہ کاٹن کمشنر کے اس دعوے کی تردید ہے کہ پاکستان سالانہ 1 کروڑ 30 لاکھ بیلز روئی پیدا کرتا ہے، اسی بنیاد پر حکومت نے روئی کی درآمد پر پھر سے کسٹمز ڈیوٹی اور ایڈیشن کسٹمزڈیوٹی عائد کی جو دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
زاہد مظہر نے کہاکہ اول تو روئی کے زیرکاشت رقبے میں چند برسوں سے کمی آ رہی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں کاشتکار گنے کی طرف منتقل ہو گئے ہیں، دوسرا یہ کہ کپاس کی فصل میں بھی کمی آئی ہے کیونکہ پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار کم ہوئی ہے، اس معاملے سے فوری نمٹنے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ پاکستان سینٹرل کاٹن کمپنی کی رپورٹ کے مطابق اس سال سندھ میں روئی کے زیرکاشت صرف 48 فیصد علاقے میں بوائی بھی نہ ہوسکی جس کی وجہ پانی کی قلت اور خراب واٹر مینجمنٹ ہے۔
انھوں نے کہاکہ خام کاٹن کی درآمد پر سیلزٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی نافذ کرنے سے2011-12 کے مقابلے میں 2016-17 میں فنشڈ کاٹن یارن کی درآمدات میں 500 فیصد اضافہ ہوا تھا،یہ پالیسی پاکستان میں سوتی دھاگے کی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے بجائے حریف ملکوں کیلیے معاون ثابت ہوئی۔
زاہد مظہر نے بتایاکہ کاروبار کی بلند لاگت اور کپاس کی نامناسب سپلائی کی وجہ سے 140 ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں جس سے 10لاکھ ملازمتوں کا نقصان ہوا 75 سے 80 ملز بندش کے دہانے پر ہیں جس سے بیروزگاری کے ڈیٹا میں مزید 6 لاکھ کا اضافہ ہو گا، 140ملوں کی بندش اور باقی کے گنجائش سے کم صلاحیت پر چلنے کی وجہ سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو سالانہ 4ارب ڈالر سے زیادہ کا خسارہ ہو رہا ہے جو پاکستان کے بھاری تجارتی خسارے کے مسئلے سے نمٹنے میں اہم ہو سکتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ صرف برآمدات میں اضافے سے قرضوں کی ادائیگی میں مدد مل سکتی ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیاکہ حکومت روئی کی درآمد پر کسٹمز اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی فوری ختم کر کے برآمدی ٹیکسٹائل صنعت اور ملکی معیشت کو مکمل تباہی سے بچائے اور روئی کی پیداوار 2 کروڑ گانٹھ تک پہنچنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے۔
ایس آر او847 کے ذریعے روئی کی درآمد پر سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹی و ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی چھوٹ واپس لینے پر اپنے ردعمل میں کہاکہ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جاری کردہ حتمی شماریات کے مطابق سال 2017-18 میں روئی کی پیداوار 1 کروڑ 15 لاکھ 80 ہزار بیلز رہی، مالی سال 2016-17 میں پیداوار 1 کروڑ7لاکھ30ہزار گانٹھ اور 2015-16 میں 97 لاکھ 90ہزار بیلز تھی، اس طرح مسلسل 3 سیزنز میں روئی کی پیداوار ہدف سے کم رہی، یہ کاٹن کمشنر کے اس دعوے کی تردید ہے کہ پاکستان سالانہ 1 کروڑ 30 لاکھ بیلز روئی پیدا کرتا ہے، اسی بنیاد پر حکومت نے روئی کی درآمد پر پھر سے کسٹمز ڈیوٹی اور ایڈیشن کسٹمزڈیوٹی عائد کی جو دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
زاہد مظہر نے کہاکہ اول تو روئی کے زیرکاشت رقبے میں چند برسوں سے کمی آ رہی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں کاشتکار گنے کی طرف منتقل ہو گئے ہیں، دوسرا یہ کہ کپاس کی فصل میں بھی کمی آئی ہے کیونکہ پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار کم ہوئی ہے، اس معاملے سے فوری نمٹنے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ پاکستان سینٹرل کاٹن کمپنی کی رپورٹ کے مطابق اس سال سندھ میں روئی کے زیرکاشت صرف 48 فیصد علاقے میں بوائی بھی نہ ہوسکی جس کی وجہ پانی کی قلت اور خراب واٹر مینجمنٹ ہے۔
انھوں نے کہاکہ خام کاٹن کی درآمد پر سیلزٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی نافذ کرنے سے2011-12 کے مقابلے میں 2016-17 میں فنشڈ کاٹن یارن کی درآمدات میں 500 فیصد اضافہ ہوا تھا،یہ پالیسی پاکستان میں سوتی دھاگے کی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے بجائے حریف ملکوں کیلیے معاون ثابت ہوئی۔
زاہد مظہر نے بتایاکہ کاروبار کی بلند لاگت اور کپاس کی نامناسب سپلائی کی وجہ سے 140 ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں جس سے 10لاکھ ملازمتوں کا نقصان ہوا 75 سے 80 ملز بندش کے دہانے پر ہیں جس سے بیروزگاری کے ڈیٹا میں مزید 6 لاکھ کا اضافہ ہو گا، 140ملوں کی بندش اور باقی کے گنجائش سے کم صلاحیت پر چلنے کی وجہ سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو سالانہ 4ارب ڈالر سے زیادہ کا خسارہ ہو رہا ہے جو پاکستان کے بھاری تجارتی خسارے کے مسئلے سے نمٹنے میں اہم ہو سکتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ صرف برآمدات میں اضافے سے قرضوں کی ادائیگی میں مدد مل سکتی ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیاکہ حکومت روئی کی درآمد پر کسٹمز اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی فوری ختم کر کے برآمدی ٹیکسٹائل صنعت اور ملکی معیشت کو مکمل تباہی سے بچائے اور روئی کی پیداوار 2 کروڑ گانٹھ تک پہنچنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے۔