لاہورNA124 تینوں بڑی پارٹیوں میں سخت مقابلہ
لاہور کا حلقہ این اے 124 شہری علاقوں کے نیم پوش متوسط اورغریب طبقےکی آبادیوں پرمشتمل ہےجس میں 16یونین کونسلزشامل ہیں۔
VIENNA:
صوبائی دارلحکومت لاہور کا حلقہ این اے 124 شہری علاقوں کے نیم پوش متوسط اور غریب طبقے کی آبادیوں پر مشتمل ہے جس میں 16 یونین کونسلز شامل ہیں۔
دریائے راوی کے کنارے محمود بوٹی سے شروع ہونے والے اس حلقہ میں شادی پورہ، داروغہ والا، مومن پورہ، ہربنس پورہ، فتح گڑھ، مغل پورہ، ساہواڑی، پاکستان منٹ، رشید پورہ، دھرم پورہ، باغبانپورہ ، رام گڑھ ، گنج بازار ، تاجپورہ ، شالیمار لنک روڈ، انگوری سکیم، درس بڑے میاں سمیت غازی آباداور دیگر آبادیاں شامل ہیں۔اس حلقہ میں صوبائی اسملی کے بھی دو حلقے ہیں جن میں صوبائی اسمبلی کے دو حلقے پی پی 145 اور پی پی 146 آتے ہیں۔ 2008ء کے الیکشن میں ان تینوں حلقوں میں مسلم لیگ (ن) نے کلین سویپ کیا تھا اور پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر آئی تھی۔
اس حلقے کے مسائل کی بات کی جائے تو شہری حلقے میں سب سے بڑامسئلہ پینے کا آلودہ پانی،ناکارہ سیوریج سسٹم ہے۔ یہاں لڑکوں اورلڑکیوں کے لئے کوئی سرکاری ڈگری کالج نہیں ہے۔ تاہم ہائی سکولوں کو ہائیرسکینڈری کا درجہ ضروردیا گیا ہے۔ یہاں کوئی بڑاسرکاری ہسپتال بھی نہیں ہے۔طالبات کے لئے ڈگری کالج اورہسپتال کے منصوبے کاغذوں کی حد تک نظرآتے ہیں ۔حلقہ کے بہت سے علاقوں میں کئی ایسے بھی ہیں جہاں سوئی گیس تک کی سہولت میسرنہیں ہے جبکہ سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں۔
متعدد آبادیوں میں پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی ،تجاوزات، آلودگی اورناکارہ سیوریج سسٹم بڑے مسائل اس حلقہ میں سیاست دانوں کو منہ چڑاتے ہیں۔ پورے حلقہ میں کوئی بھی پوش آبادی نہیں ہے ۔ یہاں پر مجموعی طور پر ارائیں برادری کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر قوموں میں راجپوت، کمبوہ، جٹ ، شیخ شامل ہیں۔ 1970ء میں شہید ذوالفقار علی بھٹو جبکہ 1988 میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور سے منتخب ہوئے تھے ، تو این اے 124 کے متعدد علاقے جو جی ٹی روڈ کے ساتھ تھے اس حلقہ میں شامل تھے ۔این اے 124میں ٹوٹل ووٹوں کی تعداد 3لاکھ 22 ہزار 697 ہے۔ جن میںمرد ووٹر 1 لاکھ 84 ہزار 231 ہیںجبکہ خواتین ووٹرز 1 لاکھ 38 ہزار 466 ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس حلقہ میں 264پولنگ اسٹیشنز بنائے ہیں جن پر 690پولنگ بوتھ بھی بنائے گئے ہیں۔
11 مئی کو ہونیوالے عام انتخابات کے لئیاس حلقہ انتخاب میں درجن کے قریب امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے تھے ۔این اے 124سے مسلم لیگ ہم خیال کے سیکرٹری جنرل ہمایوں اختر خان نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کروائے تھے تاہم انہیں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے نہ صرف اس حلقے بلکہ کسی بھی جگہ سے ٹکٹ نہ ملنے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، ہمایوں اختر خان کو 2008ء کے انتخابات میں اس حلقہ سے ضمانت ضبط کروانی پڑی تھی، وہ مسلم لیگ ق کے امیداور تھے اب انھوں نے اپنے کاغذات واپس لے لیے ہیں ۔
این اے 124سے آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار الیاس گجر بھی حصہ لے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیڈر پرویز مشرف کی گرفتاری پراحتجاجاً الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔دوسری جانب این اے 124 سے ہی جمعیت علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل قاری زوار بہادر بھی امیدوار تھے تاہم وہ سنی تحریک کے امیدوار رضائے مصطفی کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں جنہوں نے اپنے قائد ثروت اعجاز قادری کے ہمراہ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں نگران حکومت سے مطالبہ کر دیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا راج ہے لہذا الیکشن ایک ماہ تک ملتوی کیے جائیں ۔تحریک تحفظ پاکستان کے پلیٹ فارم سے میاں عبدالوحید بھی اس حلقہ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔اس کے علاوہ ایم کیوایم کے منیر احمد ،اے این پی کے غلام مصطفیٰ بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔
ا س حلقے میں پاکستان مسلم لیگ ج کے امیدوار عمران احمد خان جو مسلم لیگ ج کے سیکرٹری جنرل اقبال احمد خان مرحوم کے بھانجے ہیں بھی امیدوارہیں تاہم اس حلقہ میں بظاہر مقابلہ 3 بڑی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔مسلم لیگ(ن) نے اس حلقہ سے اپنے سابق ایم این اے شیخ روحیل اصغر کو ہی اپنا امیدوار بنایا ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن کی اہلیہ بشریٰ اعتزاز امیدوار ہیں ۔ اس حلقہ سے علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
2008ء کے انتخابات میں شیخ روحیل اصغر نے اس حلقے سے 70ہزار ووٹ لے کے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان پیپلزپارٹی کے ایاز عمران نے 25ہزار ووٹ لئے تھے ۔دوسری جانب 2002ء میںاس حلقہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن نے 37ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی ۔موجودہ صورتحال میں پیپلزپارٹی کی بشریٰ اعتزازاحسن نے اپنے خاوند اعتزاز احسن کے ہمراہ گذشتہ دو ماہ سے اپنی انتخابی مہم شروع کررکھی ہے۔
انہوں نے علاقہ میں متعدد جلسے اور ریلیاں نکالی ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک کے علاوہ علاقہ کی آرائیں برادری کاووٹ بنک بھی بشریٰ اعتزاز کے ساتھ ہے ۔ اعتزاز احسن اور ان کی اہلیہ بشری اعتزاز اپنے عوامی مزاج کے باعث پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور ووٹروں میں خاصے مقبول ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) کے مدمقابل شیخ روحیل اصغر بھی ان کے مقابلے میں انتخابی دنگل کے ماہر سیاست دان ہیں۔ اس کے برعکس 2008ء کے انتخابات جیتنے کے بعد شیخ روحیل اصغر نے علاقہ کے ترقیاتی کاموں پر توجہ نہیں دی جس کے باعث ان کی اس حلقہ میں بڑی مخالفت پائی جاتی ہے۔
ان پر گیس اور بجلی چوری کے بھی الزامات عائد ہوتے رہے ہیں ۔تیسرے امیدوار ولید اقبال کا تعلق تحریک انصاف سے ہے وہ پہلی دفعہ الیکشن لڑ رہے ہیں انہیں سخت مقابلے کا سامنا ہے وہ اس علاقہ میں نئے ہیں اور علاقہ کے مسائل اور دیگر معاملات سے ابھی تک ناآشنا ہیں ۔پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں لیکن عام انتخابات میں کارکنوں کو ساتھ لے کر چلنا ان کے مزاج کیلئے دشوار نظر آتا ہے، وہ پر امید ہیں کہ عمران خان کی وجہ سے وہ کثیر تعداد میں ووٹ تو لے جائیں گے ۔این اے 124کے نیچے صوبائی اسمبلی کی 2 نشستیں پی پی 145اور پی پی146 ہیں۔ پی پی 145میں ووٹرز کی کل تعداد 1 لاکھ 64 ہزار 837ہے جن میں سے95 ہزار 1سو 99 مرد ہیں جبکہ 69 ہزار 6 سو 38 خواتین ووٹرز ہیں اس حلقہ میں الیکشن کمیشن نے 138پولنگ سٹشنز پر 351پولنگ بوتھ بنائے ہیں اور 138پریذائیڈنگ آفیسرز کے ساتھ 702اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر اور 351پولنگ آفیسرز کو تعینات کیا گیا ہے۔
پی پی 145سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار حاجی وحید گل ہیں ، وہ سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کوآرڈینیٹر بھی رہے ہیں ۔پیپلزپارٹی کے امیدوار حاجی امداد حسین ہیں جو پہلے مسلم لیگ(ن) میں ہوتے تھے ۔ مشرف دور میں (ق) لیگ میں آگئے اور چودھری پرویز الہی کے کوآرڈینیٹر بن گئے اب جب انہیں (ق) لیگ کی طرف سے ٹکٹ نہ ملا تو وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے ۔تیسرے امیدوار تحریک انصاف کے طارق حمید ہیں جو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں امیدوار پہلی دفعہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ 2008ء کے انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ (ن) کے حاجی نوید انجم منتخب ہوئے تھے مگر اس دفعہ عدالت کی طرف سے نااہل ہونے کے بعد مسلم لیگ(ن) نے حاجی وحید گل کو ٹکٹ دیا ہے ۔
اس حلقہ میں بھی بظاہر مقابلہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی میں ہے۔ حاجی امداد حسین کے لئے یہ حلقہ نیا نہیں ان کی برادری اس حلقہ میں موجود ہے ۔ پرویز الہی کے دور میں انکی ہمشیرہ ریحانہ جمیل نے اس حلقہ میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ہیں جن میں کچی آبادیوں میں سولنگ ، کارپٹ روڈ ، سوئی گیس کی فراہمی اور سیوریج کے نظام کی بہتری شامل ہے ۔ تحریک انصاف کے امیدوار طارق حمید کو بھی ڈرامائی انداز میں ٹکٹ ملا ہے پہلے یہ ٹکٹ تحریک انصاف ضلع لاہور کے نائب صدر افتخار احمد کو دیا گیا تھا جو کہ اس حلقہ کی ایک یونین کونسل کے ناظم بھی رہ چکے ہیں ۔ افتخار احمد اسی رنجش میں اندرون خانہ پیپلزپارٹی کے امیدوار حاجی امداد حسین کی سپورٹ کر رہے ہیں ۔حلقہ پی پی 146میں ٹوٹل ووٹروں کی تعداد 1لاکھ 57 ہزار 8 سو 60 ہے جن میں مرد 89ہزار 32اور خواتین ووٹرز کی تعداد 68ہزار8 سو 28 ہے ۔
الیکشن کمیشن نے اس حلقہ میں 126پولنگ اسٹشنوں پر 339پولنگ بوتھ بنائے ہیں اور 126پریزائیڈنگ آفیسرز کے ساتھ 678اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسرز اور 339پولنگ آفیسرز کو تعینات کیا گیا ہے ۔اگر حلقہ پی پی 146کی بات کی جائے تو یہاں بھی مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان ہے تاہم پیپلزپارٹی کے امیدوار سرپرائز دے سکتے ہیں۔ پی پی 146میں مسلم لیگ(ن) کے حاجی ملک محمد وحید ،تحریک انصاف کے جمشید اقبال چیمہ اور پیپلزپارٹی کے زاہد ذوالفقار خان امیدوار ہیں۔ اس حلقہ کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو 2008ء کے انتخابات میں یہاں سے مسلم لیگ(ن) حاجی اللہ رکھا نے 33ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 2002ء کے انتخابات میں یہاں سے پاکستان پیپلزپارٹی کے حاجی محمد اعجاز نے 19ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی ۔
حاجی ملک محمد وحید یوسی 56 غازی آباد یونین کونسل کے ناظم بھی رہے ہیں اور انہوں نے اور ان کے نائب ناظم الحاج محمد آصف بٹ نے ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ہیں ۔2008ء کے انتخابات میں بی اے نہ ہونے کے باعث ملک محمد وحید کو اس حلقہ سے ایم پی اے کا ٹکٹ نہ مل سکا اور مسلم لیگ (ن) نے حاجی اللہ رکھا کو ٹکٹ دیدیا مگر اب بی اے کی شرط ختم ہونے کے بعد 2013ء کے انتخابات کے لئے مسلم لیگ(ن) نے حاجی اللہ رکھا کے بجائے ملک محمد وحید کو ٹکٹ دیا ہے، جس کے باعث اس حلقہ میں (ن) لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار زاہد ذوالفقار خان جو لاہور کے صدر بھی ہیں الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ دھیمے مزاج کے مالک زاہد ذوالفقار خان نے بھی گذشتہ 2ماہ سے اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے جس میں وہ خاطر خواہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔
تحریک انصاف کے امیدوار جمشید اقبال چیمہ این اے 124سے ایم این اے کے امیدوار تھے مگر پارٹی نے انہیں صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹ جاری کردیا ۔ جمشید اقبال چیمہ نے بھی گذشتہ ایک سال سے اس حلقہ میں انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے انہوں نے بھی اس حلقہ میں طوفانی دورے کئے ہیں اور حلقہ کی یوتھ کو آرگنائز کیا ہے ۔ جس سے یہ لگ رہا ہے کہ اصل مقابلہ ملک محمد وحید اور جمشید اقبال چیمہ کے درمیان ہے تاہم دونوں کی لڑائی میں زاہد ذوالفقار خان کو فائدہ پہنچنے کے بھی امکانات موجود ہیں ۔
صوبائی دارلحکومت لاہور کا حلقہ این اے 124 شہری علاقوں کے نیم پوش متوسط اور غریب طبقے کی آبادیوں پر مشتمل ہے جس میں 16 یونین کونسلز شامل ہیں۔
دریائے راوی کے کنارے محمود بوٹی سے شروع ہونے والے اس حلقہ میں شادی پورہ، داروغہ والا، مومن پورہ، ہربنس پورہ، فتح گڑھ، مغل پورہ، ساہواڑی، پاکستان منٹ، رشید پورہ، دھرم پورہ، باغبانپورہ ، رام گڑھ ، گنج بازار ، تاجپورہ ، شالیمار لنک روڈ، انگوری سکیم، درس بڑے میاں سمیت غازی آباداور دیگر آبادیاں شامل ہیں۔اس حلقہ میں صوبائی اسملی کے بھی دو حلقے ہیں جن میں صوبائی اسمبلی کے دو حلقے پی پی 145 اور پی پی 146 آتے ہیں۔ 2008ء کے الیکشن میں ان تینوں حلقوں میں مسلم لیگ (ن) نے کلین سویپ کیا تھا اور پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر آئی تھی۔
اس حلقے کے مسائل کی بات کی جائے تو شہری حلقے میں سب سے بڑامسئلہ پینے کا آلودہ پانی،ناکارہ سیوریج سسٹم ہے۔ یہاں لڑکوں اورلڑکیوں کے لئے کوئی سرکاری ڈگری کالج نہیں ہے۔ تاہم ہائی سکولوں کو ہائیرسکینڈری کا درجہ ضروردیا گیا ہے۔ یہاں کوئی بڑاسرکاری ہسپتال بھی نہیں ہے۔طالبات کے لئے ڈگری کالج اورہسپتال کے منصوبے کاغذوں کی حد تک نظرآتے ہیں ۔حلقہ کے بہت سے علاقوں میں کئی ایسے بھی ہیں جہاں سوئی گیس تک کی سہولت میسرنہیں ہے جبکہ سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں۔
متعدد آبادیوں میں پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی ،تجاوزات، آلودگی اورناکارہ سیوریج سسٹم بڑے مسائل اس حلقہ میں سیاست دانوں کو منہ چڑاتے ہیں۔ پورے حلقہ میں کوئی بھی پوش آبادی نہیں ہے ۔ یہاں پر مجموعی طور پر ارائیں برادری کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر قوموں میں راجپوت، کمبوہ، جٹ ، شیخ شامل ہیں۔ 1970ء میں شہید ذوالفقار علی بھٹو جبکہ 1988 میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور سے منتخب ہوئے تھے ، تو این اے 124 کے متعدد علاقے جو جی ٹی روڈ کے ساتھ تھے اس حلقہ میں شامل تھے ۔این اے 124میں ٹوٹل ووٹوں کی تعداد 3لاکھ 22 ہزار 697 ہے۔ جن میںمرد ووٹر 1 لاکھ 84 ہزار 231 ہیںجبکہ خواتین ووٹرز 1 لاکھ 38 ہزار 466 ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس حلقہ میں 264پولنگ اسٹیشنز بنائے ہیں جن پر 690پولنگ بوتھ بھی بنائے گئے ہیں۔
11 مئی کو ہونیوالے عام انتخابات کے لئیاس حلقہ انتخاب میں درجن کے قریب امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے تھے ۔این اے 124سے مسلم لیگ ہم خیال کے سیکرٹری جنرل ہمایوں اختر خان نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کروائے تھے تاہم انہیں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے نہ صرف اس حلقے بلکہ کسی بھی جگہ سے ٹکٹ نہ ملنے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، ہمایوں اختر خان کو 2008ء کے انتخابات میں اس حلقہ سے ضمانت ضبط کروانی پڑی تھی، وہ مسلم لیگ ق کے امیداور تھے اب انھوں نے اپنے کاغذات واپس لے لیے ہیں ۔
این اے 124سے آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار الیاس گجر بھی حصہ لے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے لیڈر پرویز مشرف کی گرفتاری پراحتجاجاً الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔دوسری جانب این اے 124 سے ہی جمعیت علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل قاری زوار بہادر بھی امیدوار تھے تاہم وہ سنی تحریک کے امیدوار رضائے مصطفی کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں جنہوں نے اپنے قائد ثروت اعجاز قادری کے ہمراہ گزشتہ روز پریس کانفرنس میں نگران حکومت سے مطالبہ کر دیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا راج ہے لہذا الیکشن ایک ماہ تک ملتوی کیے جائیں ۔تحریک تحفظ پاکستان کے پلیٹ فارم سے میاں عبدالوحید بھی اس حلقہ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔اس کے علاوہ ایم کیوایم کے منیر احمد ،اے این پی کے غلام مصطفیٰ بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔
ا س حلقے میں پاکستان مسلم لیگ ج کے امیدوار عمران احمد خان جو مسلم لیگ ج کے سیکرٹری جنرل اقبال احمد خان مرحوم کے بھانجے ہیں بھی امیدوارہیں تاہم اس حلقہ میں بظاہر مقابلہ 3 بڑی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔مسلم لیگ(ن) نے اس حلقہ سے اپنے سابق ایم این اے شیخ روحیل اصغر کو ہی اپنا امیدوار بنایا ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن کی اہلیہ بشریٰ اعتزاز امیدوار ہیں ۔ اس حلقہ سے علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
2008ء کے انتخابات میں شیخ روحیل اصغر نے اس حلقے سے 70ہزار ووٹ لے کے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان پیپلزپارٹی کے ایاز عمران نے 25ہزار ووٹ لئے تھے ۔دوسری جانب 2002ء میںاس حلقہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن نے 37ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی ۔موجودہ صورتحال میں پیپلزپارٹی کی بشریٰ اعتزازاحسن نے اپنے خاوند اعتزاز احسن کے ہمراہ گذشتہ دو ماہ سے اپنی انتخابی مہم شروع کررکھی ہے۔
انہوں نے علاقہ میں متعدد جلسے اور ریلیاں نکالی ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک کے علاوہ علاقہ کی آرائیں برادری کاووٹ بنک بھی بشریٰ اعتزاز کے ساتھ ہے ۔ اعتزاز احسن اور ان کی اہلیہ بشری اعتزاز اپنے عوامی مزاج کے باعث پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور ووٹروں میں خاصے مقبول ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) کے مدمقابل شیخ روحیل اصغر بھی ان کے مقابلے میں انتخابی دنگل کے ماہر سیاست دان ہیں۔ اس کے برعکس 2008ء کے انتخابات جیتنے کے بعد شیخ روحیل اصغر نے علاقہ کے ترقیاتی کاموں پر توجہ نہیں دی جس کے باعث ان کی اس حلقہ میں بڑی مخالفت پائی جاتی ہے۔
ان پر گیس اور بجلی چوری کے بھی الزامات عائد ہوتے رہے ہیں ۔تیسرے امیدوار ولید اقبال کا تعلق تحریک انصاف سے ہے وہ پہلی دفعہ الیکشن لڑ رہے ہیں انہیں سخت مقابلے کا سامنا ہے وہ اس علاقہ میں نئے ہیں اور علاقہ کے مسائل اور دیگر معاملات سے ابھی تک ناآشنا ہیں ۔پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں لیکن عام انتخابات میں کارکنوں کو ساتھ لے کر چلنا ان کے مزاج کیلئے دشوار نظر آتا ہے، وہ پر امید ہیں کہ عمران خان کی وجہ سے وہ کثیر تعداد میں ووٹ تو لے جائیں گے ۔این اے 124کے نیچے صوبائی اسمبلی کی 2 نشستیں پی پی 145اور پی پی146 ہیں۔ پی پی 145میں ووٹرز کی کل تعداد 1 لاکھ 64 ہزار 837ہے جن میں سے95 ہزار 1سو 99 مرد ہیں جبکہ 69 ہزار 6 سو 38 خواتین ووٹرز ہیں اس حلقہ میں الیکشن کمیشن نے 138پولنگ سٹشنز پر 351پولنگ بوتھ بنائے ہیں اور 138پریذائیڈنگ آفیسرز کے ساتھ 702اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسر اور 351پولنگ آفیسرز کو تعینات کیا گیا ہے۔
پی پی 145سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار حاجی وحید گل ہیں ، وہ سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کوآرڈینیٹر بھی رہے ہیں ۔پیپلزپارٹی کے امیدوار حاجی امداد حسین ہیں جو پہلے مسلم لیگ(ن) میں ہوتے تھے ۔ مشرف دور میں (ق) لیگ میں آگئے اور چودھری پرویز الہی کے کوآرڈینیٹر بن گئے اب جب انہیں (ق) لیگ کی طرف سے ٹکٹ نہ ملا تو وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے ۔تیسرے امیدوار تحریک انصاف کے طارق حمید ہیں جو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں امیدوار پہلی دفعہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ 2008ء کے انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ (ن) کے حاجی نوید انجم منتخب ہوئے تھے مگر اس دفعہ عدالت کی طرف سے نااہل ہونے کے بعد مسلم لیگ(ن) نے حاجی وحید گل کو ٹکٹ دیا ہے ۔
اس حلقہ میں بھی بظاہر مقابلہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی میں ہے۔ حاجی امداد حسین کے لئے یہ حلقہ نیا نہیں ان کی برادری اس حلقہ میں موجود ہے ۔ پرویز الہی کے دور میں انکی ہمشیرہ ریحانہ جمیل نے اس حلقہ میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ہیں جن میں کچی آبادیوں میں سولنگ ، کارپٹ روڈ ، سوئی گیس کی فراہمی اور سیوریج کے نظام کی بہتری شامل ہے ۔ تحریک انصاف کے امیدوار طارق حمید کو بھی ڈرامائی انداز میں ٹکٹ ملا ہے پہلے یہ ٹکٹ تحریک انصاف ضلع لاہور کے نائب صدر افتخار احمد کو دیا گیا تھا جو کہ اس حلقہ کی ایک یونین کونسل کے ناظم بھی رہ چکے ہیں ۔ افتخار احمد اسی رنجش میں اندرون خانہ پیپلزپارٹی کے امیدوار حاجی امداد حسین کی سپورٹ کر رہے ہیں ۔حلقہ پی پی 146میں ٹوٹل ووٹروں کی تعداد 1لاکھ 57 ہزار 8 سو 60 ہے جن میں مرد 89ہزار 32اور خواتین ووٹرز کی تعداد 68ہزار8 سو 28 ہے ۔
الیکشن کمیشن نے اس حلقہ میں 126پولنگ اسٹشنوں پر 339پولنگ بوتھ بنائے ہیں اور 126پریزائیڈنگ آفیسرز کے ساتھ 678اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسرز اور 339پولنگ آفیسرز کو تعینات کیا گیا ہے ۔اگر حلقہ پی پی 146کی بات کی جائے تو یہاں بھی مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان ہے تاہم پیپلزپارٹی کے امیدوار سرپرائز دے سکتے ہیں۔ پی پی 146میں مسلم لیگ(ن) کے حاجی ملک محمد وحید ،تحریک انصاف کے جمشید اقبال چیمہ اور پیپلزپارٹی کے زاہد ذوالفقار خان امیدوار ہیں۔ اس حلقہ کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو 2008ء کے انتخابات میں یہاں سے مسلم لیگ(ن) حاجی اللہ رکھا نے 33ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 2002ء کے انتخابات میں یہاں سے پاکستان پیپلزپارٹی کے حاجی محمد اعجاز نے 19ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی ۔
حاجی ملک محمد وحید یوسی 56 غازی آباد یونین کونسل کے ناظم بھی رہے ہیں اور انہوں نے اور ان کے نائب ناظم الحاج محمد آصف بٹ نے ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ہیں ۔2008ء کے انتخابات میں بی اے نہ ہونے کے باعث ملک محمد وحید کو اس حلقہ سے ایم پی اے کا ٹکٹ نہ مل سکا اور مسلم لیگ (ن) نے حاجی اللہ رکھا کو ٹکٹ دیدیا مگر اب بی اے کی شرط ختم ہونے کے بعد 2013ء کے انتخابات کے لئے مسلم لیگ(ن) نے حاجی اللہ رکھا کے بجائے ملک محمد وحید کو ٹکٹ دیا ہے، جس کے باعث اس حلقہ میں (ن) لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار زاہد ذوالفقار خان جو لاہور کے صدر بھی ہیں الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ دھیمے مزاج کے مالک زاہد ذوالفقار خان نے بھی گذشتہ 2ماہ سے اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے جس میں وہ خاطر خواہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں ۔
تحریک انصاف کے امیدوار جمشید اقبال چیمہ این اے 124سے ایم این اے کے امیدوار تھے مگر پارٹی نے انہیں صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹ جاری کردیا ۔ جمشید اقبال چیمہ نے بھی گذشتہ ایک سال سے اس حلقہ میں انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے انہوں نے بھی اس حلقہ میں طوفانی دورے کئے ہیں اور حلقہ کی یوتھ کو آرگنائز کیا ہے ۔ جس سے یہ لگ رہا ہے کہ اصل مقابلہ ملک محمد وحید اور جمشید اقبال چیمہ کے درمیان ہے تاہم دونوں کی لڑائی میں زاہد ذوالفقار خان کو فائدہ پہنچنے کے بھی امکانات موجود ہیں ۔