آئیں اپنی شکست پر ماتم کریں
اگر ہم نہیں لکھیں گے تو جو موت کے منہ میں جاچکے ہیں تو ہم انھیں ایک بار پھر موت کے منہ میں ڈال رہے ہوں گے۔
پچاس برس بعد امن نوبیل انعام اس کو دیا گیا جو بچ نکلا تھا 1945میں اس راکھ کے ڈھیر پر جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نابود کردیا تھا۔ وہ Moriah کی پہاڑی پر قربانی کی موت سے بچ نکلا تھا، اس نے اس لیے انعام وصول کیا کیونکہ وہ سچائی اور انصاف کا گواہ بن گیا تھا، موت کے کیمپوں کے جہنم سے نکل کر وہ انسانیت کے لیے ایک پیامبر بن گیا۔ ایلی ویزیل ہی وہ واحد شخص ہے جو بچ گیا تھا۔
ایلی کی عمر اس وقت 14برس تھی، جب ہنگری کے یہودیوں کی ملک بدری شروع ہوئی تھی۔ اس وقت Sighet پر ہنگری کا قبضہ تھا اور شہر کی یہودی آبادی کو ذلت آمیز طریقے سے Auschwitz جانے والی مال گاڑیوں کے ڈبوں میں ٹھونس دیا گیا تھا، وہیں اس نے اپنی ماں اور سب سے چھوٹی بہن کو گیس کی بھٹیوں میں جاتے دیکھا تھا۔ اپنی کتابوں کے ذریعے ایلی ویزیل نے نہ صرف ان واقعات کا آنکھوں دیکھا حال پیش کیا، بلکہ اس شیطانی طاقت کا تجزیہ بھی پیش کیا جو ان واقعات کے پیچھے کارفرما تھی۔
ایلی ویزیل بوسٹن یونیورسٹی میں انسانیت کے پروفیسر کے علاوہ سٹی کالج نیویارک میں اعزازی پروفیسر بھی رہے۔ اس نے کہا تھا مسئلہ یہ تھا کہ واقعے کا بیان ممکن نہ تھا، کوئی بھی انسان موت کے کیمپوں کی دہشت کو صحیح طرح بیان نہیں کرسکتا تھا، اس کا بیان کرنا بڑی آسانی سے مرنے والوں سے غداری ہوسکتا تھا، مگر خاموشی اس سے بھی بڑی غداری ہوتی۔ ایلی ویزیل نے Auschwitz کے وقوعے کے بعد آسمان کی طرف نظر کرکے خدا سے سوال کیا تھا ''آخر کیوں؟ ایسا کیوں ہونا تھا، اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا؟
پیارے خدا تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے، تو اس وقت کہاں تھا جب انھوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو دار پر لٹکایا تھا، یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلادیا تھا''۔ وہ لکھتا ہے عظیم مورخ شیمین دبنوف ہمارا رہنما تھا، موت کے آخری لمحے تک وہ Riga کے یہودی پاڑے میں اپنے ساتھیوں سے باربار کہتا رہا ''یہودیو یہ سب کچھ لکھ ڈالو'' اس کے کہے پر توجہ دی گئی، راتوں رات یہودی پاڑوں بلکہ کے موت کے کیمپوں میں بھی بے شمار مقتولین روزنامچے اور تاریخ لکھنے والے بن گئے۔
مسئلہ مسلسل اس درد انگیز سوال کا ہے ''ایسی اذیت ناک یادوں کے بوجھ تلے کوئی ایک بامعنی زندگی کس طرح گزار سکتا ہے؟'' کیا جرمن فلسفی صحیح ہے جب وہ کہتا ہے کہ یادیں کبھی نہ ختم ہونے والی اذیت کی خدمت گزاری کرتی ہیں؟ کیا دن اور رات کے بعد کوئی راستہ نہیں ہے؟
Auschwitzکے وقوعے کو برسوں بیت گئے ہیں لیکن وہ وقوعہ آج بھی یہودیوں کو رلاتا رہتا ہے، لیکن دوسری طرف آج جب ہم پاکستان میں بیس کروڑ زندہ انسانوں کی کہانیاں دیکھتے اور سنتے ہیں تو پھر ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، ٹھہرو اور دیکھو اگر کہیں ہمارے غم جیسا کوئی غم ہے بھی کیا۔ ایسی ذلت آمیز زندگی کوئی انسان گزار سکتا ہے؟ کیا ایسا وحشت بھرا دن اور وحشت بھری رات کسی انسان کی زندگی میں آسکتی ہے؟ کیا کوئی ایسا دوسرا ملک ہے جہاں چند سو انسان عیاشیوں پہ عیاشیاں کررہے ہیں اور کروڑوں انسان بھوکے مر رہے ہوں؟
جہاں چند سو انسان لوٹ مار، کرپشن، غبن کرتے آزاد پھر رہے ہوں اور کروڑوں انسان غلامی کی زندگی گزار رہے ہوں؟ کیا کوئی ایسا دوسرا ملک ہے جہاں کے شہری اپنے گھر والوں سمیت اجتماعی خودکشیاں کررہے ہوں؟ جہاں صرف حکمران بااختیار، طاقتور اور امیر ہوں اور انھیں منتخب کرنے والے سب کے سب بے اختیار اور کمزور اور غریب ہوں؟
جہاں کے شہری زہریلا پانی پینے پر مجبور ہوں، جو سارا سارا دن اور رات بغیر بجلی اور پانی کے گزار رہے ہوں، صحت کی سہولیات نہ ہونے پر بیماریوں کی وجہ سے بے موت مارے جارہے ہوں، جہاں کروڑوں بچے اور بڑے تعلیم سے محروم ہوں۔ میرے ہم وطنو تمہارے ساتھ جو بیت رہی ہے، خدارا یہ سب لکھ ڈالو، تاکہ آنے والی نسلیں جان سکیں کہ ان سے پہلے والوں نے کس طرح تڑپ تڑپ کر اپنی جانیں دیں، کس طرح دنیا بھر کی غلاظتوں کے درمیان جیے۔ کس طرح ان کے حکمرانوں نے انھیں ذلیل و خوار کیا۔ خدارا سب کچھ لکھ ڈالو۔
اگر ہم نہیں لکھیں گے تو جو موت کے منہ میں جاچکے ہیں تو ہم انھیں ایک بار پھر موت کے منہ میں ڈال رہے ہوں گے اور ان کی زندگی اور موت دونوں کو بے مقصد بنانے کے ذمے دار ہوں گے اور جو ابھی تک زندہ ہیں ان کی تکلیفوں، اذیتوں، مصیبتوں، دکھوں کو اپنے ہاتھوں رائیگاں کردیں گے۔ یادرکھو صرف یاداشت ہی ہے جو انسانیت کو بچائے گی۔ ایسا وقت بھی ہوتا ہے جب ہم ناانصافی اور ظلم کو روکنے میں بے بس ہوتے ہیں، مگر ایسا وقت کبھی نہیں ہونا چاہیے، جب ہم احتجاج کرنے میں ناکام ہوں۔
کنفیوشس کے چیلے Mencius کا قول ہے ''بادشاہ جنت کا بیٹا ہوتا ہے، جنت اسے منصفانہ حکمرانی کے لیے بھیجتی ہے، اگر وہ ناکام ہوتا ہے اور عوام پر ظلم کرتا ہے تو جنت کی طرف سے عوام کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس سے نجات حاصل کرلیں''
۔ یاد رکھیں انسانی وقار ایک اہم تصور ہوتا ہے، اس جملے کے دو مرکزی پہلو ہیں، پہلا یہ ہے کہ انسانیت کے وقار کا مسئلہ ناقابل تنسیخ ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ایک فرد ہی نہیں سارے انسان ہمیشہ ایک ہی قدر کے حق دار ہوتے ہیں، اس کا فطری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسانیت کے وقار کا دفاع ہم سب کا مشترکہ فریضہ ہے، انسانی وقار انسانیت کی مشترکہ جائیداد ہے، وہ میراث ہم سب جس کی ذمے داری میں حصے دار ہیں، ہر انسانی حق کی پامالی ہر انسان کی ذاتی شکست ہوتی ہے۔ آج پاکستان میں بیس کروڑ انسان سب کے سب شکست خوردہ ہیں۔ آئیں ہم مل کر اپنی شکست پر ماتم کرتے ہیں۔
ایلی کی عمر اس وقت 14برس تھی، جب ہنگری کے یہودیوں کی ملک بدری شروع ہوئی تھی۔ اس وقت Sighet پر ہنگری کا قبضہ تھا اور شہر کی یہودی آبادی کو ذلت آمیز طریقے سے Auschwitz جانے والی مال گاڑیوں کے ڈبوں میں ٹھونس دیا گیا تھا، وہیں اس نے اپنی ماں اور سب سے چھوٹی بہن کو گیس کی بھٹیوں میں جاتے دیکھا تھا۔ اپنی کتابوں کے ذریعے ایلی ویزیل نے نہ صرف ان واقعات کا آنکھوں دیکھا حال پیش کیا، بلکہ اس شیطانی طاقت کا تجزیہ بھی پیش کیا جو ان واقعات کے پیچھے کارفرما تھی۔
ایلی ویزیل بوسٹن یونیورسٹی میں انسانیت کے پروفیسر کے علاوہ سٹی کالج نیویارک میں اعزازی پروفیسر بھی رہے۔ اس نے کہا تھا مسئلہ یہ تھا کہ واقعے کا بیان ممکن نہ تھا، کوئی بھی انسان موت کے کیمپوں کی دہشت کو صحیح طرح بیان نہیں کرسکتا تھا، اس کا بیان کرنا بڑی آسانی سے مرنے والوں سے غداری ہوسکتا تھا، مگر خاموشی اس سے بھی بڑی غداری ہوتی۔ ایلی ویزیل نے Auschwitz کے وقوعے کے بعد آسمان کی طرف نظر کرکے خدا سے سوال کیا تھا ''آخر کیوں؟ ایسا کیوں ہونا تھا، اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا؟
پیارے خدا تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے، تو اس وقت کہاں تھا جب انھوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو دار پر لٹکایا تھا، یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلادیا تھا''۔ وہ لکھتا ہے عظیم مورخ شیمین دبنوف ہمارا رہنما تھا، موت کے آخری لمحے تک وہ Riga کے یہودی پاڑے میں اپنے ساتھیوں سے باربار کہتا رہا ''یہودیو یہ سب کچھ لکھ ڈالو'' اس کے کہے پر توجہ دی گئی، راتوں رات یہودی پاڑوں بلکہ کے موت کے کیمپوں میں بھی بے شمار مقتولین روزنامچے اور تاریخ لکھنے والے بن گئے۔
مسئلہ مسلسل اس درد انگیز سوال کا ہے ''ایسی اذیت ناک یادوں کے بوجھ تلے کوئی ایک بامعنی زندگی کس طرح گزار سکتا ہے؟'' کیا جرمن فلسفی صحیح ہے جب وہ کہتا ہے کہ یادیں کبھی نہ ختم ہونے والی اذیت کی خدمت گزاری کرتی ہیں؟ کیا دن اور رات کے بعد کوئی راستہ نہیں ہے؟
Auschwitzکے وقوعے کو برسوں بیت گئے ہیں لیکن وہ وقوعہ آج بھی یہودیوں کو رلاتا رہتا ہے، لیکن دوسری طرف آج جب ہم پاکستان میں بیس کروڑ زندہ انسانوں کی کہانیاں دیکھتے اور سنتے ہیں تو پھر ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، ٹھہرو اور دیکھو اگر کہیں ہمارے غم جیسا کوئی غم ہے بھی کیا۔ ایسی ذلت آمیز زندگی کوئی انسان گزار سکتا ہے؟ کیا ایسا وحشت بھرا دن اور وحشت بھری رات کسی انسان کی زندگی میں آسکتی ہے؟ کیا کوئی ایسا دوسرا ملک ہے جہاں چند سو انسان عیاشیوں پہ عیاشیاں کررہے ہیں اور کروڑوں انسان بھوکے مر رہے ہوں؟
جہاں چند سو انسان لوٹ مار، کرپشن، غبن کرتے آزاد پھر رہے ہوں اور کروڑوں انسان غلامی کی زندگی گزار رہے ہوں؟ کیا کوئی ایسا دوسرا ملک ہے جہاں کے شہری اپنے گھر والوں سمیت اجتماعی خودکشیاں کررہے ہوں؟ جہاں صرف حکمران بااختیار، طاقتور اور امیر ہوں اور انھیں منتخب کرنے والے سب کے سب بے اختیار اور کمزور اور غریب ہوں؟
جہاں کے شہری زہریلا پانی پینے پر مجبور ہوں، جو سارا سارا دن اور رات بغیر بجلی اور پانی کے گزار رہے ہوں، صحت کی سہولیات نہ ہونے پر بیماریوں کی وجہ سے بے موت مارے جارہے ہوں، جہاں کروڑوں بچے اور بڑے تعلیم سے محروم ہوں۔ میرے ہم وطنو تمہارے ساتھ جو بیت رہی ہے، خدارا یہ سب لکھ ڈالو، تاکہ آنے والی نسلیں جان سکیں کہ ان سے پہلے والوں نے کس طرح تڑپ تڑپ کر اپنی جانیں دیں، کس طرح دنیا بھر کی غلاظتوں کے درمیان جیے۔ کس طرح ان کے حکمرانوں نے انھیں ذلیل و خوار کیا۔ خدارا سب کچھ لکھ ڈالو۔
اگر ہم نہیں لکھیں گے تو جو موت کے منہ میں جاچکے ہیں تو ہم انھیں ایک بار پھر موت کے منہ میں ڈال رہے ہوں گے اور ان کی زندگی اور موت دونوں کو بے مقصد بنانے کے ذمے دار ہوں گے اور جو ابھی تک زندہ ہیں ان کی تکلیفوں، اذیتوں، مصیبتوں، دکھوں کو اپنے ہاتھوں رائیگاں کردیں گے۔ یادرکھو صرف یاداشت ہی ہے جو انسانیت کو بچائے گی۔ ایسا وقت بھی ہوتا ہے جب ہم ناانصافی اور ظلم کو روکنے میں بے بس ہوتے ہیں، مگر ایسا وقت کبھی نہیں ہونا چاہیے، جب ہم احتجاج کرنے میں ناکام ہوں۔
کنفیوشس کے چیلے Mencius کا قول ہے ''بادشاہ جنت کا بیٹا ہوتا ہے، جنت اسے منصفانہ حکمرانی کے لیے بھیجتی ہے، اگر وہ ناکام ہوتا ہے اور عوام پر ظلم کرتا ہے تو جنت کی طرف سے عوام کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس سے نجات حاصل کرلیں''
۔ یاد رکھیں انسانی وقار ایک اہم تصور ہوتا ہے، اس جملے کے دو مرکزی پہلو ہیں، پہلا یہ ہے کہ انسانیت کے وقار کا مسئلہ ناقابل تنسیخ ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ایک فرد ہی نہیں سارے انسان ہمیشہ ایک ہی قدر کے حق دار ہوتے ہیں، اس کا فطری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسانیت کے وقار کا دفاع ہم سب کا مشترکہ فریضہ ہے، انسانی وقار انسانیت کی مشترکہ جائیداد ہے، وہ میراث ہم سب جس کی ذمے داری میں حصے دار ہیں، ہر انسانی حق کی پامالی ہر انسان کی ذاتی شکست ہوتی ہے۔ آج پاکستان میں بیس کروڑ انسان سب کے سب شکست خوردہ ہیں۔ آئیں ہم مل کر اپنی شکست پر ماتم کرتے ہیں۔