افغان طالبان سے امن مذاکرات کی امریکی حمایت
بھارت اور افغان تکون نے پاکستان کی ہر مخلصانہ کوشش کو شکوک کے ترازو میں تولا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچ گئے۔ مائیک پومپیو کے پاس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا افغان طالبان سے امن مذاکرات کا روڈ میپ ہے، افغانستان کی سیاسی صورتحال کا المناک پہلو ، امریکا کی عسکری بے بسی اور صدر اشرف غنی حکومت کی بے سمتی،قوت فیصلہ کے فقدان اور سماجی وسیاسی ابتری کی گھمبیرتا ہے جس میں امریکا اور نیٹو فورسز کی تین عشروں سے زاید عرصہ پر محیط جنگ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچی اور نہ ہی افغانستان کو بھرپور عالمی حمایت، مالی امداد، غیر ملکی عسکری سپورٹ اور انتظامی تعمیر و بحالی مے معاونت کا کوئی فائدہ ہوا، یوں کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان بھی امریکا کے لیے ایڑھی کا وہ دیومالائی زخم Achilles' heel ثابت ہوا ۔
مائیک پومپیو جب سے وزیر خارجہ بنے ہیں یہ ان کا افغانستان کا پہلا دورہ ہے، انھوں نے کہا کہ پچھلے سال صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں مزید فوجی بھیج کر طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی تاکہ وہ مذاکرات کی میز پر آجائیں ، پومپیو کے مطابق بہت سے طالبان اب سمجھتے ہیں وہ لڑائی کرکے جیت نہیں سکتے۔
حقیقت میں افغان حکام اور وارلارڈز آج بھی اپنی تاریخی نرگسیت کے گمشدہ ابواب کے طلسم میں گرفتارہیں اور پاکستان کے کلیدی کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے اسی امریکی عطار کے لونڈوں سے دوا لینے پر بضد ہیں جو افغانستان کی تباہ حالی کے اصل ذمے دار ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ مائیک پومپیو کی جستجو امریکا افغان تعلقات کو کس سمت لے جاتی ہے اور افغان طالبان سے امن مزاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، مگر افغان صورتحال کا سیاسی حل کئی حوالوں سے ایک کثیر جہتی روڈ میپ پر عمل درآمد کا ہے ایک ایسا سیاسی حل جس میں افغان طالبان کے مطالبات پ سنجیدگی سے غور و فکر ہو، خطے میں جنگ کی تباہ کاریوں کا سدباب ہو۔
امن کی عالمی کوششوں کا از سر نو جائزہ لینے کی کوئی سبیل نکالی جائے تاہم بنیادی سوال امریکی صدر ٹرمپ کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ہے، وہ جنوبی ایشیا کے لیے جو پالیسی جاری کرچکے ہیں اس کی افادیت غیر موثر ہے ،کیونکہ اس کی اساس پاکستان سے مخاصمت ، بھارت کی ریشہ دوانیوں پر مبنی سیاسی چغل خوریوں پر قائم ہے، بھارت نے افغانستان میں اثر ونفوذ کے تمام غیر اخلاقی اور جارحانہ عزائم کا رخ پاکستان مخالف پروپیگنڈہ پر موڑا ہے اور امریکا کو باور کرنے کے ہزار جتن کررہا ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا ذمے دار پاکستان ہے۔
یہ نسخہ کیمیا بھارت نے اس کمال سے امریکیوں کو پلایا ہے کہ اس کے اثرات افغان انتظامیہ میں نیچے تک پھیل چکے ہیں، لہذا صدر اشرف غنی بھی افغان طالبان کی پر تشدد کارروائیوں، سیاسی بحران،اور سماجی شکست وریخت کا موثر حل تلاش کرنے کے بجائے پاکستان کو بلیم گیم میں ملوث کرنے کی عجیب نفسیاتی الجھن میں گرفتار ہیں، اگر پاکستان کی ان مساعی کا جائزہ لیا جائے جو اس نے خطے میں استحکام اور امن کے قیام کے لیے اپنی سطح پر یا عالمی کوششوں کے حوالہ سے کی ہیں تو وہ اس امر کی غماز ہیں کہ پاکستان افغانستان میں امن کو اپنے بہترین مفاد میں پاتا ہے۔
پاکستان کے آرمی چیف جنرکل قمر جاوید باجوہ نے افغان صدر ،چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور دیگر عسکری شخصیات سے متعد بار ملاقاتیں کی ہیں، افغان وفود نے جی ایچ کیو کے دورے کیے ہیں مگر امریکا ، بھارت اور افغان تکون نے پاکستان کی ہر مخلصانہ کوشش کو شکوک کے ترازو میں تولا اور امریکا تک کے ذہن میں یہ فتور ڈال دیا کہ پاکستان کو ڈو مور کے لیے ہدف بنایا جائے جب کہ افغان حکام کو مائیک پومپیو سے مزاکرات کرتے ہوئے پاکستان کے مثبت اور موثر کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے دوسری طرف افغان حکام خطے کے اسٹرٹجیکل تقاضوں اور خطے میں لازمی امن واستحکام کے بنیادی اہداف کے حصول کے لیے جب تک امریکا اور افغان حکومت پاکستان کو ساتھ ملاکر کوئی پیش رفت نہیں کرتی افغان طالبان سے بات چیت کی تاریک سرنگ سے روشنی کی کوئی کرن نہیں پھوٹ سکتی۔
امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ وہ احتیاط کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ صدر غنی نے کہا کہ 40 سال سے جاری بحران ایک دن میں حل نہیں ہو سکتا۔ اس موقع پر مائیک پومپیو نے پیشکش کی کہ امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات میں براہ راست شریک ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امن مذاکرات افغان حکومت کی زیر نگرانی ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے ہمسایہ ممالک کی بھی ضرورت ہوگی۔
پومپیونے افغانستان میں اکتوبر میں ہونے والے انتخابات اور اگلے سال صدارتی انتخابات کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا۔ انھوں نے امید کی کہ انتخابات سے قبل افغانستان میں پرتشدد واقعات میں کمی آجائے گی۔امریکی اندازوں سے قطع نظر ، مائیک پومپیو نے یہ اعتراف کرکے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے کہ یہ خطہ اور دنیا افغانستان کے حالات سے اکتا اور تھک گئے ہیں اور یہاں کے عوام بھی جنگ میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے جب کہ اْن کے دورے کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ٹرمپ انتظامیہ کے امن مذاکرات کی کوششوں کو تقویت دینا ہے۔اس ادراک حقیقت کا آیندہ کیا نتیجہ نکلتا ہے اس پر دنیا کی نظریں مرکوز ہونگی۔
مائیک پومپیو جب سے وزیر خارجہ بنے ہیں یہ ان کا افغانستان کا پہلا دورہ ہے، انھوں نے کہا کہ پچھلے سال صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں مزید فوجی بھیج کر طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی تاکہ وہ مذاکرات کی میز پر آجائیں ، پومپیو کے مطابق بہت سے طالبان اب سمجھتے ہیں وہ لڑائی کرکے جیت نہیں سکتے۔
حقیقت میں افغان حکام اور وارلارڈز آج بھی اپنی تاریخی نرگسیت کے گمشدہ ابواب کے طلسم میں گرفتارہیں اور پاکستان کے کلیدی کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے اسی امریکی عطار کے لونڈوں سے دوا لینے پر بضد ہیں جو افغانستان کی تباہ حالی کے اصل ذمے دار ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ مائیک پومپیو کی جستجو امریکا افغان تعلقات کو کس سمت لے جاتی ہے اور افغان طالبان سے امن مزاکرات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، مگر افغان صورتحال کا سیاسی حل کئی حوالوں سے ایک کثیر جہتی روڈ میپ پر عمل درآمد کا ہے ایک ایسا سیاسی حل جس میں افغان طالبان کے مطالبات پ سنجیدگی سے غور و فکر ہو، خطے میں جنگ کی تباہ کاریوں کا سدباب ہو۔
امن کی عالمی کوششوں کا از سر نو جائزہ لینے کی کوئی سبیل نکالی جائے تاہم بنیادی سوال امریکی صدر ٹرمپ کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ہے، وہ جنوبی ایشیا کے لیے جو پالیسی جاری کرچکے ہیں اس کی افادیت غیر موثر ہے ،کیونکہ اس کی اساس پاکستان سے مخاصمت ، بھارت کی ریشہ دوانیوں پر مبنی سیاسی چغل خوریوں پر قائم ہے، بھارت نے افغانستان میں اثر ونفوذ کے تمام غیر اخلاقی اور جارحانہ عزائم کا رخ پاکستان مخالف پروپیگنڈہ پر موڑا ہے اور امریکا کو باور کرنے کے ہزار جتن کررہا ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا ذمے دار پاکستان ہے۔
یہ نسخہ کیمیا بھارت نے اس کمال سے امریکیوں کو پلایا ہے کہ اس کے اثرات افغان انتظامیہ میں نیچے تک پھیل چکے ہیں، لہذا صدر اشرف غنی بھی افغان طالبان کی پر تشدد کارروائیوں، سیاسی بحران،اور سماجی شکست وریخت کا موثر حل تلاش کرنے کے بجائے پاکستان کو بلیم گیم میں ملوث کرنے کی عجیب نفسیاتی الجھن میں گرفتار ہیں، اگر پاکستان کی ان مساعی کا جائزہ لیا جائے جو اس نے خطے میں استحکام اور امن کے قیام کے لیے اپنی سطح پر یا عالمی کوششوں کے حوالہ سے کی ہیں تو وہ اس امر کی غماز ہیں کہ پاکستان افغانستان میں امن کو اپنے بہترین مفاد میں پاتا ہے۔
پاکستان کے آرمی چیف جنرکل قمر جاوید باجوہ نے افغان صدر ،چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور دیگر عسکری شخصیات سے متعد بار ملاقاتیں کی ہیں، افغان وفود نے جی ایچ کیو کے دورے کیے ہیں مگر امریکا ، بھارت اور افغان تکون نے پاکستان کی ہر مخلصانہ کوشش کو شکوک کے ترازو میں تولا اور امریکا تک کے ذہن میں یہ فتور ڈال دیا کہ پاکستان کو ڈو مور کے لیے ہدف بنایا جائے جب کہ افغان حکام کو مائیک پومپیو سے مزاکرات کرتے ہوئے پاکستان کے مثبت اور موثر کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے دوسری طرف افغان حکام خطے کے اسٹرٹجیکل تقاضوں اور خطے میں لازمی امن واستحکام کے بنیادی اہداف کے حصول کے لیے جب تک امریکا اور افغان حکومت پاکستان کو ساتھ ملاکر کوئی پیش رفت نہیں کرتی افغان طالبان سے بات چیت کی تاریک سرنگ سے روشنی کی کوئی کرن نہیں پھوٹ سکتی۔
امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ وہ احتیاط کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ صدر غنی نے کہا کہ 40 سال سے جاری بحران ایک دن میں حل نہیں ہو سکتا۔ اس موقع پر مائیک پومپیو نے پیشکش کی کہ امریکا طالبان کے ساتھ مذاکرات میں براہ راست شریک ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امن مذاکرات افغان حکومت کی زیر نگرانی ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے ہمسایہ ممالک کی بھی ضرورت ہوگی۔
پومپیونے افغانستان میں اکتوبر میں ہونے والے انتخابات اور اگلے سال صدارتی انتخابات کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا۔ انھوں نے امید کی کہ انتخابات سے قبل افغانستان میں پرتشدد واقعات میں کمی آجائے گی۔امریکی اندازوں سے قطع نظر ، مائیک پومپیو نے یہ اعتراف کرکے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے کہ یہ خطہ اور دنیا افغانستان کے حالات سے اکتا اور تھک گئے ہیں اور یہاں کے عوام بھی جنگ میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے جب کہ اْن کے دورے کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ٹرمپ انتظامیہ کے امن مذاکرات کی کوششوں کو تقویت دینا ہے۔اس ادراک حقیقت کا آیندہ کیا نتیجہ نکلتا ہے اس پر دنیا کی نظریں مرکوز ہونگی۔