سید عباس اطہر شاہ جی کی رحلت

سید عباس اطہر کو عہد رواں کی اردو صحافت کا امام کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا.


Editorial May 06, 2013
سید عباس اطہر نے اردو صحافت کو نئے اسلوب سے آراستہ کیا۔

روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر' نامور صحافی' منفردکالم نگار اور شاعر سید عباس اطہر(شاہ جی) پیر اور منگل کی درمیانی شب طویل علالت کے باعث اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) انھیں پھیپھڑوں کے کینسر کا عارضہ لاحق تھا۔وہ تقریباً پانچ ماہ سے اسپتال میں زیر علاج تھے' سید عباس اطہر کو عہد رواں کی اردو صحافت کا امام کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

انھوں نے اردو صحافت کو نئے اسلوب سے آراستہ کیا' ان کی زیر ادارت شایع ہونے والے اخبارات کی سرخیاں (ہیڈ لائنز) قارئین کو پوری خبر پڑھنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کراچی میں روزنامہ انجام سے کیا' پھر لاہور آ کر روزنامہ ''امروز'' اور روزنامہ ''آزاد ''سے ہوتے ہوئے روزنامہ ''مساوات ''کے ایڈیٹر بنے' 1970کے الیکشن کے دوران ان کی بنائی ہوئی ہیڈ لائن ''ادھر تم ادھر ہم'' نے بے مثال شہرت پائی۔

ضیاء الحق کے دور میں شاہی قلعے میں قید کاٹی اور رہائی کے بعد امریکا چلے گئے' وہاں سے وطن واپس آ کر پھر صحافت کے میدان کارزار میں اترے' انھوں نے روزنامہ ''صداقت ''کے نام سے اپنا اخبار بھی نکالا لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث اسے بند کرنا پڑ گیا' انھوں نے جون 2006 میں روزنامہ ''ایکسپریس'' جوائن کیا اور اپنی آخری سانسوں تک اس سے وابستہ رہے' وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور صحافت میں آنے والے نوجوانوں کے لیے ایک ادارہ تھے۔

سید عباس اطہر ''کنکریاں ''کے نام سے کالم بھی لکھتے تھے' ان کے کالم میں طنز کا عنصر نمایاں تھا' اردو کالم نگاروں میں شاید ہی کوئی دوسرا کالم نگار ہو جو ان کے طنز کو پہنچ سکے' وہ بلا کے ذہین اور بذلہ سنج تھے' کالم میں جسے ''جملہ مارنا'' کہتے ہیں' اس فن کے وہ بادشاہ تھے' وہ بنیادی طور پر شاعر تھے' لیکن صحافتی مصروفیات کی بنا پر شاعری پر توجہ نہیں دے سکے تاہم ان کے دو شاعری کے مجموعے بھی شایع ہوئے ہیں' سید عباس اطہر نے اپنے کیرئیر میں نیوز روم کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔

انھوں نے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کیرئیر کا آغاز کیا' پھر نیوز ایڈیٹر سے ہوتے ہوئے ایڈیٹر بنے اور کیرئیر کے آخر میں گروپ ایڈیٹر ہوگئے لیکن اس کے باوجود وہ خود خبریں دیکھتے اور ان کی سرخیاں بناتے تھے' وہ صحافیوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جنھیں اپنے کام سے عشق تھا' انتھک کام کے قائل تھے اور کینسر جیسی موذی بیماری کی بھی پروا نہیں کی۔ بیماری کے باوجود کام کرتے رہے' ان کی موت سے صحافت کی دنیا کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا' ایکسپریس ٹیم کی دعا ہے کہ خدا انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔(آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |